حدثنا عن عبد اللہ بن حارث ابن
جزء قال مارایت احدااکثر تبسما من رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(ابواب المناقب جامع ترمذی )
عبد اللہ بن حارث سے روایت ہے کہ میں*نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
بڑھ کو کوئی مسکرانے والا نہیں*دیکھا ۔
مسکرانا خوش رہنا اور خوشیاں بانٹنا ایک طاقت ہے ، روحانی اعتبار سے انقباض
کی کیفیت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے اس میں کوئی شک نہیں*کہ مشکلات کا مقابلہ
خوش رہنے سے کیا جاسکتا ہے ، تبسم ادا بھی ہے اور حسن بھی ہے ، چہرے پر
تبسم سجائے رکھنا حسن اخلاق کی تابندہ علامت ہے ، نفسیاتی اعتبار سے لبوں*
سے مسکراہٹ بکھیرنے والا شخص فاتح عالم بن سکتا ہے ، صدموں*اور اضطراب کا
پہلا حملہ چہرے کی شگفتگی چھین لیتا ہے اور وہ شخص جو چہرے کی تراوت اور
تازگی کھوبیٹھے ، وہ تاریک جہاں میں سکونت گزیں ہوجاتا ہے ، ایسے چہرے جن
کی تلاوت کی جاتی ہے وہ مسکرانے والے چہرے ہی ہوتے ہیں*۔
خوش رہنے والا دوسروں*کو خوش رکھ سکتا ہے ، وہ لوگ بڑے بدقسمت ہوتے ہیں*جو
ہمیشہ ترش رو بن کر زندگی بسر کرتے ہیں ایسے کہ اگر وہ مسکرادیے تو عمر کم
ہوجائے گی ، طلق بن حبیب کا معروف ارشاد ہے کہ غصہ زنا سے زیادہ نقصان کرنے
والی چیز ہے شاید اس لئے کہ بد کاری باطن اجاڑتی ہے اور غصہ ظاہر کو ویران
کردیتا ہے وہ شخص*جو ہمہ دم محبوب حقیقی کو یاد کرنے والا ہو اس کا باطن
منور رہتا ہے اور باطن کی روشنیاں*چہروں*کا نور اور لبوں*کی مسکراہٹ*بن کر
عیاں*ہوتی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا تمہارا لئے صدقہ ہے ۔ (جامع ترمذی)
جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
میں*نے جب سے اسلام قبول کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے
سے روکا نہیں*ہے اور میں*نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا
ہےچہرے پر تبسم دیکھا اور ایک دفعہ میں*نے عرض کی کہ میں*گھوڑے پر اچھی طرح
نہیں*بیٹھ سکتا تو آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا اور فرمایا اے
اللہ اسے مضبوط فرمادے اور اس کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے
۔(بخاری)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں*:
میں*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں*ایک سفر کے دوران چل رہا تھا
،اضطراب اور پریشانی کے سبب میں*نے سر جھکادیا ،دیکھتا کیا ہوں*کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے میرے کان کو ہلایا اور میرے سامنے
ہوکر مسکرائے مجھے یہ بات اچھی نہ لگتی کہ اس مسکراہٹ کے بدلے مجھے دنیا
میں ہمیشہ رہنا مل جائے ، (جامع ترمذی )
اس میں*کوئی شک نہیں*نفرتوں*کے جہنم اور بداخلاقیوں کی آگ میٹھے لفظوں*اور
روحی تبسمات سے ٹھنڈی کی جاسکتی ہے ، خلیق اور طلیق شخص کا اسلحہ خوش رہنا
اور خوش رکھنا ہوتا ہے ہلکی مسکراہٹوں*سے عصبتوں*کے صحرا عبور کئے جاسکتے
ہیں*،مشکلوں میں ہنسنے اور مسکرانے والا شخص ایسے ہوتا ہے جیسے کہ صحرا
میں*میٹھا پھل دینے والا درخت ہوتا ہے ۔
ایک دن رحمۃ اللعلمین کسی کام سے جارہے ہیں*انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو
ہمرکابی کا شرف حاصل ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم موٹے کناروں والی بخرانی
چادر زیب تن فرمائے ہیں*ایک اعرابی پہچھے سے دوڑتا آیا اور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی چادر کو پکڑکر زور سے کھینچا ، انس رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں*کہ اس بدو نے چادر اس زور سے کھینچی کہ گردن مبارک پر رگڑ سے نشان
پڑگئے ۔
کام کوئی بڑا نہیں تھا صرف یہ کہا یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس جو
اللہ کا مال ہے اس میں*سے مجھے بھی دو ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑکر اسے دیکھا مسکرادیے
مڑکر اسے دیکھا مسکرادیے
مڑکر اسے دیکھا مسکرادیے
حکم دیا کہ اسے نوازا جائے ۔
یہ فیصلہ اشجع الناس اکرم الناس اور احسن الناس کا فیصلہ تھا بلاشبہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم مضبوط اعصاب کے مالک عظیم رہبر تھے ۔
مشکل وقت میں*مسکرانا رحمۃ اللعلمین کے آفتاب سے بہنے والی روشن کرنوں*کی
باران رحمت ہوتی ہے ، ایک ایسا جو بخل ، بغض ، حسد، کذب ، بہتان تراشی اور
نفرت سے بھرا ہو یہ مقدر نہیں*رکھتا کہ اسے تابندہ روئی شگفتی روئی اور
خنداں*روئی کی دولت میسر آئے یہ ثمرات اور دولتیں*اس دل کا مقدر ہوتی
ہیں*جس میں*محبت اور رحمت بھری ہوتی ہے ، حسن اخلاق اصل میں*محبت اور رحمت
ہی کا فیضان ہوتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شگفتہ روئی بعض*اوقات شگفتہ مزاجی سے بدل جاتی
اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے ان مواقع کا لطف صحیفوں*کا حسن بن جاتا ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنا میل
جول رکھتے کہ آپ نے میرے چھوٹے بھائی سے فرمایا
یا ابا عمیر ما فعل النغیر
اے ابو عمیر تیرے بلبل کو کیا ہوا
ابو عمیر کے پاس بلبل کا ایک بچہ تھا جو مرگیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ازراہ خوش طبعی دریافت کیا ۔(جامع ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :
یاذا الاذنبین
اے دو کانوں*والے !
