بہنے لگی اب کرکٹ کی الٹی گنگا

ایک بار پھر شائقین کرکٹ کے لئے آئی پی ایل کی بہار آرہی ہے ، 4اپریل سے اس کے پانچویں سیشن کا آغاز ہونے جارہا ہے ، جوا پنے ساتھ نہ جانے کتنوں کے دل بہلانے کا سامان لے کر مکمل آب وتاب سے آرہاہے ۔ گو یا اس کے شروع ہوتے ہی کسی نہ کسی حدتک کم وبیش ہر طبقہ کے افراد اپنے ادائے فرض منصبی میں کوتاہی کرتے نظر آئیں گے ، کیونکہ ذرائع ابلاغ بھی جم کر اسی کی تشہیر کریں گے ، ہمہ دم ان کا یہی موضوع ہوگا کہ فلاں ٹیم کے خلاف فلاں ٹیم جیت کر یہ کرشمہ کردکھائے گی ۔

دنیا میں کھیلے جانے والے مختلف کھیلوں میں تقریباً سب سے محبوب ترین کھیل کرکٹ ہی ہے۔کم و بیش کرکٹ کی دیوانگی اور اس سے شیفتگی ایک حد تک تمام ممالک میں پائی جاتی ہے اور کرکٹ کے شائقین کا تناسب دوسرے دیگر کھیلوں کے دیکھنے والوں سے بڑھا ہوا ہے،گوکہ وہاں کے قومی کھیل مختلف ہوں ۔کرکٹ کے تئیں دلچسپی اور عدم دلچسپی کے تعلق سے اگر اپنے ملک کی بات کی جائے تو یہ حقیقت واشگاف ہوگی کہ ہمارے یہا ں کے ایک تہائی باشندے کرکٹ سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں۔ان کی کرکٹ کی دیوانگی اور اس سے شیفتگی کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں ۔بہت سے افراد ایسے ہیں ،جن کی لطف اندوزی کی تشنگی کی تسکین کیلئے کرکٹ بینی ہی کافی نہیں بلکہ الگ الگ ٹیم تشکیل دے کر کھلوانا ان کا سب سے اہم ترین مشغلہ بن گیاہے ۔اسی طرح بے شمار سیاسی میدان کے قد آور شخصیات اور اس میدان کے منجھے منجھائے کھلاڑی شعبہ کرکٹ سے وابستہ ہیں ۔انہیں اپنے اپنے دائرہ اختیارمیں دخل اندازی کا حق حاصل ہے،ان کے آراءکی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے ۔ الغرض یورپ و ایشیا کیا ، لگ بھگ پوری دنیا میں کرکٹ کا ایک انوکھا مقام ہے۔

کرکٹ کی مقبولیت در اصل ایک صاف وشفاف کھیل ہونے کے ناطے ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے ۔ فی الواقع کرکٹ ایک کھیل ہے ،جسے دیکھ کر عوام الناس لطف اندوز ہوتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کو ئی آٹھ دس برس قبل کرکٹ کا جو اصل مدعا تھا ،وہ حاصل تھا ۔اس کی حقیقت بر قرار تھی کہ کرکٹ کے تئیں لوگوں کا تصور صرف اور صرف لطف اندوزی کا ہی تھا ۔اسی غرض سے اپنے قیمتی اوقات میں سے چند دن ،چند گھنٹے اور چند لمحات نکال کر صرف کردیتے تھے ۔لیکن گردش ِ ایام اور مرورِ زمانہ نے کرکٹ کی روح کو مجروح کردیاہے ۔وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ کرکٹ کی حقیقت ہی بدل گئی اور بے شمار بد عنوانیوں کے برگ وبار اس میں نظر آنے لگے ۔ کر کٹ کا جو اولین مقصد لطف اندوزی کا تھا اور جتنا ہی صاف وشفاف تھا ،اتنا ہی لوگوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظراس پر بد عنوانیوں کے دبیز پردے ڈال دئے ہیں ۔ کرکٹ شائقین کا لبادہ اوڑھ کر بہت سے افراد نے توکرکٹ کو تجارت بنادیا ہے ۔ حصولِ متاع کا سب سے سہل ترین ذریعہ تصور کرلیا ہے ۔ اسی آڑ میں شہرت و نمودکے مواقع دریافت ہو گئے ہیں ۔

آئی پی ایل کو ہی لے لیجئے کہ اصل شائقین کرکٹ کا ایک موسم بہار ہے کہ وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تاہم دوسرے شائقین کیلئے موسمِ بہار ہے حصولِ متاع کا!فلمی دنیا ،جہا ں کرکٹ کی ہوا بوئے گل کی طرح پھیلتی جا رہی ہے ،وہا ں کے ہر دلعزیز ادا کاروں کا کرکٹ سے لطف اندوزی کا ایک جداگا نہ اور مختلف و برعکس طریقہ اپنے اہم مشن میں خاص دلچسپی نہ لے کر الگ الگ ٹیم تشکیل دے کر کھلانا ہے۔

