بڑے میاں ٹیچرز سے ناراض تھے

بڑے میاں بہت طیش میں تھے۔ وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھے قوم کے معماروں کی شکایت کر رہے تھے۔ دوران شکایت کبھی ان کی آواز بلند ہو جاتی اور رگیں پھول جاتیں تو کبھی دھیمے انداز میں نصیحت آمیز باتیں کرنے لگتے۔ لیکن شکوہ و شکایت ان کی گفتگو میں نمایاں تھا۔

ویسے تو ہمارے ہمارے ہاں ہر کوئی پریشان ہے۔ ہر چوک، چوراہے، دکان اور گلی کے نکڑ پر کھڑے یا بیٹھے لوگ اکثر اوقات شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ کوئی حکومت کی نااہلی کا رونا روتا ہے تو کوئی مہنگائی پر دو حرف بھیجتا ہے۔ کسی کسی کو غم روزگار کھائے جا رہا ہوتا ہے تو کوئی خاندانی چیفلشوں کے مضر نتائج کے راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔

غرض ہر طبقے، زندگی کے ہر شعبے میں آسودگی اور اطمینان عنقاءہو چکا ہے۔

بڑے میاں دور دراز کے کسی گاؤں سے تشریف لائے تھے۔ ان کے کہنہ قمیص پر لگا پیوند، سامنے کے جیب سے ادھڑا ہوا دھاگہ، زردی مائل پگڑی (جو شاید کسی وقت سفید تھی) ان کے حالات کی چغلی کھا رہے تھے۔ انہوں نے آتے ہی سوال داغا: سنا ہے آپ اخباری ہیں؟ میں پہلے تو ان کا اچانک سوال نہ سمجھ سکا، پوچھنے ہی والا تھا کہ خود ہی گویا ہوئے میرا مطلب ہے کہ تم اخبار میں لوگوں کے مسائل لکھتے ہو، اسے ارباب حکومت تک پہنچاتے ہو۔۔۔؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر بابا نے اطمینان کا سانس لیا اور سامنے میز پر سے پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ لیا اور پھر اپنی داستان سنانے لگے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں آج آپ کے پاس ایک شکایت لے کر آیا ہوں۔ میں نے کہا کس قسم کی شکایت۔۔۔۔؟ کہنے لگے: اسکول ماسٹروں کی شکایت۔۔۔ میں قدرے شرمساری سے بولا: بزرگوار! ایسی شکایت تو متعلقہ محکمہ میں کی جاتی ہے اور بھلا میں اس بارے میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔۔۔؟ بزرگ درشت لہجے میں بولے: سر! آپ لکھاری ہیں، میں آپ کے قلم کے واسطے سے اپنی شکایت متعلقہ اتھارٹیز تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ میری احساس ذمہ داری والی رگ پھڑکی اور میں ہامی بھر لی اور عرض کیا فرمائیے!۔

بزرگ کرسی سے ٹیک لگا کر داستان سرا ہوئے۔ سر آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کا اکثر دارومدار سرکاری ملازمتوں پر ہے۔ حکومت نے مختلف شعبوں میں لاکھوں ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں۔ ان کی تنخواہیں حکومت برداشت کرتی ہے۔ اب انہیں دیانتداری سے کام کرنا چاہئے۔۔۔ میں نے پوچھا آپ کا مطلب۔۔۔؟ کہنے لگے سر! اور ملازموں کو چھوڑئیے، ان ماسٹروں کو دیکھئے، ہم گاؤں کے سادہ لوح لوگ ان کو عزت دیتے ہیں انہیں سروں پر بٹھاتے ہیں۔ ماسٹر جی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہر محفل اور مجلس میں انہیں ترجیحی بنیادوں پر دعوت دیتے ہیں۔ ہم یہ سب صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ ماسٹر لوگ ہمارے بچوں کو علم کی روشنی سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ مستقبل گراں بار ذمہ داریوں کو اٹھانے کیلئے انہیں تیار کرتے ہیں، مگر کافی عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ طبقہ شرفاءاپنی ذمہ داریوں سے حد درجہ غافل ہے۔ بڑے میاں نے اپنے سراپے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سر مجھے دیکھئے بوڑھا ہوں، سفید ریش ہوں۔ عمر کا ایک طویل حصہ تجربات و مشاہدات کے درمیان گزار چکا ہوں۔ یقین کیجئے ہمارے زمانے میں ٹیچر لوگ بڑے فرض شناس ہوا کرتے تھے۔ وہ ملازمت کو نوکری سے زیادہ اپنا جنون سمجھا کرتے تھے، لیکن اب دودہائیوں سے تعلیمی شعبے کا نقشہ بدل چکا ہے۔ میں نے بڑے میاں سے کہا کہ آپ ذرا کھل کر تفصیلاً بات کریں تاکہ مدعا سمجھ سکوں۔

