سعودی دور سے قبل ترک حکومت کی
عقیدت و ہنر مندی کی سنہری داستان
جس راستے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا رُخ کیا تھا ۔ ترک بھی
اس آبائی راستے پر چل نکلے تھے۔ غار ثور کو انہوں نے بالکل نہ چھیڑا، نہ
تو اس کے جالے صاف کئے اور نہ ہی کبوتروں کے صدیوں پُرانے گھونسلوں کو ختم
کیا۔ غار ثور کو انہوں نے مکڑیوں اور کبوتروں کے سپرد ہی رہنے دیا کہ اب
وہی اس گوشے کے مالک ہیں۔ غار حرا تک کی نہایت مشکل چڑھائی کو بھی انہوں نے
آسان بنانے کی کوئی کوشش نہ کی تاکہ چڑھنے والوں کو چوٹی تک پہنچنے کے جتن
کا احساس برابر ہوتا رہے۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ دو تہائی چڑھائی پر ایک
نہایت سادہ سا خانہ بنادیا تاکہ بارش کا پانی کبھی کبھی جمع ہوسکے اور بچے
بوڑھے اور عورتیں اگر چاہیں تو چڑھائی کے دوران پانی پی کر پیاس بجھا سکیں۔
راہِ ہجرت: اس کے بعد انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے لے کر
مدینے کے اطراف میں قائم بنو نجار کی کچی بستی تک ہجرت کے راستے حتمی تعین
کرکے نقشہ مرتب کیا، ترک جت حجاز پہنچے تو بنو نجار تتر بتر ہوچکے تھے پھر
بھی ترکوں نے بچے کھچے لوگوں کو تلاش کیا اور سینہ بہ سینہ محفوظ ان کی
یادداشت کو پہلی بار قلم بند کیا۔ پھر مسجد قبا کو نہایت ہی ہنر سے بحال
کرنے کے بعد وہ کچھ دیر اس کنویں کی منڈیر پر بھی سستانے کو بیٹھے کہ جہاں
ہجرت کے بعد پہلی نماز ادا کرکے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام
فرمایا تھا اور جس کے آپ کو دیکھ کر آپ سے آپ اونچے ہوتے پانی میں آپ
نے اپنے چہرے کا شفاف عکس دیکھ کر پہلے ایک لمحہ توقف اور پھر مسرت کا
اظہار فرمایا-
مسجد نبوی: کی تعمیر بھی ایمان،ہنر مندی،صبر،پاکیزگی اور نفاست کی ایک عجیب
اور انوکھی داستان ہے۔ پہلے چند برسوں تک ترکوں کو ہمت نہ ہوئی کہ وہ مسجد
نبوی کی تعمیر کریں۔ ان کے نزدیک یہ ایک کائناتی اور انسانی حدود سے ماورا
طاقتوں کے بس کا عمل تھا اور وہ محض انسان تھے۔ مگر جب انسان سچی محبت کرتا
ہے تو وہ اپنے آپ سے باہر قدم دھرنے کی ہمت بھی کرلیتا ہے سو اپنی محبت کی
سچائی کے سہارے انہوں نے یہ کام شروع کرنے کا ارادہ کیا۔
اعلان: ترکوں نے اپنی وسیع سلطنت اور پھر پورے عالم اسلام میں اپنے اس
ارادے کا اعلان کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اس حتمی
کام کے واسطے ان کو عمارت سازی اور اس سے متعلقہ علم اور فنون کے ماہرین
درکار ہیں۔ یہ سننا تھا ہندوستان ،افغانستان چین وسطی ایشیاء ایران عراق
شام مصر یونان سمالی اور وسطی افریقہ کے اسلامی خطوں اور نہ جانے عالم
اسلام کے کس کس کونے اور کس کس چپے سے نقشہ نویس معمار سنگتراش بنیادیں
رکھنے والے ہنر مند،خطاط،پچہ کار شیشہ گر،سیسہ ساز،کیمیاء گر،رنگ ساز اور
رنگ شناس ہنر مندوں نے دنیائے اسلام کے گوشے گوشے سے اپنے اہل و عیال کو
سمیٹا اور اس ازلی بلاوے پر روانہ ہو گئے۔
آغاز: پتھر کی بالکل نئی کانیں دریافت کیں کہ جن سے صرف ایک بار پتھر حاصل
کرکے ان کو ہمیشہ کے لئیے بند کردیا گیا۔ بالکل نئے اور اَن چھوئے جنگل
