بوڑھے نوجوان

چھٹی کا دن تھا۔ بیگم نے کچھ ضروری چیزوں کی فہرست تھمائی تو مارکیٹ کا پروگرام بن گیا۔ دونوں بچے بھی چلنے پر بضد ہو گئے تو انہیں بھی ساتھ لیا اور مارکیٹ کو سدھارے۔ اتوار کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم تھا۔ابھی اپنے مطلوبہ اسٹال پر پہنچے ہی تھے کہ اچانک چہروں کے اژدھام میں ایک ادھیڑ عمر شناسا سے چہرے پر نگاہ ٹھہر گئی۔ ”ان سے کہیں ملاقات ہوئی ہے!!“ زیر لب کہا، لیکن کہاں؟حسب عادت بالکل یاد نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں اُن موصوف کی نگاہ بھی مجھ پر پڑ گئی اور وہ تیزی سے میری طرف بڑھے۔

”اللہ خیر کرے....“میرے منہ سے نکلا، اتنے میں وہ صاحب زور سے میرا نام پکار کر پرتپاک انداز میں گلے لگ گئے۔ ان کی گرفت سے بے تکلفی مترشح تھی۔

”ارے تو نے مجھے نہیں پہچانا!؟“میری طرف سے متوقع گرم جوشی نہ پا کرشاید وہ معاملہ سمجھ گیا تھا۔
اس کی بات سن کر میرے چہرے پر موجود تذبذب کے آثار خجالت میں بدل گئے۔

”میں شاہد ہوں، ٹنڈوآدم میں تیرا کلاس فیلو....“اس نے کہا تویکایک ایک اسمارٹ سا لڑکا ہمارے ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کر سامنے آ گیا۔ ”اوہ....شاہد جمیل !! “

”بڑے افسوس کی بات ہے، تم تو بالکل ہی بدل گئے ہو، چہرے پر داڑھی سجا لی ہے، پھر بھی میں نے پہچان لیا،اور تم نے مجھے نہیں پہچانا۔“ اس نے شکوہ کیا تو میں جواب میں نہیں کہہ سکا کہ وہ بھی بالکل بدل گیا ہے۔ کہاں دس بارہ سال پہلے کا وہ دبلا پتلا معصوم صورت نوجوان اور کہاں میرے سامنے کھڑا فربہی مائل یہ شخص جس کے چہرے سے پژمردگی جھلک رہی تھی۔

میں نے اس کی یادداشت کو سراہا اور اس کے چہرے پر ماضی کے وہ نقوش کھوجتے ہوئے‘جو میری یادداشت میں رقم تھے ، معذرت کی تو اس نے خوشدلی سے معذرت کو قبول کیا اور ہم وہیں کھڑے کھڑے ایک دوسرے کے متعلق اَپ ٹو ڈیٹ ہونے لگے۔ وہ کسی پرائیوٹ ٹریڈ کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازم تھا۔باتیں جاری تھیں کہ میں نے اس کی فیملی اور رہائش کے بارے میں پوچھ لیا۔ وہ تھوڑی دیر رکا پھر اس نے دھیرے سے کہا کہ ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے اور وہ گلشن اقبال میں اپنی خالہ کے گھر رہتا ہے اور مہینے میں ایک چکر ٹنڈوآدم کا لگا لیتا ہے! میں حیران رہ گیا۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑا تھا، شاید تین چارسال بڑا.... یعنی اس وقت وہ چھتیس سینتیس سال کا ہو چکا تھا اور ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں حیرانی ظاہر کرتا، اس نے یہی سوال مجھ سے کر دیا۔ میں نے جواب دینے کی بجائے قریب کھیلتے بچوں کی طرف اشارہ کر دیا۔

”ارے....“ اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔ وہ چند لمحے تو ساکت کھڑا بچوں کو دیکھتا رہا۔پھراس نے اچانک بڑھ کر چھوٹی بیٹی کو گود میں اٹھا لیا،لیکن مجھے اس کا انداز فطری نہیں لگا۔ اس کی آنکھوں میں جو چند لمحے پہلے خوشی کے دیے جل رہے تھے، یکایک بجھ سے گئے تھے ۔ اب اس کی نظروں سے کچھ ایسی یاسیت اور شرمندگی ہویداتھی کہ میں خود شرمندہ سا ہو گیا۔

