ہفتے کی صبح چار بجے قاتل سیاہ
چین گلیشیئر کا اسی فٹ بلند برفانی تودہ گیاری سیکٹر کے بٹالین ہیڈ کوارٹر
پر گرا جس کے نیچے 128 فوجی افسر و جوان اور گیارہ شہری دب گئے ۔ عقل کہتی
ہے کہ وہ بچھڑ چکے لیکن انہیں شہید لکھتے ہوئے قلم کی زبان پہ لکنت طاری ہو
جاتی ہے کہ پتہ نہیں کتنے دل امید کی کچی ڈور سے بندھے ، آشاؤں کے دیپ
جلائے بیٹھے ہیں ۔ جانے کتنے ننھے منے ہاتھ گلابی گالوں پہ اشکوں کے موتی
سجائے توتلی دعائیں مانگ رہے ہیں ، کتنی بہنوں کی ردائیں اس رحیم و کریم کے
حضور پھیلی ہوئی ہیں ، کتنی مائیں ربّ ِ ذوالجلال سے اپنی جانوں کے عوض
بیٹوں کی زندگی کی طلبگار ہیں اور جانے کتنی سہاگنیں آنکھوں میں امید کی
شمعیں جلائے محوِ انتظار ہیں ۔ ۔۔ ماہرین کہتے ہیں کہ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
لیکن ہم پھر بھی مایوس نہیں کہ مایوسی کفر ہے ۔ ۔۔جوبرف کی دبیز تہوں کے
نیچے موت سے نبرد آزما ہیں ، پوری قوم ان کے لئے دست بہ دعا ہے اورجو برف
کی چادر اوڑھ کے سو گئے و ہ حیاتِ جاوِداں پا گئے کہ میرے ربّ کا فرمان ہے
” شہید کو مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہے اور اپنے ربّ کے ہاں سے خوراک حاصل کر
رہا ہے البتہ تم ادراک نہیں کر سکتے “ ۔
تسلیم بلکہ جزوِ ایماں کہ شہید کی موت میں قوم کی حیات مضمر ہے ۔ سوال مگر
یہ کہ کس قوم کی حیات ؟۔ کیا اُس قوم کی جس نے حقِ حکمرانی ایسے لوگوں کو
بخش دیا جن کے اندر دھڑکتا دل ہے نہ رگوں میں دوڑتا لہو؟۔جب جنرل کیانی
گیاری پر کھڑے ریسکیو آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے عین اسی لمحے ٹویٹر پر
بلاول زرداری کا پیغام آ رہا تھا کہ ”من موہن جی کا کھانا بہت مزیدارتھا“۔
اِدھر یہ سانحہ عظیم اُدھر جنابِ زرداری اپنا دورہ بھارت محض اس لئے ملتوی
نہیں کرتے کہ جوتشی نے کہا تھا کہ اگر آٹھ اپریل کو اجمیر شریف حاضری دیں
گے تو ساری بلائیں دور ہو جائیں گی ۔ کیا زندہ قوموں کے رہنما ایسے ہی ہوتے
ہیں ؟۔سبھی جانتے ہیں کہ 1984 سے اب تک طوفانوں کی نذر ہونے والے تین ہزار
سے زائد فوجی جوانوں کی شہادت کا اصل مجرم بھارت ہی ہے جس نے 1984 ءکے
موسمِ سرما میں ستر کلومیٹر پر پھیلے سیا چین گلیشیئر پر قبضہ کر لیا
حالانکہ اس گلیشیئر کو ہمیشہ ”نو مینز لینڈ“ تصور کیا جاتا رہا ۔صرف موسمِ
گرما میں دونوں ممالک کے فوجی وہاں پہ ایک آدھ گشت کر لیا کرتے تھے ۔ ہمارے
جری جوانوں نے شجاعت کی نا قابلِ یقین داستانیں رقم کرتے ہوئے سیا چین کا
پاکستانی حصہ تو دشمن کے قبضے سے آزاد کروا لیا لیکن تب سے اب تک کوہ
ہمالیہ کے اس سلسلے میں جگہ جگہ فوجی مورچے قائم ہیں ۔ یہ عجب محاذِ جنگ ہے
جہاں دونوں متحارب افواج کا مشترکہ دشمن یہی گلیشیئر ہے جو پانچ ہزار سے
