”گرم مزاجی“

پندرہ سال بعد ہماری ملاقات ہورہی تھی۔ کئی دنوں سے آنکھیں چارہوتے لیکن صحیح طرح پہچان نہ پاتے۔ آج جب اتفاقاًقریب سے گزرے تو اس نے تذبذبانہ انداز میں نام لے کر پکارا”میں نے آپ کو پہچاننے میں غلطی تو نہیں کی۔ میں نے ذہن پر زور دے کر کہا یقیناً آپ شاہ زیب ہیں۔

مختصر ملاقات میں ہم پندرہ سالہ طویل عرصہ ایک دوسرے سے شیئر کرچکے تھے۔ ان پندرہ سالوں میں وہ رزق کی تلاش میں گھاٹ گھاٹ کاپانی پی چکاتھا۔اس نے تعلیم کے بعد سے اب تک کی کہانی گوش گزار کی۔ ڈرائیونگ سے لے کر اندرون خانہ تک کاقصہ میں نے غور سے سنا۔

شاہ زیب سے رخصت لے کر جب کام کرنے بیٹھا تو ذہن کے نہاں خانہ میں اس کی کہانی گردش کرنے لگی۔ ہر جگہ ناکامی اس کا منہ چڑارہی تھی۔ مجھے اس کی ناکامی کے پیچھے ایک ہی وجہ نظر آئی”گرم مزاجی“۔ امن وامان سے بھر پور ملک قطر میں چین کی زندگی گزار رہا تھا۔معمولی سی بات پر اپنے ساتھی کا سر پھوڑ ڈالاجس کی پاداش میں ملک بدر ہونا پڑا۔پاکستان آکر ایک ادارے میں ملازمت کی۔ کچھ عرصہ محنت کرکے اپنی جگہ بنالی ۔ گھر بار بھی ادارے کی طرف سے ملا لیکن ایک دن مزاج کی گرمی نے یہاں سے بھی بے دخل کیا۔ دوسرے ادارے میں ملازمت ملی یہاں بھی چند ماہ بعد ڈاک کے وہی تین پات۔ گھر والوں سے بھی اس کی نہیں بنتی۔اس مزاج کی گرمی نے تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد بھی آج اسے ایک معمولی لوڈر ہونے پر مجبور کیا ہے۔

یہ صرف ایک شاہ زیب کی کہانی نہیں ۔ آپ ذرانظر دوڑائیں آپ کو پاکستانی قوم کی اکثریت شاہ زیب کی صورت میں ملے گی۔ جہاں بھی جائیں مزاج کی گرمی آپ کااستقبال کرے گی۔ہر بڑا بات بے بات اپنے چھوٹے پر رعب جھاڑ کر اپنا اور اس کا موڈ آف کرے گا۔ سفر کرتے ہوئے آپ دیکھیں چھوٹی سی بات پرمسافر باہم دست وگریبان ہوجائیں گے۔

ہم مسلمان ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نمونہ وآئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپﷺنے صبر کو اپنا لباس اور عجزو انکساری کو فخر گرداناہے۔ قرآن مجید میں نوے مقامات پر صبر کاذکر آیاہے جس میں سولہ طریقوں سے صبر سکھلایا گیا ہے۔ غزوہ احد میں رحمة للعالمین ﷺکا جسد اطہرزخمی ہوا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کاش آپ اللہ کے حضور ان مشرکین کے لیے بد دعا فرما دیتے۔ آپﷺ نے فرمایا میں لعنت کرنے والا نہیں خدا کی طرف بلانے والا اور رحمت والا بنایاگیاہوں۔ اے خدا میری قوم کو ہدایت سے سرفراز کر وہ بڑی نادان ہے۔

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق و معاویہ رضی اللہ عنہما کی برسر منبر عوام نے سرزنش کی۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیاکہ ہماری رعایاجی حضوری نہیں، روک ٹوک کرنے والی اور برے کاموں سے روکنے والی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ یہودی کو قتل کرنے والے ہی تھے کہ اس نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔آپ نے صرف اس لیے یہودی کی جان بخشی کردی کہ اگر اب قتل کروں گاتو رب کے لیے نہیں بلکہ اپنے نفس کے لیے ہوگا۔

نعمان بن ثابت جنہیں امام اعظم ابو حنیفہ کے نام سے پہچانا جاتاہے جن کے شب وروز دین کی خدمت کرتے اور فقہی مسائل کی گتھیاں سلجاتے گزرے۔ تاریخ میں لکھاہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا، انہیں ضروری بات کاکہہ کرمصروفیات سے نکال کرایک گوشہ میں لے گیا۔ وہاں کافی دیر ذہن پر زور دینے کے بعد کہنے لگا مجھے یاد نہیں آپ سے کیا پوچھنا تھا۔ تین دن متواتر یونہی کرتا رہا، چوتھے دن کہنے لگا مجھے آپ کی والدہ کارشتہ درکار ہے۔امام اعظم رحمة اللہ غصہ ضبط کرکے اندر کی طرف جاتے ہوئے کہنے لگے ”میں پوچھ کر بتاتا ہوں “۔

ہماری سنہری تاریخ روشن مستقبل کے لیے مشعل راہ ہے لیکن ہم اگر برکت کے لیے اسے پڑھ بھی لیں تو عملی دنیا میں اس پر عمل کار دارد سمجھتے ہیں۔من حیث القوم ہم ہر کام سوچنے سمجھنے کے بجائے گرم مزاجی سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چونسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی ہم روز لاشیں اٹھاتے ہیں، غیروں کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں، آئے روز ہماری خود مختاری پر حملہ ہوتاہے۔ ملائیشیا، چین اور بھارت ہم سے کم عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ہم اگر اپنے تمام شعبوں میں سیاست سے لے کر کاروبار تک، مذہبی معاملات سے لے کر نجی زندگی تک گرم مزاجی کو بالائے طاق رکھ کر حکمت عملی، دانشمندی اور اتفاق واتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو ہم یونہی بم دھماکوں، مہنگائی کے طوفانوں اور ایک دوسرے سے نفرت زدہ زندگی بسر کرتے رہیں گے اور دشمن یونہی ہماری خود مختاری پر سانحہ ایبٹ آباد، مہران بیس اور سلالہ چیک پوسٹ کی صورت میں حملہ آور ہوتا رہے گا۔
Abrahim Hussain Abidi
About the Author: Abrahim Hussain Abidi Read More Articles by Abrahim Hussain Abidi: 60 Articles with 64010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.