تحریکِ آزادی کے فراموش کردہ چند علما

از:وسیم احمد رضوی،نوری مشن مالیگاؤں(انڈیا)

جنگِ آزادیِ ہند میں علمائے اسلام نے بے مثال قربانیاں انجام دیں۔چمنِ ہند کی نکہتیں ان ہی کا صدقہ ہے۔دہلی سے لے کر روہیل کھنڈ اور روہیل کھنڈ سے لے کر لکھنو تک اور شمالی ہند سے جنوبی ہند تک جنگ حریت کی کمان علمائے اسلام ہی کے ہاتھوں میں رہی۔یہی مقدس گروہ مجاہدینِ آزادی کی قیادت کر رہا تھا۔اہلِ ہند کے دلوں میں انہوں نے جہادِ آزادی کی روح پھونکی۔اپنے خونِ جگر سے گلشنِ ہند کو سینچامگر اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا ”تاریخ گری“ کی بد ترین مثال کہ جن علما و قایدین نے انگریزی مظالم اور حکومت کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کیا،قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،اپنے مال و متاع کو ناموس و استخلاصِ وطن کی خاطر لٹا دیا،ان کی خدمات اور قربانیوں کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان علما وقائدین کی جگہ کچھ نام نہاد اور انگریزوں کے زر خرید غلاموں کو جنگِ آزادی کے قائدین کی حیثیت سے پیش کیا جانے لگا۔لیکن اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔حق و صداقت کی کرنوں سے انصاف پسند ذہن و فکرروشنی پا رہے ہیں ذیل میں ان ہی فراموش کردہ علما و قائدین کے کارناموں کا مختصر ذکر کیا جا رہاہے۔

1757ءمیں جنگِ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو کچھ ننگِ وطن افراد کی فریب کاری اور غداری کی وجہ سے شکست سے دو چار ہونا پڑا۔پھر 1799ءمیں شیرِ میسور حضرت ٹیپو سلطان کو بھی اپنے حاسدوں اور حریفوں کی انگریز نوازی کی بنا پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اور آپ نے جامِ شہادت نوش کیا۔اس کے بعد جنگِ آزادی کی کمان علما نے مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لی۔دہلی،(اکبرآباد)آگرہ،روہیل کھنڈ، لکھنو اور اودھ ان کی تحریک کے اہم مراکز بنے۔دہلی میں صدرالصدور مفتی صدرالدین آزردہ مرجع العلما تھے۔عوم و خواص،علما و امرا آپ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے۔جنگی اعتبار سے مولانا احمداللہ شاہ مدراسی نے بہت شہرت پائی،ان کے نام سے انگریز کانپتاتھا۔آپ فن حرب و سیاست میں مہارت رکھتے تھے،حضرت قربان علی چشتی جئے پوری سے بیعت ہوئے،حضرت محراب علی قلندر گوالیاری سے سلسلہ قادریہ میں طالب ہوئے تو حضرت قلندر گوالیاری نے اجازت و خلافت سے نوازا اور انگریزوں سے جہاد کرنے کا عہد لیا۔چناں چہ آپ نے مرشدِ اجازت کے حکم پر انگریزوں کو ہندستان سے باہر کرنے کا عزم کیا۔1846ءمیں دہلی آئے،مفتی صدرالدین آزردہ سے ملاقات کی۔مفتی صاحب نے ایک تعارفی مکتوب کے ساتھ آگرہ روانہ کیااور آگرہ کے علماو امرا کو ان کی مدد کرنے کی ہدایت کی۔چناں چہ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی آگرہ پہنچے،وہاں مفتی کفایت علی کافی شہید مرادآبادی،مولانا فیض احمد رسوا بدایونی،مولانا غلام امام شہید،مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی کے علاوہ بہت سارے علما اور سرکردہ افراد آپ کے ساتھ آمادہ جہاد ہوئے۔آگرہ ہی میں مجلسِ علما کا قیام عمل میں آیا۔اس دوران عیسائی مشنریزپادری فنڈر کی قیادت میں مسلمانوں پر فکری حملے کی غرض سے ہندستان وارد ہوئی۔عیسائیوں کی جرات و بی باکی کا یہ عالم تھا کہ انہوںنے دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو مناظرے کا چیلنج کرنا شروع کردیا تھا۔1856ءمیں علمائے اسلام نے ان سے متعدد مناظرے کیے،ہر محاذپر پادریوں کو شکست ہوئی اور ہندستان سے راہِ فرار اختیار کرنی پڑی۔ان مناظروں میں فاتح نصرانیت مولانا رحمت اللہ کیرانوی مناظر تھے جب کہ مولانا فیض احمد بدایونی اور مولانا ڈاکٹر وزیز خاں اکبرآبادی معاون مناظرتھے۔

