23مارچ دراصل وہ دن ہے کہ جس روز
ہمارے عظیم قائدین اور لیڈروں نے ملکر اس ملک کی اساس رکھنے کے لئے اہم
اکٹھ اور ایجنڈے کا اعلان کیا تھا۔قرار داد پاکستان اگرچہ72سال پہلے پیش
ہوئی اور آج سے 64سال پہلے قیام میں آنے والی اس مملکت اور اس کی عوام کو
خوشیاں بہت کم یا دیرپا نصیب ہوئیں۔کل یعنی 22مارچ2012 کو پاکستانی ٹیم نے
بنگلہ دیش کے ساتھ ایک معرکہ خیز اور سنسنی خیز مقابلہ کرکے اس ہلالی پرچم
کی لاج رکھی اور پاکستان کو ایشیا کپ کا فاتح بنوا دیا اور ایشیا کپ کے
فائنل میں میزبان بنگلہ دیش کو 2 رنز سے ہرا کر 12 سال بعد دوسری بار ایشیا
کی قیادت کا تاج اپنے سر سجا لیا۔ملک بھر میں جشن کا سماں رہا۔آخری گیند تک
جاری رہنے والے اس مقابلے میں برصغیر اور کرکٹ کھیلنے والی دنیا کو اپنی
جانب محو رکھا۔ شاہد آفریدی کو آل راﺅنڈ پرفارمنس پر مین آف دی میچ کا
ایوارڈ دیا گیا۔میچ کے دوران بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد،
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ذکا اشرف سمیت پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش
کی کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ بنگلہ دیش کو جیت کے لیے 237رنز کا ہدف ملا
تاہم بنگال ٹائیگرز میچ کی آخری گیند تک234رنز بناسکے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش
کے کپتان مشفق الرحیم نے میر پور شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس
فائنل کا ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ پاکستانی
بیٹسمینوں کی کارکردگی کو دیکھ کر ایسا لگا کہ مشفق الرحیم کا یہ فیصلہ
درست تھا کیونکہ 34.5اوورز میں 133رنز کے عوض پاکستان اپنی6وکٹیں گنواچکا
تھامگر اس موقع پر سرفراز احمد نے ٹیم کو سہارا دیا اوران کے46 رنز ناٹ آؤٹ
کی بدولت پاکستان نے9وکٹوں کے نقصان پر 236کامجموعہ ترتیب دیا۔ دوسرے
کامیاب بیٹسمین محمد حفیظ رہے جنہوں نے 40 رنز اسکور کیے۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی نصف سینچری نہیں بناسکا۔ جبکہ بنگلہ دیش کی
جانب سے تمیم اقبال کے60 اورشکیب الحسن کے شاندار68رنز کے باوجود پوری ٹیم
مقررہ50اوورز میں8وکٹوں پر 234 رنز ہی بناسکی۔ بنگلہ دیش کے بلے بازوں نے
اپنی اننگز کے آغاز میں اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور پاکستانی باﺅلروں کو
پر اعتماد طریقے سے کھیلا۔ 237 رنز کے تعاقب میں لیفٹ ہینڈ بیٹسمین تمیم
اقبال اور دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے ناظم الدین نے اوپننگ کی۔ بنگلہ دیش
کو 68 رنز کا آغاز ملا۔ ناظم الدین جب16 رنز پرآﺅٹ ہوئے تو بنگلہ دیش کی
دوسری وکٹ بھی فوراً گر گئی۔ ظہور الاسلام کو گیند اور وکٹ سمجھنے کا موقع
نہ مل سکا وہ کھاتہ کھولے بغیر چلتے بنے۔ تمیم اقبال 60رنز بنا کر آؤٹ ہوئے
تو میزبان ٹیم کا مجموعہ81 تک پہنچ چکا تھا۔ایک موقع پر تو بنگلہ دیش کے
3وکٹوں پر 169رنز تھے اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ ٹائیگرز آج پاکستان کو
پچھاڑ دیں گے مگر اس موقع پر اعزاز چیمہ اور سعید اجمل نے اوپر تلے بنگلہ
دیش کے 4ان فارم بیٹسمینوں کو آؤٹ کرکے میچ کی صورتحال تبدیل کردی۔ سعید
اجمل، عمر گل اور شاہد آفریدی کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی، جبکہ تینوں بار
کیچ کے لیے گیند یونس خان نے دبوچی۔ بنگلہ دیش کا مجموعی اسکور جب 170رنز
تک پہنچا تو عمر گل نے ناصر حسین جو 28 رنز پر کھیل رہے تھے، کی امیدوں کے