اس کے بعد وہ زیادہ دیر رکا نہیں، ہم نے اپنے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیا اور پھر ملنے کا وعدہ کرکے جدا ہو گئے۔دودن بعد ہی اس کا فون آ گیا۔ میں نے اِدھر اُدھر کی بات کرتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس نے اب تک شادی کیوں نہیں کی۔ دوسری طرف سے اس نے سرد آہ بھری اور پھر بتانے لگا کہ مجھ سے چھوٹی دو بہنوں کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے ، اس لیے اس کا شادی کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔ مزید کرید کرنے پر پتہ لگا کہ وہ چاربھائی اور تین بہنیں ہیں۔سب سے بڑا بھائی اور اس کے بعد ایک بہن شادی شدہ ہیں، وہ تیسرے نمبر پر تھا، اس سے چھوٹے دو بھائی، پھر دو بہنیں جن کی عمریں بالترتیب تیس اور ستائیس سال ہیں‘ غیر شادی شدہ ہیں ، جن کی شادی سے پہلے والدین اس کی شادی کا ذکر کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔اس نے مزید بتایا کہ چھوٹے بھائیوں میں سے ایک بھائی نے تو تیس سال کے ہونے پرلڑ جھگڑ کر شادی کر لی ہے، جس کی وجہ سے والدین اب اس کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے!

میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ جب تمہارا نمبر تھا تو والدین کو تمہاری شادی کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ اتنی چھوٹی لڑکیوں کی وجہ سے بڑے لڑکوں کی عمر یں نکال دی جائیں!تو اس نے جو جواب دیا، وہی اس کالم کو لکھنے کا باعث بنا۔ اس نے کہا کہ ہمارے خاندان میں ایک میں ہی نہیں بلکہ ہردوسرے گھر میں لڑکے چھوٹی بہنوں کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے بوڑھے ہو رہے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ لڑکوں کی شادی کر دیں گے تو پھروہ انہیں سپورٹ نہیں کریں گے اور چھوٹی بہنوں کی شادیوں پر توجہ نہیں دیں گے۔اس لیے اس اندیشہ سے محفوظ رہنے کی آسان تدبیر یہ سمجھی جاتی ہے کہ جب تک گھر کی بچیوں کی شادی نہ ہو جائے چاہے وہ اپنے بھائیوں سے پانچ پانچ سال چھوٹی بھی ہوں تو تب تک لڑکوں کی شادی نہ کی جائے!!

شاہد کی آواز میں بے حد درد تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اب تک شادی نہ ہونے سے دیگر مسائل تو اپنی جگہ لیکن سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ والدین کو ہم پر اعتماد نہیں....

میں نے اسے جواب دیاکہ تم نے غلط کہا، اصل دکھ تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ آج کل کے والدین کو اللہ تعالیٰ پر اعتماد نہیں رہا.... اور شاید یہ اس ہی کی مکافات ہے کہ جن لڑکیوں کی وجہ سے ان کے بڑے بھائیوں کو لٹکایا جاتا ہے، ان کی بھی شادی کی عمریں نکلی جا رہی ہیں اور وہ گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔شاہد نے میری بات کی پرزور حمایت کی اور کہا کہ بالکل یہی بات ہے، جب ہر ماں باپ کی سوچ یہی ہو گی کہ اپنے لڑکوں کی شادی نہ کی جائے بلکہ پہلے لڑکیاں نمٹ جائیں تو پھر ان کی لڑکیوں سے شادی کے لیے لڑکے کہاں سے آئیں گے اورظاہری بات ہے کہ اس ’نمٹانے‘ کے لیے آسمان سے تو کوئی مخلوق اترے گی نہیں....!

شاہد کی بات سن کر مجھے بے حد قلق ہواتھا، لیکن میں نے اسے ایک استثنیٰ سمجھا، یا زیادہ سے زیادہ اردو بولنے والے گھرانوں کا مسئلہ سمجھا لیکن جب اس نقطہ نظر سے میں نے اپنے اطراف اور جاننے والوں پر نگاہ کی تو انکشاف ہوا کہ اکثر گھرانوں میں ایسا ہی ہے، اوراردو داں حضرات کے علاوہ، پنجابی اور ہزارہ کمیونٹی میں بھی کچھ کچھ یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔

دوسری طرف آج اس حساس سماجی مسئلے پر کچھ پڑھنے سننے کو ملتا ہے تو وہ یک طرفہ ہوتا ہے ، یعنی رشتہ نہ ہونے کو صرف لڑکیوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی کنوارے بوڑھے ہو رہے ہیں! ان کی جوانیاں بھی برباد ہو رہی ہیں ۔ تیس بلکہ پینتیس کی حدوں کو پار کرنے والے’نوجوان‘ گناہوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں.... وہ خوش قسمت جنہیں اچھی صحبت میسر ہے، اللہ کا خوف دامن گیر ہے، وہ بے چارے گناہوں سے بچتے ہیں تو فطری تقاضوں کو دبانے کے نتیجے میں نفسیاتی بیمار ہو جاتے ہیں۔