زائد بھارتی فوجیوں کی بھینٹ بھی لے چکا ہے ۔ اس محاذ پر پاکستان سے چار
گنا زیادہ اخراجات کرنے کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور دنیا
کی سب سے بڑی جمہوریت کے حکمرانوں سے ایک ارب بیس کروڑ بھارتیوں میں سے
کوئی ایک بھی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آخر یہ بھینٹ کیوں دی جا رہی ہے ؟۔
میں سیاچین کی خوفناکیوں سے غائبانہ اس لئے آگاہ ہوں کہ میرے داماد میجر
ڈاکٹر اس علاقے کی اکیس ہزار فٹ اونچی ”سیڈل پوسٹ“ پر ڈیوٹی دے چکے ہیں ۔
ان کی زبانی جو کچھ سنا وہ ناقابلِ یقیں سا لگتا ہے ۔ بلند و بالا چوٹیوں
پر بیٹھے یہ شاہیں صفت افسر و جوان عزم و ہمت کے وہ پیکر ہیں جو پیہم موت
سے پنجہ آزمائی کرتے رہتے ہیں ۔ آکسیجن کی اتنی کمی کہ سانس لینا دشوارہو
جاتا ہے ، نیند اور بھوک ختم ہو جاتی ہے ، سر میں ہر وقت شدید درد کی شکایت
رہتی ہے اور برف پر پڑتی سورج کی تیز شعاعوں کے انعکاس سے رنگت سیاہ پڑ
جاتی ہے ۔ ”سنو بائیٹ“ کا بہت سے جوان شکار ہو جاتے ہیں، کسی کی انگلیاں
شہید ہو جاتی ہیں تو کسی کے ہاتھ اور کسی کے پاؤں لیکن پھر بھی جذبے جوان
رہتے ہیں ۔
سکردو سے سیا چین تک کا بیس بائیس دنوں پر محیط پیدل سفردر اصل موت کا سفر
ہوتا ہے ۔ موت کی اس وادی میں قدموں کے نیچے برف سے ڈھکی گہری کھائیاں اور
چوٹیوں سے گرتے برفانی تودں اور طوفانوں کا قدم قدم پر سامنا کرتے یہ جری
اپنی منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں ۔ راہ میں کئی ایسی جگہیں آتی ہیں جنہیں
شہیدوں سے منسوب کیا گیا ہے اور ہر مقام کی الگ ہی داستان ہے۔ فوجی جوان
جگہ جگہ رک کر فاتحہ خوانی کرتے اور اپنے جذبوں کو مہمیز دیتے ہیں ۔ سیڈل
سے پہلے آخری پوسٹ عبور کرنے کے بعد اگر بائیں مُڑ جائیں تو سامنے کے۔ٹو کی
چوٹیاں نظر آنے لگتی ہیں جو سیاحوں اور کوہ پیماؤں کے لئے ہمیشہ باعثِ کشش
رہی ہیں ۔ کے۔ٹو کی چوٹیاں سر کرنے کے لئے یہ واحد راستہ ہے جو صر ف
پاکستان سے جاتا ہے ۔ دائیں جانب کا راستہ سیڈل پوسٹ پر جا کر ختم ہوتا ہے
۔ ”سیڈل“ گھوڑے کی زین کو کہا جاتا ہے ۔ اس پوسٹ کا نام سیڈل بھی اسی
مناسبت سے رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے دونوں جانب اونچی چوٹیاں اور درمیان
میں ڈھلوان ہے ۔ سیڈل کے ایک طرف پاکستانی اور دوسری طرف انڈین پوسٹیں ہیں
اور درمیانی ڈھلوان کو ”نالہ“ کہا جاتا ہے ۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں S.S.G کے
میجر نیازی اپنے پچیس ساتھیوں سمیت گئے اور پھر کبھی لوٹ کے نہیں آئے ۔ اب
اسے ”نیازی پوسٹ“ کہا جاتا ہے ۔ میرے داماد نے بتلایا کہ اس کی پوسٹنگ سے
چار ماہ پہلے کیپٹن سعید اپنے بارہ ساتھیوں کے ہمراہ سیڈل کی طرف رواں تھے
کہ اچانک انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے اوپر کوئی سلائیڈ ٹوٹی ہو ۔ اپنے