دریافت کئے گئے اور ان کو کاٹ کر آسمان تلے موسمایا گیا رنگ سازوں نے عالم
اسلام میں اگنے والے درختوں اور خاکی و آبی پودوں سے طرح طرح کے رنگ حاصل
کئے اور شیشہ گروں نے شیشہ بنانے کے لئے حجاز ہی کی ریت استعمال کی۔ پچہ
کاری کے قلم ایران سے بن کر آئے جبکہ خطاطی کے واسطے نیزے دریائے جمنا اور
دریائے نیل کے پانیوں کے کنارے اگائے گئے۔ یہ سارا سامان بمعہ ہنر مندوں کی
جماعت کے نہایت ہی احتیاط سے پہلے خنکی پھر سمندر اور پھر خشکی کے راست
حجاز کی سر زمین تک پہنچا دیا گیا۔ جہاں مدینے سے چار فرسنگ دور ایک نئی
بستی اس تمام سامان کو رکھنے اور ہنر مندوں کے تعمیر کے دوران رہنے سہنے کے
واسطے پہلے ہی تیار ہو چکی تھی۔
بارہ میل: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تعمیر مدینے میں ہونی تھی تو
پھر ساز و سامان مدینے ہی میں رکھا جاتا ۔ آخر یہ چار فرسنگ (بارہ میل)
دور کیوں؟ اس کی وجہ ترک یہ بتاتے ہیں کہ عمارتی عمل میں شور کا بے حد
امکان تھا جبکہ وہ چاہتے تھے کہ عمارت کی تعمیر کے دوران مدینے میں ذرہ بھر
بھی کوئی شور نہ ہو اور جس فضا نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
آنکھیں دیکھیں اور آواز سُنی ہوئی تھی۔ وہ اپنی حیا سکون اور وقار قائم
رکھے۔ سو ہر ایسا کام جس میں ذرا بھی شور کا امکان تھا، مدینے سے چار فرسنگ
کے فاصلے پر ہوا اور پھر ہر چیز کو ضرورت کے مطابق مدینے لے آیا گیا۔ ایک
ایک پتھر پہلے وہیں کاتا گیا اور پھر مدینے لاکر نصب کیا گیا۔ کبھی ایسا
بھی ہوا کہ چٹائی کے دوران کسی پتھر کی کٹائی ذرا زیادہ ثابت ہوئی یا کوئی
مچان یا جنگلہ چھوٹا بڑا پڑا تو اس کو عجلت میں ٹھوک بجا کر وہیں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ٹھیک نہیں کیا گیا بلکہ چار فرسنگ دور کی
بستی میں لے جاکر درست کیا گیا اور دوبارہ واپس لایا گیا۔
۵۰۰ ہنر مند: جب سارا عمارتی سامان اپنی خام شکل میں مدینے کے مضافات والی
بستی میں پہنچ گیا اور ساتھ ہی پانچ سو کے لگ بھگ ہنر مندوں کی جماعت نے
بھی اس بستی میں آکر سکونت پالی تو سب کچھ اب اس جماعت کے سپرد کردیا گیا۔
اپنے فنون کے استعمال اور اپنے تخلیقی عمل میں یہ فنکار و ہنر مند بالکل
آزاد تھے۔ صرف دو احکامات ان کو دئیے گئے۔ اول یہ کے تعمیر کے لمحہ اوّل
سے لے کر لمحہ تکمیل تک اس جماعت کا ہر ہنر مند اپنے کام کے دوران وہ ہر
لمحہ تلاوت قرآن پاک جاری رکھے۔
۱۵ سال: باوضو حافظ قرآن ہنر مندوں کی یہ جماعت پورے پندرہ برس تک مسجد
نبوی کی تعمیر میں مصروف رہی اور پھر ایک صبح آئی کہ مسجد نبوی کے خلائی
نشان کی چوٹی سے فجر کی اذان نے زمین سے نہایت بھروسے اور ایمان سے اگی اس
عمارت کے مکمل ہونے کا اعلان کیا۔
اب خلا محفوظ بھی تھی اور آزاد بھی۔ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی۔
یاد رہے کہ اتنا عظیم ایمانی اسلامی مثالی تاریخی کام اس دور میں سر انجام
دیا گیا جبکہ ذرائع مواصلات کی موجودہ مشینی سہولتیں میسر نہ تھیں اور
بھاری بوجھ نہایت سست رفتاری اور صبر سے ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوڑے یا
اونٹ کے ذریعے لے جایا جاتا تھا۔ (سبحان اللہ) |