بڑے میاں نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے: سر پہلے سرکاری اسکولز ہی لوگوں کے بچوں میں علم کے موتی بانٹا کرتے تھے اور اب شہر تو شہر گاؤں اور دیہاتوں میں بھی ہر گلی اور محلے میں پرائیویٹ اسکول برساتی کھمبوں کی مانند پھیل گئے ہیں۔ تعلیم کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سرکاری اداروں بالخصوص دیہی اسکولوں میں سے بیشتر کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ کہیں ٹیچرز غائب تو کہیں مہینوں ہیڈ ماسٹر ڈھونڈے نہیں ملتے۔ قوم کے بچے سرد و گرم موسموں کی پرواہ کیے بغیر کتابوں کے تھیلے اٹھائے اسکول آتے ہیں اور رسمی اوقات پورے کر کے واپس گھروں کو سدھار جاتے ہیں۔ سر! میں یہاں اسکولوں کی بوسیدہ عمارات اور ناکافی فرنیچر کا رونا نہیں روؤں گا کیونکہ تعلیم حاصل کرنے میں اصل رشتہ استاد اور شاگرد کا ہوتا ہے۔ وہ دونوں سیکھنے سکھانے کی غرض سے جہاں بیٹھ جائیں وہی اسکول ہے (گو کہ حکومت کی ذمہ داری اس بابت اہم ہے مگر لاپرواہی جاری ہے)۔ بڑے میاں انتہائی رازدارانہ انداز میں بولے: سر آپ کو ایک اور بات بتاؤں ---میں تجسس بھری نگاہوں سے بابا کی جانب دیکھنے لگا--- بابا بولے: جناب! ان ٹیچرز میں سے بہت سوں کے اپنے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ یہ حضرات حکومت سے ہر ماہ ہزاروں روپے وصولتے ہیں اور پرائیویٹ اسکولوں کو اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے معتد بہ رقم فیس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ گرچہ میں ان پڑھ بوڑھا ہوں لیکن میں ان معماران قوم سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ حکومت آپ کو کنوینس الاؤئنس، بل الاؤنس، ہاؤس رینٹ اور نہ جانے کتنے الاؤنس دیتی ہے۔ آپ ہر ماہ اپنے کیش بل پر نگاہ دوڑائیں تو اندازہ ہو جائے گا یہ سب سہولیات صرف اس لئے ہیں کہ آپ اپنے پیشے کے تقدس کو برقرار رکھیں۔ قوم کے نونہالوں کو درست انداز میں پروان چڑھائیں، لیکن آپ حضرات خود اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ آپ جب اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے تو غریبوں کے بچوں کا کیا قصور ہے۔۔۔۔؟ کیا وہ آپ کے بچوں کے برابر حقوق نہیں رکھتے۔۔۔؟ کیا ان کے غریب ماں باپ آسودہ مستقبل کے خواب آنکھوں میں نہیں سجاتے۔۔۔۔؟

بڑے میاں بولے جا رہے تھے اور ان کے چہرے کی جھریاں غضب ناکی کی وجہ سے مسلسل پھیل اور سکڑ رہی تھیں۔ یہ ان کے اندر کا درد اور کرب تھا۔ میں مبہوت بیٹھا ان کے سوز بھرے جذبات اور احساسات اپنے ذہن کی میموری میں محفوظ کر رہا تھا۔

وہ کہہ رہے تھے کہ جناب! آپ مجھے بتائیں کہ اگر کوئی ٹیچر اسکول نہ آئے اور دوسرے دن آکر حاضری رجسٹر پر حاضری کا دستخط کرے تو کیا یہ صریح خیانت نہیں۔۔۔؟ کیا یہ قوم کے ساتھ زیادتی نہیں؟ بڑے میاں رازدارانہ انداز میں بولے او سر جی! آپ کیا جانیں۔ دیہی علاقوں میں تو بہت سی جگہوں پر اسکول پڑھنے کے لئے آئے ہوئے طلباءکا بہت سا وقت ان ٹیچروں کے گھریلو کام مثلاً سودا سلف، فصل کٹائی میں بھی صرف ہوتا ہے۔ اور ناسمجھ لوگ بصد عقیدت یہ سب کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے کہ یہ سب درست ہے؟ میں ابھی کل ایک پرائمری گرلز اسکول کے قریب سے گزرا تو وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ٹیچر صاحبہ سر کے بال کھولے بیٹھی ہیں اور دو عدد معصوم بچیاں ان کے سر سے "جویں" تلاش کر رہی ہیں۔ بتائیے یہ سب کیا ہے؟