چراغ گل کر دیے۔ اس مجموعے میں ابھی 9رنز کا اضافہ ہوا تھا کہ ٹاپ اسکورر
اور خطرناک ترین بیٹسمین شکیب الحسن 68 رنز کی شاندار اننگز کھیل کرآﺅٹ ہو
گئے۔ ان کی وکٹ گرانے کا اعزاز فاسٹ بولر اعزاز چیمہ کو ملا۔ چھٹی وکٹ
کپتان مشفق الرحیم کی گری جو صرف 10 رنز بنا کر اعزاز چیمہ کا نشانہ بنے۔گو
کہ عمر گل کے آخری لمحات کے اوورز پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہوئے تاہم
اعزاز چیمہ نے صورتحال کو قابو میں رکھا۔ پاکستان کی جانب سے اعزاز چیمہ نے
3 جبکہ عمر گل اور سعید اجمل نے 2،2 اور شاہد آفریدی نے ایک وکٹ حاصل
کی۔میچ کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے کپتان مصباح الحق نے کہا کہ ایشیا کپ
کی جیت میں نوجوان کرکٹرز کا بہت اہم کردار ہے جنہوں نے پاکستان کو فتح
دلانے کے لیے بہت محنت کی،ہم نے ٹیم ورک سے ایشیا کپ کے فائنل میں بنگلہ
دیش کو شکست دی،بنگلہ دیشی ٹیم اچھی کاکردگی پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس
موقع پر بنگلہ دیش کے کپتان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچ
”سلو“ تھی اس وجہ سے رنز بنانا مشکل ہورہا تھا۔ فائنل میں ٹیم کی کامیابی
کے ساتھ ہیملک بھر میں جشن کا سماں ہوگیا، شہری خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل
آئے، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ میچ کے دوران پاکستانیوں نے خوب ہلہ
گلہ کیا۔ مختلف شہروں میں بڑی بڑی اسکرینیں لگائی گئیں جہاں لوگوں کی بڑی
تعداد نے میچ دیکھا۔ میچ جیتنے کے بعد ملک بھر میں جشن کا سماں بندھ گیا۔
لوگ گھروں سے باہر نکل آئے سڑکوں پر بھنگڑے ڈالے گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی
گئیں۔ پورے ملک میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے فائنل میچ دیکھنے کے لیے شہر
کے مختلف مقامات پر بڑی ا سکرینیں لگائی گئیں۔ شہریوں کی بڑی تعداد میچ کی
لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال کا براہ راست دیکھ کر لطف اندوز ہوتی رہی۔
پاکستان میں باالخصوص کراچی میں بنگالی آبادی علاقوں میں بھی شہریوں نے
اپنی مدد آپ کے تحت اجتماعی طور پر میچ دیکھنے کا انتظام کیا۔ شائقین نے ہر
وکٹ اور باﺅنڈری پر جذبات کا اظہار کیا۔ لاکھوں افراد نے گھروں میں بیٹھ کر
میچ دیکھا جس کے باعث سڑکیں سنسان رہیں۔
تمام پاکستانیوں اور پاکستانیوں ٹیم کو یہ کامیابی مبارک ہو لیکن حقیقت میں
دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کی ٹیم اس کپ کی اصل مستحق ہے جس نے انڈیا اور سری
لنکا جیسی ٹیمز کو ہرا کر فائنل میں ہماری ٹیم کو بھی ”ٹینشن“ میں رکھا۔اب
ہماری ٹیم کے تمام کوچز اور چیئر مین کو چاہیے کہ مستقبل کی حکمت عملی کرتے
ہوئے مصباح الحق اور یونس خان کوصرف ٹیسٹ ٹیم میں شامل کریں کیونکہ یہ
دونوں ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کھیلنے کی اہلیت سے محروم ہیں۔پاکستان کو مزید
نوجوان اور ٹیلینٹڈ کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں موقع دینا ہوگا مزید یہ کہ
ملک میں ٹی ٹونٹی سیریز کے کئی بڑے انٹرنیشنل اور نیشنل ٹورنامنٹس منعقد
کرنے چاہیئے تاکہ آئندہ ورلڈ کپ تک ایک اچھی اور بہترین ٹیم تیار ہو
سکے۔ملک کے لئےہماری قومی ٹیم کا یہی جذبہ ہماری قوم کے ہر فرد کو زندگی کے
ہر شعبہ میں دکھانا ہوگا تب کہیں جا کے یہ ملک ترقی کرے گا انشا
ءاللہ۔شاباش اعزاز چیمہ شاباش قومی ٹیم |