مجلس علما کو وسیع کرنے کے لیے مولانا احمداللہ مدراسی نے لکھنو کا سفر کیا،حریت کے بطلِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی سے پھر جنرل بخت خاں سے ملاقات کی،مجلس علما کو منظم کیا گیا۔علمائے کرام کے وفد نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ میٹنگ کی اورجنگ آزادی کا منصوبہ بنایا گیا۔علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جامع مسجد دہلی میں انگریزی مظالم اور اقتدار کے خلاف ولولہ انگیز تقریر کی،جہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو واضح کر کے فتوے جہاد پیش کیا جس پر علما نے اپنی تصدیقات ثبت فرمائیں۔اس کے نتیجے میں دہلی میں 90 ہزار مجاہدین جمع ہوئے اور 1857ءمیں انگریزوں کے خلاف وہ خوں چکا جنگ لڑی گئی کہ ایوانِ فرنگ لرزہ بر اندام ہو گیا۔جس کی گونج پورے ہند میں سنی گئی۔دہلی میں علامہ فضل حق اور مفتی صدرالدین آزردہ مجاہدین کی قیادت کررہے تھے۔مرادآباد میں مفتی کفایت علی کافی،آگرہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی و مولانا احمداللہ مدراسی،روہیل کھنڈ میں مفتی عنایت احمد کاکوروی اور مولانا رضا علی خاں بریلوی(جدِ امجد امام احمد رضا محدث بریلوی)مجاہدینِ آزادی کے قاید و رہنماتھے۔مشہور مورخ علامہ یاسین اختر مصباحی فرماتے ہیں:”(جنگِ آزادی 1857ءمیں)جب انگریز اپنے مکر و فریب کے ذریعے ،اپنی طاقت و قوت کے ذریعے مجاہدین پرغالب ہوئے اور کچھ ہندوستانی غداروں کی وجہ سے مجاہدین کو ناکامی سے دو چار ہونا پڑا تو یہ سارے مجاہدین اور علمائے کرام شاہ جہاں پور میں جمع ہوئے اور قصبہ محمدی (شاہ جہاں پور)میں ایک اسلامی حکومت قائم کی۔(جہاں خلافتِ راشدہ کے اتباع میںشرعی حکومت کا نفاذ ہوا،مولانا احمداللہ مدراسی کے نام کا سکہ جاری ہوا)مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی،مولاناوزیر خاں اکبرآبادی وغیرہ ارکانِ دولت و سلطنت منتخب ہوئے لیکن وہاں بھی بعض غداروں کی وجہ سے میدان ہاتھ سے نکل گیا۔اور اس کے بعد شہزادہ فیروز شاہ و جنرل بخت خاں و مولانا فیض احمد بدایونی اور اس طرح کے بہت سارے حضرات یہاں سے نکل کر نیپال چلے گئے اور اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں ہو سکا کہ کب؟ کیسے؟کہاں ان کا انتقال ہوا؟البتہ مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی ”قصبہ محمدی“کے آس پاس کے راجہ بلدیو سنگھ کے فریب وغدر و بدعہدی کی وجہ سے ایک جنگ میںشہید ہو ئے۔“(ماہ نامہ کنزالایمان،جون 2007،ص 24)

مولانا احمداللہ شاہ مدراسی نے آگرہ میں بھی اسلامی حکومت قائم کی تھی،اکبرآباد(آگرہ)کے قلعہ کے میدان میں بعد نمازِ عصر مجاہدین کو فن سپہ گری اور شہ سواری کی مشق کرائی جاتی تھی۔جامع مسجد آگرہ میں جب مولانا مدراسی خطاب اور جمعہ کے لیے جاتے تو آپ کے ساتھ ہزاروں افراد کاجلوس ہوتا،آگے آگے کچھ لوگ نقارہ بجاتے تھے اس لیے آپ کو”نقارہ شاہ یا ڈنکا شاہ“ بھی کہا جانے لگا۔

جنگِ آزادی 1857ءکے بعد انگریز حکومت بوکھلا اٹھی ،فرنگیوں کا ظلم و ستم عذاب کی شکل میں ہندوستانیوں پر ٹوٹ پڑا،انہوں نے چن چن کے مجاہدین کو شہید کرنا شروع کردیا۔کسی کو انڈومان کی قید تنہائی ”کالا پانی“کے طورپر دی گئی۔کسی کو صلیب ودار پر لٹکایا گیا۔کسی کی جائداد ضبط کرلی گئی۔چناںچہ تحریکِ آزادی کے مجاہدِ اعظم اور محرکِ اول علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی جائدادضبط کرلی گئی، کالی پانی کی سزا ہوئی،نازو نعم میں پَلے بڑھے اس شہزادے نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی درد و کرب کے ساتھ انڈومان کی مضرِ صحت اور زہریلی فضا میں گزارے۔وہاں رہ کر بھی آپ نے علمی و تصنیفی کام کیا،”الثورة الہندیہ“نامی معرکة الآرا کتاب آپ نے وہیں تصنیف فرمائی،جس کے مطالعہ سے انگریزی مظالم کا اندازہ ہوتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔وہاں بھی علامہ کو کئی مرتبہ پیش کش کی گئی کہ آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جو فتویٰ صادر کیا ہے اس سے رجوع کر لیں تو آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔مگر آپ استقامت کا کوہِ ہمالہ ثابت ہوئے،جو ہر مخالفت کا جواں مردی سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنی جگہ اٹل رہتا ہے۔

