ڈبل سواری پر پابندی کے نقصانات وفوائد

ملک کے معاشی شہ رگ کراچی میں روزانہ 12 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں دواں ہوتی ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 9 لاکھ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری کی جاتی ہے ۔لیکن ڈبل سواری پر پابندی لگنے کے بعد سرکاری اور نجی اداروں میں عملے کی بروقت حاضری بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ شہریوں کے جان ومال کی تحفظ کی ذمہ دار کراچی پولیس نے حالیہ ٹارگٹ کلنک کے واقعات پر قابو پانے میں ناکامی کے بعدڈبل سواری پر پابندی عائد کردی ہے اور اپنی ناکامی کا بوجھ براہِ راست عام آدمی کے کندھوں پر لاد دیاہے ۔ڈبل سواری پر پابندی سے جرائم کی شرح میں کمی آئے یا نہ آئے غریب عوام پر اضافی مالی بوجھ ضرور پڑ گیا ہے ۔ڈبل سواری پر پابندی کے قانون کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو ہمارے پولیس کے ہاتھوں ایک دو دھاری تلوار ضرور لگ گئی ہے ۔ تاہم ٹرانسپورٹ مافیا کی چاندی (فائدے) سے بھی کسی کو اختلاف نہیں !

کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کرنے سے کیا اسٹریٹ کرائم اور جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوگی ؟ جن عناصر نے کاروائیاں اور وارداتیں کرنی ہوتی ہیں کیا وہ ڈبل سواری کی پابندی کو خاطر میں لاتے ہیں ؟ جن حضرات نے جرائم کرنے ہوتے ہیں کیا وہ قانون پر دھیان دیتے ہیں ؟ کیا قانون کے نفاذ سے ان جرائم پیشہ افراد کی صحت پر کوئی اثر پڑھتا ہے ؟ دہشت گردی اور پاکستان ۔۔۔!یا دہشت گردی اور کراچی۔۔۔! داستان بہت لمبی ہے۔ بم دھماکے ، خود کش حملے اور قتل وغارت گری کی بڑی وارداتیں۔ کئی دہائیوں سے یہ عذاب کسی نا کسی طرح ہمارے عوام سے چمٹا ہوا ہے ۔لیکن ڈبل سواری کا کیا کردار ہے ان میں ؟ کیا ڈبل سواری کی پابندی سے اس طرح کی کاروائیوں کو روکا جاسکتا ہے ؟یا ان معاملات میں بھی ڈبل سواری کا استعمال محض ایک ڈھال کے طور پر ہی کیا جا سکتا ہے یہ وہ سوال ہیں جو کراچی کا ہر شہری حکومت ، عدالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کر رہا ہے ۔

ایک طرف حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی لگادی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے ۔ حالانکہ اس طرح کے اقدامات سے حکومت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ڈبل سواری پر پابندی اور اس کے نقصانات وفوائد اپنی جگہ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس فیصلے نے کراچی پولیس کی ناکامی پر مہر ثبت کردی ہے ۔ کیونکہ کراچی کے علاوہ باقی شہروں میں بھی تخریبی کاروائیاں ، اسٹریٹ کرائم ، قتل وغارت گری اور اغو برائے تاوان کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن اول تو وہاں ڈبل سواری پر پابندی نہیں لگتی۔ بالفرض لگ بھی جائے تو ایک ، دو دن یا کسی معروف معینہ مدت تک کے لیے ۔ جبکہ کراچی میں لگتا ایسا ہے کہ حکومت ڈبل سواری پر پابندی لگا کر بھول جاتی ہے! اس شہر میں اپنی دال روٹی کمانے کی کوشش کرنے والا ہر شخص اپنی سواری کی تمنا ضرور رکھتا ہے ۔ اس پابندی نے ہمارے نچلے اور متوسط طبقے کے افراد کے اس خواب کو بھی چکنا چور کردیا ہے ۔