بڑے میاں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ سر برادری ازم اور خاندانی تعصبات بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا لازمی جزء ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں علم کی دولت بانٹنے والوں کو چاہئے کہ ان تعصبات کو مٹائیں لیکن میں نے بارہا دیکھا ہے کہ دیہی علاقوں کے اساتذہ برادری کی بنیاد پر طلباءمیں فرق کرتے ہیں۔ بعض کمزور کنبوں کے بچوں پر طعنہ زنی سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بتائیے قوم کے نونہالوں میں یہ کیا بانٹا جارہا ہے نفرت کے بیج اگر درسگاہوں میں بوئے جاتے ہوں تو پھر توقع کس سے کی جائے؟

بڑے میاں بہت پر جوش تھے لیکن وقت کا دامن تنگ تھا۔ میں نے کہا آپ اپنی بات کو سمیٹئے وقت کم ہے۔ تو بزرگ سنجیدہ سے ہوگئے۔ کہنے لگے جناب! میری عاجزانہ درخواست ہے کہ ان اساتذہ کرام کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے، کیونکہ قوم کے درخشاں مستقبل کی ضمانت انہی لوگوں نے فراہم کرنی ہے۔ انہیں اپنے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار اس قدر بلند کرنا چاہئے کہ عوام بلکہ خود ان کا اعتماد بحال ہو جائے۔ کیا متعلقہ اتھارٹیز ایسا کر سکیں گی کہ اساتذہ کو اس بات کا پابند بنائیں کہ ان کے بچے سرکاری اداروں میں پڑھیں جہاں غریب مزدوروں کے بچے پڑھتے ہیں۔۔۔۔؟ اگر ممکن ہو تو براہ کرم ایسا کر دیجئے تاکہ غریبوں کا بھی بھلا ہو جائے۔ اساتذہ کرام چھ گھنٹے کیلئے اداروں میں ڈیوٹی سر انجام دینے کیلئے کرتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھا چاہئے کہ ۶ گھنٹوں میں سے ایک ایک منٹ قوم کی امانت ہے۔ کل حشر کے دن (اس وقت کے بے محل استعمال کی صورت میں) قوم کے ہاتھ آپ کے گریبانوں میں ہوں گے۔ خدارا اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کیجئے۔۔۔ بڑے میاں نے ملتجی نگاہوں سے التماس کی کہ آپ اخباری ہیں، کیا میں امید رکھ سکتا ہوں کہ آپ میرانوحہ ٹیچرز اور متعلقہ اتھارٹیز تک پہنچائیں گے۔ میں نے قوم کے اس فکر مند ان پڑھ بوڑھے سے وعدہ کر لیا کہ میں آپ کے درد کے تمام ٹکڑے الفاظ میں بدل کر قلم کی نوک پر دوں گا اور اپنا فرض منصبی ادا کروں گا۔

بڑے میاں نے مجھ سے الوداعی مصافحہ کیا اور دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ دو قدم چلنے کے بعد یکدم پیچھے کو مڑے اور بولے سر! ایک وضاحت کرتو چلوں، وہ یہ کہ اس شعبے میں احساس ذمہ داری سے عاری لوگوں کی بھیڑ کے باوجود بہت سے لوگ انتہائی دیانت دار اور فرض شناس ہیں۔ انہیں میری طرف سے عقیدت کا سلام کہئے گا، وہ عظیم ہیں۔ یہ کہہ کر بڑے میاں باہر نکل گئے اور پھر سے انسانوں کی بھیڑ میں گم ہوگئے لیکن مجھے ان کی اشک آلود نگاہیں اور کرب ناک احساسات اس وقت تک بے چین رکھیں گے جب تک یہ احساسات آپ تک منتقل نہ کر دوں۔۔۔

بڑے میاں پر امید لہجے میں بولے جیتے رہو بیٹا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی آنکھوں کے نیچے کی جھریاں آنسوؤں سے تر تھیں۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 24235 views Reading and Writing... View More