صدرالصدور دہلی مفتی صدرالدین آزردہ کو عہدہ صدرالصدور سے برطرف کر دیا گیا،جائداد ضبط کر لی گئی،آپ کی ذاتی لائبریری جس میں اس دورکے تقریباً تین لاکھ روپیوں کی کتابیں تھیں،برباد کر دی گئی۔مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی کوپھانسی کی سزا سنائی گئی،تختہ دار پر اس مردِ حق آگاہ نے عشق و محبتِ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ڈوب کر جو نعت پاک پڑھی اس سے آپ کے جذبہ عشق کا پتہ چلتا ہے،کہتے ہیں
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
بس رسولِ پاک کا دینِ حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کم خواب کی پوشاک پہ نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پہ خاکی کفن رہ جائے گا
جو پڑھے کا صاحبِ لَولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی و لیکن حشر تک
نامِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

اِنہیں مولانا کافی شہید کے بارے میں ملک سخن کے شاہ امام احمد رضا کہتے ہیں
کافی امامِ نعت گویاں ہیں رضا
ان شاءاللہ مَیں وزیر اعظم

مولانا رحمت اللہ کیرانوی1858ءمیں ہجرت کر کے مکہ مکرمہ جا پہنچے،وہاں ”مدرسہ صولتیہ“قائم کیا ،ردِ نصرانیت میں اپنی بے نظیر تصنیف ”اظہارِ حق“کو عربی میں کیا،اورساری عمر درس و تدریس اورعلمی کام میں گزاری۔مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی بھی اپنے دوست مولانا کیرانوی کے پاس حجازِ مقدس آگئے اور طبعی موت پاکر جنةالبقیع مدینہ منورہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ان کے علاوہ مولانا فیض احمد بدایونی کی خبر نہیں کہ 1857ءکی جنگ کے بعد ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا۔آپ کے سگے مامو سیف المسلول علامہ فضل رسول بدایونی نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر کوئی سراغ نہ مل سکا۔

آج ضرورت ہے کہ تاریخ کے اوراق کو کھنگالا جائے،وہ حقایق جنہیں منصوبہ بندی سے چھپایا گیاان کی بازیافت کی جائے،”تاریخ نویسی “اور ”تاریخ گری“کے فرق کو سمجھا جائے،ورنہ یقینایہ نا انصافی اور حق تلفی ہو گی کہ جنہوں نے اپنے تن من دھن کو ملک و ملت کے لیے قربان کردیا،ناموسِ وطن کی خاطر اپنے عیش و عشرت کو تج دیاان کی خدمات کو نظر انداز کر کے ایسے دین اور وطن فروشوں کو قاید و رہ نما بنا کر پیش کیا جائے جنہوں نے انگریزوں سے وظیفے اور اعزازات حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ قوم و ملت سے غداری کرکے انگریز نوازی کی مثال قائم کی۔اس لیے حق دارکو حق دلانے کے لیے تعصب اور جانب داری کی عینک اتار کر مطالعہ کرنے،لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہے۔تحریکِ آزادی کے ان فراموش کردہ علما و مجاہدین کی خدمات اور کارناموں کو تفصیل سے جاننے کے لیے اربابِ تحقیق و جستجو کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ یقینا چشم کشا اور حقیقت افشاں ہو گا:
(۱)باغی ہندوستان،از:علامہ فضل حق خیرآبادی،مطبوعہ مبارک پور
(۲)حقائق تحریک بالاکوٹ،از:شاہ حسین گردیزی،مطبوعہ مبارک پور
(۳)1857ءپس منظر اور پیش منظر،از:علامہ یاسین اختر مصباحی،مطبوعہ دہلی
(۴)قائدینِ تحریک آزادی،ایضاً
(۵)انگریز نوازی کی حقیقت،ایضاً
(۶)قائدِ انقلاب 1857ئ،ایضاً
(۷)خون کے آنسو،از:علامہ مشتاق احمد نظامی،مطبوعہ دہلی
(۸)تحریک آزادیِ ہند اور السوادالاعظم،از:پروفیسرمحمد مسعود احمد نقش بندی،مطبوعہ کراچی۔
For contact:
Waseem Ahmad Razvi
257,M.H.B.Colony,Malegaon(423203)
Mob:09923324281
E-mail:[email protected]
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.