جنگلات اور انسان کا ساتھ دنیا
کی ابتداءسے ہی ہے۔ پہلے انسان جنگلات اور غاروں میں رہتا تھا جبکہ غذائی
ضروریات جنگلات میں موجود پھل، بیج اور جڑی بوٹیوں وغیرہ کو کھا کر پورا
کرتا تھا۔ پھر انسان نے ترقی کی اور درختوں کو کاٹ کر اسی جگہ مٹی و پتھر
کے گھر بنا کر رہنے لگا۔ بس انسان نے یہی غلطی کی جس کا خمیازہ ہمیں آج
ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں بھگتنا پڑھ رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی موجودہ
دور میں انسان کو درپیش بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ آج انسان دوسرے سیاروں پر
زندگی کے آثار ڈھونڈنے میں مگن ہے اور اس پر اربوں، کھربوں ڈالر خرچ کر رہا
ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی سے نجات اور جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنے کے لئے کوئی
خاطر خواہ انتظامات نہیں کیئے جارہے۔
جنگلات کا کٹاﺅ ماحول کے آلودہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر جنگلات کے بے
دریغ کٹاﺅ کو نہ روکا گیا تو اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کی زندگیوں
کو موت کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سائنس و ٹیکنولوجی کی ترقی، مشینوں کے
استعمال اور جنگلات کے کٹاﺅ کے سبب زمین کے گرد موجود حفاظتی تہہ اوزون میں
شگاف پیدا ہو گیا ہے۔ اوزون ہی کی وجہ سے زمین پر سورج کی شعاعیں ترچھی
پڑتی ہیں جس سے درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہوتا مگر جب سے امریکا کے قریب
اوزون کی تہہ میں شگاف پڑا ہے، زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو
رہا ہے۔ ماہرین ماحولیاتی آلودگی سے بچاﺅ کے لیئے زیادہ سے زیادہ درخت اور
پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ہنگامی
بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ اکثر ممالک اس مسئلے پر قابو پانے میں کسی
نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں، مگر ماحولیاتی آلودگی کسی ایک ملک کا
مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کو مل کر اس حوالے سے لائحہ عمل اختیار
کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ماحولیاتی
آلودگی نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا
اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں
جنگلات کا کل رقبہ چار عشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل
رقبے کا تقریبا ًچار عشاریہ آٹھ فیصد ہے جبکہ درختوں کے اس چھوٹے رقبے کو
بھی تعمیراتی کمپنیز اور ٹمبر مافیا بڑی تیزی سے کاٹ رہا ہے۔ ملک میں قدرتی
جنگلات کے رقبے میں ہر سال ستائیس ہزار ہیکٹر کی کمی ہو رہی ہے جو ایک
نہایت تشویشناک امر ہے کیونکہ درختوں کا کٹاﺅ آلودگی میں اضافے کے ساتھ
ساتھ انسانی زندگیوں اور جنگلی حیات کو بہت متاثر کررہا ہے۔
پاکستان میں صرف آزاد کشمیر میں تقریباً چالیس فیصد رقبے پرجنگلات موجود
ہیں، یہاں سب سے قیمتی درخت وادی نیلم میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں دیودار،
کائل، فر، بلوط، اخروٹ، چیڑھ اور دیگر کئی اقسام کے قیمتی درخت شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ان ہی جنگلات سے حاصل
ہوتا ہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے پھل، قیمتی جڑی بوٹیاں، ادویاتی پودے، شہد
اور دیگر اجناس سے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے، مگر ان جنگلات کو
بھی سرکاری و غیر سرکاری طور پر بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے اور ان کی لکڑی
اور دیگر پیداواری اشیاءقانونی و غیر قانونی ہر دو طریقوں سے باہر سمگل کر
دی جاتی ہیں۔ ان علاقوں میں ایسی نایاب اور قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں
جو خطرناک امراض کا علاج ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مری کے جنگلات کسی دور میں اتنے خوب صورت اور
گھنے ہوا کرتے تھے کہ سورج کی کرنیں بہ مشکل ہی زمین تک پہنچنے کا راستہ
تلاش کر پاتی تھیں جبکہ آج کل ٹمبر مافیا ان جنگلات کو کاٹنے میں مصروف ہے
اور اسی وجہ سے اب گرمیوں میں مری کا درجہ حرارت بھی 30 درجے سینٹی گریڈ تک
چلا جاتا ہے۔ یہاں ہر سال سرکاری چیرائی کے دوران خشک درختوں کی کٹائی کے
ساتھ ساتھ ٹمبر مافیا سرسبز درختوں کو بھی کاٹ دیتا ہے، جس کی وجہ سے
درختوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی افراد
بھی ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پورا سال درختوں کا صفایا کرتے
رہتے ہیں۔جنگلات ماحول کو ٹھنڈا اور خوشگوار بنانے، آکسیجن کی زیادہ مقدار
فراہم کرنے اور عمارتی لکڑی حاصل کرنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ یہاں
انواع و اقسام کے پرندے، جانور اور حشرات الارض بھی پرورش پاتے ہیں۔ جنگلات
میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں، پھل پھول، شہد اور دیگر اشیاءانسان کی بہت
سی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگلات پانی کی فراہمی کا
ذریعہ بنتے ہیں جو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ جن علاقوں میں
جنگلات زیادہ ہوتے ہیں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ بارش کا پانی
جنگلات میں قدرتی طور پر تیار ہونے والی کھاد کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا اور
میدانوں میں بکھیر دیتا ہے جس سے میدانی علاقوں کی زمین زرخیز ہو جاتی ہے
اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ درختوں والے علاقوں میں
بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
درخت زمین کو کٹاﺅ سے روکتے اور سیلابی پانی کو کنٹرول کر کے تباہی سے
بچاتے ہیں۔ ہر ملک کے کم از کم پچیس سے چالیس فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا
ضروری ہے۔
جنگلات کے کٹاﺅکی وجہ سے جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کے
مطابق کئی قیمتی اور نایاب جانوروں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے اور بعض
جانوروں کی نسلیں تو بالکل ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ ان جنگلات میں چیتا،
ریچھ، نافہ ہرن، مارخور جیسے جانوروں کے علاوہ مرغ زریں، تیتر اور بے شمار
دوسری اقسام کے پرندوں کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے۔ جنگلات فضاءمیں کابن
ڈائی اوکسائیڈ کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے کیونکہ انھیں خود اس گیس کی
ضرورت ہوتی ہے اور یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لازمی
ہے۔ ایک عام درخت سال میں تقریباً بارہ کلو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ جذب
کرتا ہے اور چار افراد کے کنبے کے لئے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔
ایک ہیکٹر میں موجود درخت سالانہ چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں۔
بھیڑ، بکری، اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلات سے حاصل کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق درختوں کی مسلسل کٹائی کے باعث پچھلی دہائی میں ضائع کئے
گئے درختوں کا متبادل حاصل کرنے کے لئے کروڑوں ملین ہیکٹرز پر پودے لگانے
کی ضرورت ہے۔ زمین کی زرخیزی کو قائم رکھنے اور پانی کے لئے کئی ملین ہیکٹر
کم درجے کے جنگلات والی زمین اور ویران علاقوں میں دوبارہ جنگلات اگانے
ہونگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت درختوں کے کٹاﺅ کو روکنے اور نئے پودے
لگانے کے لئے مضبوط قانون بنائے اور اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کرے۔ |