کیا وجہ ہے کہ صرف بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور صحافی ہی اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں ؟ حالانکہ اب تک ڈبل سواری کی خلاف ورزی کرنے والے کسی دہشت گرد ۔ وکیل ، انجینیئر یا ڈاکٹر کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ لیکن نہ جانے کیوں ۔۔۔! ان تمام اہم پیشوں سے منسلک افراد کو بھی اس لائق نہیں سمجھا گیا کہ انہیں اس پابندی سے مثتثنیٰ قرار دیا جائے ۔سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کسی ہسپتال ، ایمر جنسی وارڈ کے کمپاؤڈر یا کسی مدرسے ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی کے استاد کو ڈبل سواری سے روکنے کا کوئی اخلاقی جواز ہے یا نہیں ؟مزے کی بات یہ ہے کہ ساری پابندیاں اور قوانین کا سختی سے نفاذ صرف اور صرف غریب عوام کے لیے ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جلسوں میں آمدورفت کے لیے کسی قسم کی ڈبل سواری پر پابندی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ چلیئے چھوڑیئے جناب! ہمارا مقصد کسی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا یا کسی کو ذمہ دار ٹھہرا نا نہیں بلکہ بطور معاشرہ ہم اپنے ہی گریبان میں جھانکنا چاہ رہے ہیں ۔

ہمارے علاقے کے وکیل صاحب بتا رہے تھے کہ ایک مرتبہ ڈبل سواری کے جرم میں ایک شخص کو کورٹ حاضر کیا گیا ۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مسجد کے باہر بائک پر بیٹھااپنے دوست سے گفتگو کر رہا تھا اس حال میں کہ وہ میرے کندھوں پر ہاتھ ڈالے زمین پر کھڑا تھا ۔ سامنے سے موٹر سائیکل پر دو پولیس اہلکار آئے اور ڈبل سواری کے جرم میں ہمیں گرفتار کر کے لے گئے ۔یہ حال ہے ہمارے سیاہ وردی پوش اہلکاروں کا۔ چلیے ایک بہت آسان سی بات کرتے ہیں ۔ ڈبل سواری کی سہولت ختم کر کے ہم عوام کو اس کا نعم البدل کیا دے رہے ہیں ؟ ہمارے ارد گرد موجود پبلک ٹرانسپورٹ ؟ جی ہاں ! وہ سواریاں جس پر حکام، سیاست دان ، بیوروکریٹ یا دیگر صاحب لوگ سفر نہیں کرتے وہ گھسی، پٹی ، دبی ، پچکی گاڑیاں پبلک ٹرانسپورٹ کہلاتی ہیں اور ہم اور آپ ان میں سفر کرتے ہیں ۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا پبلک ٹرانسپورٹ میں وارداتیں نہیں ہوتیں ؟ موبائل نہیں چھینے جاتے ؟ عوام کو نہیں لوٹا جاتا ؟ جیب کترے پسنجروں کی جیبوں کو ٹٹول کر ان کا صفایا نہیں کرتے ؟ اور تو اور پبلک ٹرانسپورٹ میں تو عورتوں کے زیورات تک کو نہیں بخشا جاتا ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہاں پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر کے حساب سے 5 روپے اضافہ تو وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں فی پسنجر کے حساب سے 5 روپے اضافہ ۔ حالانکہ آج کل زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ ”سی این جی “ پر چلائی جارہی ہیں ۔کسی بھی وجہ سے ہونے والی ہڑتالوں اور پہیہ جام کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ چلنا ، شہریوں کے لیے مشکلات کے نئے پہاڑ کھڑے کر دیتا ہے ۔ چاہے طالبعلم ہو ں یا ملازمت پیشہ افراد ۔ ان ہڑ تالوں کے دوران ان کا اپنے اپنے متعلقہ اداروں تک پہنچنا اور اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے ۔اور یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈبل سواری پر پابندی ہر کٹن وقت میں کراچی کے عوام کے لیے اذیت کا مزید سامان فراہم کرتی ہے۔
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.