مثبت فکر کے حامل اشخاص سے اس نئی صورت حال کے تئیں اگر کچھ دریافت کیا جائے تو بے ساختہ ان کی زبان سے یہی بول نکلے گا کہ در اصل ان کا کرکٹ سے لطف اندوزی کا واسطہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ مختلف اغراض و مقاصد کار فرماہیں ۔ وہ یہ ہیں ،تجا رت ،شہرت و نمود، فخر و مباہات اور عیش وعشرت !یہ وہ اغراض و مقاصد ہیں جو کرکٹ کی روح کو مجروح کرتی ہیں ۔ یہ کرکٹ کو فروغ نہیں بلکہ اپنی تجارت کو فروغ ہے ،کرکٹ کی اصل حقیقت و ماہیت پر ایک الگ طریقہ کا رخنہ ہے اور کرکٹ شائقین کا ایک ڈھونگ بھی۔کرکٹ میں لطف اسی وقت ہے جب اس پر بد نگا ہی نہ ہو، چنانچہ کرکٹ کی لذت و چاشنی کیلئے از حد لازم و ضروری ہے کہ اس کو یکسر ہی تجا رت نہ بنا لیا جائے۔

گزشتہ برسوں میں نہایت ہی نہ سہی تاہم ایک حدتک کرکٹ ایسا کھیل تھا ، جو صاف و شفاف تھا ۔ جس کا سب سے بڑا کرشمہ یہ تھا کہ گھر کے تمام افراد ایک جگہ مل بیٹھ کر کرکٹ دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ بآسانی دیکھ سکتے تھے۔کوئی بات ایسی نہیں تھی جو انہیں ایک جگہ مل کر کٹ دیکھنے میں مانع ہو۔لیکن ایسی کا یا پلٹ ہوئی کہ رفتہ رفتہ کرکٹ میدان بھی فحاشی کا اڈہ بن گیا ،وہا ں رقص و سرور کا بازار گرم ہوگیا ، عریاں رقص کا سلسلہ شباب پر نظر آنے لگا ۔ کبھی بہترین کارکر دگی پر تو کبھی حسین شارٹ پر ،کبھی بانڈری پڑنے یا چھکے لگنے پر تو کبھی کسی اور منا سبت سے اسٹیڈیم میں ایک عجیب وغریب سماں ہو جا تا ہے ۔جو صاف ذہن شائقین کرکٹ کیلئے کرب و تکا لیف کا باعث ہو تا ہے ۔اس صورتِ حال میں پوری فیملی کا ایک جگہ مل کر کٹ دیکھنا تو کجا فرداًفرداً ٹی وی پر بھی میچ دیکھنا خطرے سے خالی نہیں ۔یہ بھی ایک دردناک اور قابلِ مذمت بات ہے کہ بہت سے کرکٹ شائقین کی ذہنیت بھی کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ہیجان انگیز اور انگ انگ میں شعلے بھڑکا نے والے منا ظر کے بغیر انہیں کرکٹ میں کوئی لطف آتا ہی نہیں ۔

کچھ دنوں قبل کی بات ہے کہ مجھے ایک خبر پڑھ کر حیرت ہوئی تھی کہ انگلینڈ میں جاری 20 Tعالمی کپ میں مداحوں کیلئے وہ کشش اور لطف نہیں جو افریقہ میں جا ری آئی پی ایل کے دوسرے سیشن کے میچز میں تھے۔وہاں کشش در اصل اس وجہ سے تھی کہ وہا ں موسم خوشگوا ر تھا ۔اس لئے چئیر گرلز نیم عریاں رقص کیا کرتی تھیں ۔لیکن انگلینڈ کا موسم وہاں کے موسم سے بر عکس ہے ،یہاں کے موسم میں خنکی ہے،سرد ہوائیں چل رہی ہیں ۔تمام افراد سردی سے بچاﺅ کیلئے بھر پور کپڑے زیبِ تن کر رہے ہیں ۔چنا نچہ چئیر گرلز کو بھی لا محالہ پورا بدن ڈھاپنا پڑرہا ۔ان کے اس طرح ملبوس ہونے سے کر کٹ کے مداحوں کو کرکٹ کا مزہ نہیں آرہا ۔گویا کہ کرکٹ صرف ایک وسیلہ اور ذریعہ بن کر رہ گیا ہے نیم عریا ں رقصاﺅ ں کی رقص دیکھنے کا ۔

یہ وہ تما م بد عنوانیا ں ہیں جو کرکٹ کے وقار و شان پر ایک بد نما داغ ہے کہ کسی نے کرکٹ کو حصول ِ مال و متا ع اور شہرت و نمود کا ایک سہل ترین ذریعہ تصور کر لیا ہے تو کسی نے کرکٹ کے بہانے نیم عریاں رقص کو ہی اصل کرکٹ سمجھ لیا ہے ۔اس لئے کرکٹ کے اصل شیدائیوں کو کرکٹ میں پھیلی بد عنوانیوں کے قلع قمع کیلئے کچھ کرنا ہی ہوگا ۔ صرف او ر صرف شعبہ کرکٹ سے ملحق افراد کی اس ضمن میں پیش رفت ہی کرکٹ کو اصل وقار وشان عطاکر سکتی ہے ۔