ساتھیوں کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے غور سے سنا تو گڑگڑاہٹ کی
آواز زیادہ واضح سنائی دی ۔ اس جری افسر نے ہمراہیوں کو اپنے جسموں سے
بندھے رسے کھولنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا پھر فضااللہ
ا کبر کی گونجتی فضاؤں میں آناََ فاناََ برف کا طوفان کیپٹن سعید سمیت چار
غازیوں کو رتبہ شہادت سے سرفراز کرتا ہوا گہری کھائی میں گُم ہو گیا ۔ آج
وہ جگہ ”سعید پوسٹ“ کے نام سے منسوب ہے ۔ کیپٹن ڈاکٹر حلیم اللہ محض چند دن
پہلے تک سی۔ایم۔ایچ راولپنڈی میں زیرِ علاج تھا لیکن جوں ہی طبیعت سنبھلی
گیاری پہنچ گیا اور آج برف کی اسی فٹ موٹی چادر اوڑھے سو رہا ہے ۔ سیاچین
گلیشیئرمیں ایسی بیشمار کہانیاں دفن ہیں ، کس کس کا ذکر کریں ؟۔ سیڈل تو
صرف ایک پوسٹ ہے جب کہ کوہ ہمالیہ کے اس سلسلے میں ایسی بیشمار پوسٹیں قائم
ہیں اور ہر پوسٹ کی الگ داستان لیکن مجال ہے جو کسی افسر یا جوان نے کبھی
موت کی اس وادی میں قدم رکھنے سے انکار کیا ہو ۔یہی نہیں بلکہ اکثر ایسا
ہوتا ہے کہ شوقِ شہادت سے سرشار یہ غازی ، یہ پُر اسرار بندے خود سیا چین
جانے کی ضد کر بیٹھتے ہیں ۔
چوٹیوں پہ بیٹھے ہوئے وطن کے ان محافظوں کی زندگی بھی وہاں عجب ڈھنگ سے
گزرتی ہے ۔ ”اگلو“ دو تہائی برف میں دھنسے ہوتے ہیں ۔ ایک بار برف باری
شروع ہو جائے تو کئی کئی دن جاری رہتی ہے ۔ برف باری کے دوران دو جوان دن
رات اگلو کے دروازے سے برف ہٹاتے رہتے ہیں تاکہ تھوڑی بہت آکسیجن ملتی رہے
۔ ہر پندرہ دن بعد ہیلی کاپٹر کھانے پینے کا سامان لے کر آتا ہے ۔ لیکن بعض
اوقات خراب موسم کے باعث ایک ایک ماہ تک ہیلی کاپٹرکاانتظار کرنا پڑتا ہے
۔ایک بار ایسا بھی ہوا کہ کئی دنوں تک ہیلی کاپٹر نہ آیا اور ماچسوں کا
ذخیرہ ختم ہو گیا ۔ آخری بچی ہوئی ماچس کی آخری چند تیلیوں کو اس طرح سے
سنبھال سنبھال کر رکھا جا رہا تھا جیسے وہ دنیا کی سب سے قیمتی شئے ہوں
۔موسمِ گرما میں یہ گلیشیئر زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے کیونکہ پگھلتی برف کے
ساتھ ہی جگہ جگہ ہزاروں فٹ گہری کھائیاں نمودار ہونے لگتی ہیں جو راستے
مسدود کر دیتی ہیں ۔ایک الٹا سیدھا قدم ہزاروں فٹ گہری کھائیوں میں دھکیل
دیتا ہے ۔
باتیں تو بہت سی ہیں لیکن یہیں پہ بس کرتے ہوئے میں صرف اتنا عرض کروں گا
کہ شوقِ شہادت سے سرشار ان جری جوانوں کی دفاعِ وطن کی خاطر مر مٹنے کی
تمنا کا کوئی مول نہیں سوائے بے پناہ محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور
کرنے کے ۔ طالع آزماؤں کو چھوڑیے کہ وہ تو ہوسِِ اقتدار کے بھوکے چند جرنیل
ہوتے ہیں ۔پاک فوج کے ان جوانوں کو یاد رکھیے جن کے حوصلے گیاری جیسے سانحے
بھی پست نہیں کر سکتے ۔ |