میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر

تمام جانداروں،چرند،پرند اور ساری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا پھر حضرت انسان کو یہ امتیاز بخشا کہ اسے تمام مخلوقات سے افضل بناتے ہوئے اشرف المخلوقات بنا دیا ،چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اللہ کا شکر بجا لاتا ،اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ،اور اپنے رب کی خوشنودی و رضا کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرتا ،لیکن انسان نے احکامات خداوندی کو پس پشت ڈال دیا اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی فراموش کر دیا ،بلا شبہ اللہ تعالےٰ کی ذات ایک رحیم و کریم ذات ہے وہ اپنے فضل و کرم اور رحم سے اپنے حقوق تو معاف کر دے گا لیکن اپنے بندوں کے بندوں پر فرض کئے گئے حقوق نہیں معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ اپنے بندے سے ماﺅں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے ،فرمایا (جس کا مفہوم ہے)”کہ میں بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع میں اس کا ذکر کرتا ہوں اگر بندہ میری طرف ایک بالشت متوجہ ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ ادھر متوجہ ہوتا ہوں اور اگر بندہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ، اور اگر بندہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کے اس کی طرف آتا ہوں “

آج کل انسان ترقی کی مدارج طے کرتا جا رہا ہے پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جہاں انسان تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا جا رہا ہے وہیں اخلاقی اقدار میں تنزلی کا شکارہوتا چلا جا رہا ہے آج انسان چاند پر تو پہنچ گیا اور کئی دوسرے سیاروں کو بھی فتح کرنے میں لگا ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ مفاد پرست اور خود غرضی میں انتہا کے درجے کو پہنچا ہوا ہے ،بناوٹ اور ظاہری ٹھاٹ باٹھ میں تو ہم کافی آگے نکل آئے ہیں لیکن خلوص ،محبت و مروت کابیش بہا قیمت خزانہ انسان میںختم ہوتا جا رہا ہے اور ہم تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں شاید اقبالؒ نے اسی لئے کہا تھا
نہ مروت،نہ محبت،نہ خلوص ہے اقبال
میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر

آج ہم اخلاقی تنزلی میں اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں کا احساس تو دور کی بات اپنوں کے حال کابھی علم نہیں ہوتا ،ہم خودغرضی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں محبت کا وجود ہم میں صرف اپنے مفاد تک محدود ہوچکا ہے مانا کہ انسان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے لیکن اسے اپنی اخلاقی اقدار کو بھی یاد رکھنا چاہئے آج کہیں کوئی حملہ ہوتا ہے،ایکسیڈنٹ ہوتا ہے یا کوئی بھی حادثہ ہوتا ہے ہم یہ سوچ کر چپ سادھ لیتے ہیں کہ اس حادثے میں ہمارا تو کوئی نقصان نہیں ہوا،ہم خود تو محفوظ ہیں آج ہم میں بے حسی انتہا کی حدتک عود کر چکی ہے اگرساتھ والے گھر میں کوئی میت بھی پڑی ہو تو دوسرے گھر میں شادی بھی ہو رہی ہوتی ہے اور ڈرم بھی بج رہے ہوتے ہیں ایک طرف ماتم اور بین کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیںتو اس کے ساتھ والے گھر میں گانے اور رقص و سرورکی محفلیں جمی ہوتی ہیں ،میں تو آج بھی کہوں گا کہ یہی ترقی ہے تو پسماندگی اس سے کئی گنا بہتر تھی جس میں ہمیں دوسروں کا احساس تو ہوتا تھا ایک دوسرے کے دکھ درد کو تو بانٹا جاتا تھا ،ماہرین کی رائے میں دنیا روز بروز ترقی کی طرف گامزن ہے لیکن میری ناقص رائے میں ہم روز بروز تنزلی کی طرف رواں دواں ہے لیکن آج بھی رب تعالیٰ ہمارا منتظر ہے جس کے فرمان کا مفہوم ہے ”اے ابن آدم!ایک تیری چاہت ہے اور اک مری چاہت ہے ہو گا وہی جو میری چاہت ہے پس اگر تو حوالے کر دے اس کے جو میری چاہت ہے تو میں تجھے وہ بھی دوں گا جو تیری چاہت ہے اور اگر کی تو نے مخالفت اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تجھے تھکا دوں گا اس میں جو تیری چاہت ہے، ہوگا پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے“

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نیک اور سیدھے راستے پہ چلا جس پر تو نے انعامات دینے کا وعدہ کیا ہے اور ہمیں گمراہی والے اور ایسے راستے سے بچا جس سے ہم پر تیرا غضب اور عذاب نازل ہوسکتا ہے۔آمین
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 188157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.