آج لڑکیوں کے رشتے نہ ہونے کی جو وجوہات ذکر کی جاتی ہیں ، ان میں آئیڈیل رشتوں کا انتظار، برادری اور ذات کی شرائط،جہیز، بَری اوردوسرے رسم ورواج کے لیے لاکھوں روپے کا انتظام وغیرہ....یہ سارے مسائل صرف لڑکی کے رشتہ میں ہی رکاوٹ نہیں ہیں، بلکہ سینکڑوں لڑکے بھی ان وجوہات کی وجہ سے ’لنڈورے ‘ پھر رہے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں مانسہرہ کے ایک ہی گاؤں کے درجن بھر سے زائدبوڑھے ہوتے نوجوانوں کا مشترکہ ’درد بھرا خط‘ یاد آرہا ہے جو غالباً ایک سال پہلے ’خواتین کا اسلام‘ میں ہی چھپا تھا، جس میں انہوں نے صاف لکھا تھا کہ رسم و رواج کی وجہ سے شادی نہ ہونے کے مسئلے میں صرف لڑکیاں ہی بے بس اور مظلوم نہیں بلکہ ہماری طرح کے سینکڑوں لڑکے بھی مظلوم اور بے اختیار ہیں۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے صرف لڑکیاں نہیں بلکہ دونوں فریق کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں، لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر دونوں جنس برابر متاثر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ لڑکیوں کے توبے شمار رشتے آپ کو ہر شادی دفتر میں مل جائیں گے لیکن لڑکوں کے رشتے بس گنے چنے ہی ہوتے ہیں،( خود ہمارے ادارے کے ضمیر بھائی جو فی سبیل اللہ رشتے کراتے ہیں، اسی بات کے شاکی ہیں کہ پورے ملک سے ان کے پاس رشتے کے لیے فون آتے ہیں، لیکن صرف لڑکیوں کے....جب کہ دوسری طرف اگر فون آتے بھی ہیں تو وہ زیادہ تر بابوں کے ہیں، جن کو خدمت کے لیے چالیس سے اوپر کی خواتین کا رشتہ چاہیے ہوتا ہے....) اس کا جواب ہمارے کچھ بھائی یہ دیتے ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں چوں کہ زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہوتا ہے، پھر اس کے حل کے لیے وہ مردوں کے لیے ’دوسری‘ شادی تجویز کردیتے ہیں !

پہلی بات تو یہ کہ ہماری رائے میں یہ خیال ہی صحیح نہیں کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے کم ہوتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ جیسی خبیر و علیم ذات نے ہر شے کو ناپ تول کر بہترین اندازے کے ساتھ اتارا ہے.... آپ اپنے خاندان یا گلی محلے کا سروے کر لیں کہ کس گھر میں کتنے لڑکے اور کتنی لڑکیاں ہیں تو معلوم یہی ہو گا کہ اگر کسی گھر میں لڑکیاں زیادہ ہو ں گی تو کسی گھر میں لڑکے ہی لڑکے ہوں گے، یعنی معاملہ برابر سرابر سے زیادہ نہیں ہے.... پھر آج کے غارت گر دور میں خصوصاًالٹرا ساؤنڈ کی ایجاد کے بعد سے تو اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے خائف لوگ ان کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دیتے ہیں.... گو ہمارے ملک میں یہ ظلم بہت کم ہے.... لیکن دنیا بھر میں اس کی وجہ سے لڑکیوں کا کال پڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں یہ تناسب دس لڑکوں کے مقابلے میں سات لڑکیوں تک پہنچ گیا ہے۔

اس سے یہ مطلب مت اخذ کر لیجیے گا کہ میں ’دوسری‘ شادی کے خلاف ہوں....نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ دوسری شادی کے جواز کے طور پر یہ بات کہنا کہ چوں کہ لڑکیاں زیادہ ہو تی ہیں اور لڑکے کم....اس لیے مردوں کو دوسری شادی کر لینی چاہیے تو یہ بات کہنا مناسب نہیں اس لیے کہ مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔رہی بات دوسری شادی کی تو بندہ بھی امیدوار اور دعاؤں کا خواستگار ہے....

یہ ساری باتیں جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں آ گئیں ۔عرض یہ کر رہا تھا کہ آج ہر ماں باپ کو اپنی بچیوں کی شادی کی تو پریشانی ہے،لیکن اپنے بوڑھے ہوتے بیٹوں کی کسی کو بھی فکر نہیں ہے.... اس لیے اپنا دل بڑا کیجیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے اگر آپ کے گھر لڑکیوں سے بڑے لڑکے ہیں تو لڑکیوں سے پہلے یا کم ازکم ان کے ساتھ اِن لڑکوں کے رشتے بھی دیکھیے۔یقین جانیے، آپ کسی کی بچی کو اپنے گھر کی عزت بناکر اس کا بوجھ ہلکا کریں گے تو انشاءاللہ کوئی آپ کی بچی کے سر پر بھی ہاتھ ضرور رکھے گا!
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186393 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More