”اللہم صل علی محمد بعد دخلقہ
وزنةعرشہ ورضا نفسہ ومداد کلمات“
الحمد ﷲکہ ہم اس رحمت عالم آقاﷺ امت میں سے ہیں جن کی شان خود مالک کائنات
نے ورفعنا لک ذکرک کہہ کر اتنی اونچی کر دی کہ اس کے اوپر کوئی ذکر ہے تو
وہ خود مالک کا ئنات کا ہے ۔آپ ﷺ ان ظالموں کی ہر زہ سرائیوں سے بالاو برتر
ہیں۔پھر ان کو اس دیدہ دلیری کی ہمت کیسے ہو تی ہے؟؟ انہوں نے رب کائنات کو
کیوں اور کیسے چیلنج کیا ؟
یہ سوال آج 2.2 billions مسلمانوں کو اپنے آپ سے ضرور پو چھنا چاہیئے !
اپنے ایمان کو ٹٹولنا چاہئیے! ہر مسلمان کو خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا
کر نا ہو گا کہ میرے آباءجس شخصیت کے وضو کا پانی زمین پر نہ گر نے دیتے
تھے میرے سامنے اس کی توہین کی جسارت کس طرح ہو رہی ہے ؟؟ اصل میں تو یہ
عشق رسول کے دعویداروں کاامتحان ہے! ایک جانب یہ کہ ہمارے دلوں پہ کیا گزری
دوسری جانب یہ وقت ہمارے احتساب اور جائزے کا ہے !بلا شبہ دل پارہ پارہ ہیں
دکھ سے بھرے ہیں لیکن احتساب اس بات کابھی ضروری ہے کہ جب سمندر کی جھاگ کے
برابر آپ ﷺ کے نام لیوا موجود ہیں تو کفر کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ اس
پاک ہستی کی نا موس کے درپے ہو جس کا ایک ایک نام لیوا ان کی حرمت پر کٹ
مرنے کا دعویدار ہے ؟
٭ کہیں وہ ہمارے قول وعمل کی دورنگی تو نہیں جس نے ہمیں بحیثیت امت دنیا کے
ترازو میں ہلکا کر دیا ہے ۔ہمیں بحیثیت فرد بھی جائزہ لینا ہو گا اور
بحیثیت امت بھی اور اپنے اعمال کے آئینے میں اپنے دعویٰ عشق و محبت کو پر
رکھنا ہو گا کیونکہ رب کی عدالت عظمیٰ میں تو خالی خو لی دعویٰ قبول نہ ہو
گا وہ تو پکار پکار کر کہہ رہا ہے ۔
”والعصر ان الانسان لفی خسر ۔۔۔۔۔
٭یعنی ایمان وعشق کا وہ دعویٰ قبول ہو گا ۔جس کے ساتھ عمل صالح ہو گا،اور
عمل صالح ہی وہ عمل ہے جس کی دعوت نبی کریم ﷺ نے دی اور جس پر آپ ﷺ نے تمام
عمر عمل کیا وہ اخلاق ومعاملات وہ تہذیب جو آپ ﷺ نے پیش کی کیا وہی ہمارے
لیے رول ماڈل ہے ؟ یا ہم کسی اور سے مر عوب ہیں ؟ ہمارا کردار کیا مثال پیش
کرتا ہے ؟
ہم جوعشق رسولﷺ کی محبت کے دعوے دار وں میں سے ہیں سو چیں ذرا کہ!!
٭ ہمارے گھر کونسا نمونہ دکھاتے ہیں؟ ہمارا میڈیا کیسی تصویر دکھاتا
ہے؟ہمارے معاشرے کی اٹھان کیسی ہے؟ آئیے ذرا ایک جھلک دیکھیں :
﴿اخبار یا رسالہ اٹھائیں تو سرورق پر کوئی فاطمہ ،کوئی عائشہ نیم برہنہ
لباس میں جلوے بکھیر تی نظر آ تی ہے! ( دل دہل جا تا ہے)
﴿ T.V کھولیں تو محمد ﷺ کی روحانی بیٹیوں کو رقص کرتے ہوئے پاتے ہیں!(توہین
آمیز کار ٹون آنکھوں کے آ گے لہرا جا تے ہیں)
﴿ سکول کی بچی دوپٹہ اوڑھنے پر ٹیچر کی ڈانٹ اس لئے سنتی ہے کہ اس نے ڈسپلن
خراب کر دیا ہے( سوچ کا مقام ہے کہ نبی کریم ﷺ سے عشق تو اس ٹیچر کو بھی ہو
گا؟)
﴿ کسی ریڑھی سے پھل خریدنے کے بعد گھر جا کر معلوم ہوتا ہے آدھا پھل گلا
سڑا ہے ( بد دیانتی کی وعید یاد نہیں ؟)
﴿ تھانے میں پولیس کسی بے گناہ پر کوڑے برسا کر اس سے اقبال ِ جرم کرواتی
ہے ( رحم کر نے والا فرمان سامنے نہیں ہو تا ؟)
﴿ کوئی جج رشوت لے کر کتنے ہی بچوں کو یتیم کردینے والے قاتل کو بری کر
دیتا ہے ( انصاف کا حکم کیسے پس پشت ڈال دیا جا تا ہے؟)
﴿کو ئی وزیر کمیشن لے کر قوم کے مفادات کو بیچ دیتا ہے ۔( ایفائے عہد کی تا
کید بھول کر منافق کی فہرست میں کھڑا ہو جاتا ہے!)
! ! !
چاروں طرف ڈنمارک کے بھیانک اخبار رقص کر رہے ہیں۔اور ہمارا مذاق اڑا رہے
ہیں کہ کیا یہی تعلیمات تھیں نبی رحمت ﷺ کی؟؟
٭کیاعشق نبی کا صرف یہی تقاضا ہے کہ ہم کچھ تقریریں کر لیں ! کچھ جلوس نکال
لیں! کچھ شیرینی بانٹ دیں ! کچھ چرا غاں کر لیں !
ترے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش کہ شہر کے درو بام کو توسجا دیا |