کیا ’فائٹ بیک ‘ کے ذریعے ہوسکے گی خواتین کی حفاظت؟

ہندوستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے دوران مغربی تہذیب کے زیر اثرسیاسی میدان سے لیکر دفتروں میں کام کرنے تک کے بے شمار شعبوں میں عورتوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح بعض اوقات انہیں شہروں میں نقل و حرکت کے دوران بلکہ کام کاجی مقامات پر بھی خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے جس میں دہلی جیسے مرکزی دارالحکومت میںزیادتیوں کے واقعات مسلسل منظر عام پرآتے رہے ہیں۔2010 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نئی دہلی میں جنسی حملوں کے 400 سے زیادہ واقعات پیش آئے جبکہ ’آف ریکارڈ‘ سانحات کے تو اعدادوشمار بھی میسر نہیں ہیں لیکن اب ان پر قدغن کی صورت نکل ہے ۔موصولہ اطلاعات کے بموجب اب موبائل فون کے سافٹ وئیر ’فائٹ بیک‘fight backکے ذریعے ایک ایسی نئی ٹیکنیکل اختراع پیش کی ہے جس سے انھیں جنسی حملوں سے بچانا آسان ہوجائے گا۔

مذکورہ سافٹ وئیر کے استعمال کے دوران جاری تفصیلات کے مطابق چینا سکہ کی کارگذاری سامنے آئی ہے
جو ان بہت سی ہندوستانی عورتوں کی طرح ہیں جو دفتروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کی شفٹ کافی دیر سے ختم ہوتی ہے۔ کمپنی کی گاڑی انہیں ان کے گھر کے قریب چھوڑ دیتی ہے لیکن انہیں گھر کے دروازے تک پہنچے کیلئے 5سے10 منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ان کا خود اعتراف ہے کہ’ اندھیرا ہو چکا ہوتا ہے اور میرے ارد گرد جس قسم کے لوگ ہوتے ہیںجن کے درمیان خود کو محفوظ نہیں سمجھاجا سکتا۔‘لہٰذا کمپنی کی گاڑی انہیں جیسے ہی سڑک پر اتارتی ہے تو وہ اپنے موبائل فون میں ایک پروگرام آن کر لیتی ہیں جسے ’فائٹ بیک‘کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام جی پی ایس کے ذریعے یہ بتانا شروع کر دیتا ہے کہ وہ اس وقت ٹھیک کس مقام پر ہیں۔ جگدیش مترا اس ٹیک کمپنی کے سی ای او ہیں جس نے فائٹ بیک پروگرام تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں’آپ کو جیسے ہی کوئی پریشانی محسوس ہو، آپ کو اور کچھ نہیں کرنا ہے ، محض ایک بٹن دبانا ہے۔‘
 

image
image

جیسے ہی کوئی خاتون خطرے کا بٹن دباتی ہے‘ اس کے بعد ان کے پاس چند سیکنڈ ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو ٹیکسٹ میسیج، ای میل اور فیس بک کے ذریعے فوری طور پر اس کے محل وقوع کے بارے میں ایک پیغام ان کے دوستوں یا گھرانے کو منتقل ہوجاتا ہے جن کے ناموں کو اس نے اپنی فہرست میں شامل کیا ہوا ہوتا ہے۔اس پروگرام کو استعمال کرنے والوں کا ڈاٹا ایک انٹریکٹو نقشے پر اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ مترا کی مانیں تو ان کی کمپنی نقشے پر نظر رکھتی ہے لیکن کسی پبلک مانیٹرنگ سینٹر کی طرح کام نہیں کرتی۔’قانونی سہولتیں فراہم کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ صرف وہی لوگ قانونی فرائض انجام دے سکتے ہیں جنہیں اس کا اختیار حاصل ہے یعنی پولیس اور ایسے ہی دوسرے سرکاری ادارے۔نئی دہلی میں صنف نازک کے ساتھ گذشتہ برس سیکڑوں کی تعداد میں واقعات پیش آئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خواتین جو’ اپنوں‘ ہی کے ہی ہاتھوں جنسی زیادتی کی شکار ہوتی ہیں‘ وہ کیا کریں گی۔ میڈیا کی بہت سی تنظیموں نے اس شہر کو ہندوستان میں آبرو ریزی کے صدر مقام کا لیبل لگا دیا ہے۔ کلپنا وسوا ناتھ، عورتوں کے حقوق کیلئے جد وجہد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پروگرام بہت اہم ہے اور اسے ایک اہم رول ادا کرنا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ایک بار پھر عورتوں کے سر ڈال دی جائے۔‘

کلپنا وسوا ناتھ عورتوں کے حقوق کی تنظیم جاگوری میں ریسرچ کرتی ہیں۔ یہ تنظیم شہروں کو عورتوں کیلئے محفوظ بنانے کا کام کرتی ہے۔’ہم کس قسم کے شہر چاہتے ہیں؟جبکہ ہماری آبادی تیزی سے شہروں میں منتقل ہو رہی ہے اور آئندہ 20 برسوں میں ہندوستان کی آبادی کی اکثریت دیہاتوں سے شہروں میں منتقل ہو جائے گی۔ لہٰذا اگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ، تہذیب ، ہماری پولیس اور بنیادی سہولتیں ناقص ہیں تو ہمیں ان امور پر توجہ دینی چاہئے۔‘

اس سلسلے میں ہنڈول سنگپتا ایک شہری تنظیم کے بانی ہیں جو فائٹ بیک پروگرام کے شراکت دار ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کے تحفظ کی شکایتوں پر عمل در آمد میں، پولیس نیم دلی سے کام لیتی ہے۔’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس یہ محض ایک آلہ ہے جس کے ذریعے اگر آپ چاہیں تو پولیس کے پاس جا سکتے ہیں‘اور آپ کو ایسا ضرور کرنا چاہئے لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پولیس کے پاس نہیں جائیں گے یا اگر کسی وجہ سے آپ ایساکر نہیں سکتے تو آپ براہِ راست اپنے دوستوں اور گھرانے سے رابطہ کر سکتے ہیں تو ان کیلئے عمدہ پیش رفت ہے کہ وہ اس طرح آپ سکیورٹی کے پورے نظام کو حرکت میں ہی نہیں لا سکتے ہیں بلکہ انہیں کارروائی کرنے کیلئے مجبوربھی کر سکتے ہیں۔‘فائٹ بیک کو تیار کرنے والے کہتے ہیں کہ دہلی میں اور ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پولیس کے اعلیٰ افسروں نے اس پروگرام کے ساتھ باقاعدہ تعلق قائم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے لیکن اس تجویز کی منظور ی اور اس پر عمل درآمد میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126123 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More