واہ رے زمانہ !کرکٹ کے موسم بہا ر کا شدید انتطار انہیں بھی ہونے لگا ہے جو ایسے کام میں ملوث ہوتے ہیں جن کے افعا ل سے ہر مہذب سماج کے افراد کی طبیعت ابا کرتی ہے۔اس فعل کو نا قابلِ تلا فی جرم گردانتی ہے۔وہ ہے سٹے بازی ، سٹے با زی سے کس کو نفرت نہیں ؟لیکن سٹے بازوں نے بھی کرکٹ کی الٹی گنگا کی دھا ر پر اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑ دی ہے کہ انکی سٹے با زی کی گرم بازاری کا اصل موسم بہار کرکٹ کے میچز ہی ہوتے ہیں ۔ان دنوں سٹے بازوں کے اشاروں پر ماڈلز بھی کرکٹروں کو اپنے حسن کے دام فریب میں پھانس کر کروڑوں کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ بس اب حالا ت متقاضی اس بات کے ہیں کہ ان سٹے بازوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جائے اور ان کے نا پاک عزائم کو ملیا میٹ کیا جائے ۔

یہ مسئلہ بے حد حساس ہے کہ کبھی کرکٹ بینی ازروئے شرع اسلام صحیح ہو۔تاہم حالیہ دنوں کے کرکٹ کی روش کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ کرکٹ بینی کو شریعت کی رو سے انتہا ئی نا منا سب قرار دینے میں ہی عا فیت ہے ۔بلکہ نا منا سب سے کہیں زیادہ موزوں حرام ہی ہوگا ۔ہاں! یہ واضح رہے کہ مطلق کرکٹ بینی نہیں بلکہ ایسے کرکٹ میچز جس میں ہیجان انگیز منا ظر کا ایک عجیب و غریب سماں ہو۔ اور مو جودہ کرکٹ کو قرآن مجید کی اس آیت کے تنا ظر میں دیکھنے سے یہ مسئلہ از خود حل ہوتا نظر آ ئے گا کہ آ یا ان دنوں میچ دیکھنا کیسا ہے ؟ترجمہ:اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغوباتوں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائے ،یہی وہ لوگ ہیں جن کیلئے رسوا کرنے والے عذاب ہے :( لقمان :۶) اس آیت میں مول لینے سے مراد گانا بجا نا اور گانے بجانے کے آلات سب مراد ہیں ۔اسی اعتبار سے وہ تما م گلو کارائیں اور چئر گرلز اسی زمرے آجاتی ہیں جو اپنی آواز کی نغمگی اور دلفریب اداﺅں سے دلوں کو مسحور کر دیتی ہیں ۔اب ایک زندہ دل مسلم کیلئے یہ کیسے زیب دیتا کہ وہ آج کرکٹ بینی سے لطف اندوز ہو اورایسی رقصاﺅ ں کے رقص دیکھے ۔

یہ کوئی فلسفہ نہیں بلکہ قابلِ قدر حقیقت ہے کہ ہر ایک چیز کا ایک پیمانہ ہوتا ہے ،ہر مسئلہ کی ایک حد ہوتی ہے ۔اگر حدود کو پھلانگ کر کوئی کارِ خیر ہی کیوں نہ انجام دے ،لیکن اس کا یہ عمل قابلِ مذمت ہوگا ۔ بوجہ ایں حکومت کا کرکٹروں کے تئیں داد و دہش ،نوازشوں اور عنایتوں کا جو رویہ ہے،وہ قابلِ صد افسوس ہے کہ کرکٹروں کو ذرا دھوم مچانے او ر جلوے بکھیرنے پر کروڑوں کی با رش ہو جا تی ہے ۔لیکن وہیں اصل پرستارِ وطن اور ملک و قوم کے جا نباز سپوت، جنہوں نے ملک کیلئے غیر معمولی خدمات انجا م دیں،یہانتک کہ اپنی محبوب جان کا نظرانہ بھی پیش کردیا،ان کیلئے وہ مقام نہیں ،جس کے وہ سب سے زیادہ مستحق ہے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ یوراج سنگھ کا پہلے ٹو ئنٹی عالمی کپ میں چھ گیندوں میں چھ چھکے لگانا ،انہیں وہ مقا م عطاکر دیا جو ملک کے جانبازوں کو نصیب نہیں ۔حکومت کی جانب سے وہ نوازشیں ،وہ عنایتیں جس کی مثال نہیں ؟لیکن وطن کے جوانمردوں ،جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کیں ،کیلئے کچھ کا مطلب کچھ نہیں ۔ویر عبدا لحمید کو کیا ملا اپنی جا ن قربان کرکے ؟ ہیمنت کرکرے کو کیا ملا اپنی جان کا نظرانہ پیش کرکے؟بس اب یہی کہتے بنتاہے کہ کرکٹ کے تئیں بہنے لگی ہے اب الٹی گنگا۔۔۔۔۔۔!
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92536 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More