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں*ایک مرتبہ عرض*کی یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں*آپ نے فرمایا میں*حق ہی تو
کہتا ہوں*۔(جامع ترمذی)
ہنسنا مسکرانا تکلف سے بھی ہوتو فائدہ دیتا ہے ۔
علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں*علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خدمت
میں*حاضر ہوا اس وقت آپ کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ آپ اس پر سوار
ہوں*آپ نے رکاب میں*پاؤں*رکھتے وقت فرمایا
بسم اللہ
اللہ کے نام سے
جب پیٹھ پر برابر ہوگئے تو فرمایا
الحمد اللہ
اللہ کا شکر ہے
پھر فرمایا
سبحن الذی سخر لنا ھذا وما کن لہ مقرنین وانا الی ربنا منقلبوں
بڑی قوت والی ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے یہ سواری مسخر کردی حالانکہ ہم اس
کی طاقت نہیں*رکھتے تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے
ہیں*۔
پھر آپ نے تین مرتبہ پڑھا
الحمد اللہ الحمد اللہ الحمد اللہ
اس کے بعد تین بار
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
اس کے بعد فرمایا
سبحانک انی ظلمت نفسی فغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت
پاک ہے تو میں*نے اپنے نفس پر زیادتی کی سو مجھے بخش دے بلاشبہ گناہوں*کو
تو ہی معاف فرمانے والا ہے ۔
پھر حضڑت علی رضی اللہ عنہ ہنسے اور مسکرائے
ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں*میں*نے عرض*کی
امیر المومنین
آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں*
آپ نے فرمایا
میں*نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا انہوں*نے ایسا ہی کیا تھا
میں*نے سرکار ابد قرار سے پوچھا تھا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہنسے کیوں*ہیں*؟
آپ نے فرمایا تھا
تیرا رب بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے اے میرے رب میرے گناہ بخش دے
سیرت کا نکتہ ہے کہ مسکرانا تکلف سے بھی ہو لیکن ہو سنت کے مطابق تو وہ
فائدہ دیتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کو کبھی تناؤ کا شکار نہ ہونے دیا ،
آپ کی سنت ہے کہ ذہنی اور طبعی دباؤ کا شکار لوگوں*کی مدد کی جائے
انہیں*ہلکا پھلکا رکھنے کی کوشش کی جائے ، ماحول پرلطف بنانے کے لئے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں*میں*گھل مل جاتے ، اپنی خندہ روئی سے لوگوں کے
دباؤ دور کرتے بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ لوگوں*کے لئے
روگوں*کا علاج بن جاتا ۔
علی کو ابوتراب کہنا
عبد الرحمن کو ابو ہریرہ کہنا
وہ شخص جو ماحول کو زعفران زار بنادیتا
اسے ذوالیدین دوہاتھوں*والا فرمادینا
لطیف کلمات ، قلب کشا خطابات ، طبیعت ساز مسکراہٹ*اور روحوں*کے لئے توسع
آفریں*خوش طبعی یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، لیکن سنت نبھانے
کے مواقع کا انتخاب حکمت اور دانشمندی ہوتی ہے ، ماحول سازگار ہوتو
مسکراہٹیں بکھیر دیں*اور غم اور صدمہ کا وقت ہو تو خونصورت کلمات کا انتخاب
سے دلوں*کو سکون بخشیں*، ایمان تو بس فراست کا نام ہے ،
تعریف اللہ کے لئے
اور درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آل و اصحاب پر |