ایک ہفتے کے اندر دو اہم ستونوں
کا گرجانا، دو اہم چراغوں کا بجھ جانا،اس سے زیادہ افسوس ناک واقعہ
علماءکرام اور صلحاءکرام سے محبت کرنے والوں کے لئے نہیں ہوسکتا۔یہ حضرات
وہ نادر موتی تھے جن کا مقام ارباب علم و دانش سے مخفی نہیں،ان شمار ماہر
فنون میں ہوتا تھا۔اپنی پوری زندگی کو دین اسلام کے لئے وقف کردی تھی اور
مرتے دم تک دین اسلام کی خدمت میں ہی گزار دی۔ان دونوں حضرات کے جانے پے
جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔کتابت و خطابت میں اﷲ عزوجل نے اتنی فصاحت دی
تھی کہ جہاں بھی ایک بار جاتے ،لوگ دوبارہ ملنے کا اشتیاق رکھتے تھے۔ان کی
خدمات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے،اور نہ ہی ایسے الفاظ ہیں، جس سے ان
حضرات کی پیش کردہ خدمات کی تعریف کی جاسکے۔
ان میں سے ایک جامعةالعلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے استاد
الحدیث اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا عطاءالرحمن تھے،مردان کے ایک گاؤں
کاٹلنگ کے رہنے والے تھے ۔1960میں مولانا کی پیدائش ہوئی اور اپنی ابتدائی
تعلیم بنوری ٹاؤن سے حاصل کی، اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہی پر 1975میں
استاد مقرر ہوئے۔مولانا ایک بارعب اور ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے،
جامعةالعلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن میںحضرت ،مسلم شریف ،
مشکوٰة اور شرح جامی وغیرہ کتب اپنے ایک مخصوص اندازسے پڑھاتے تھے۔درس
وتدریس کے ساتھ ساتھ وہ صالح مسجد کے امام بھی تھے وہ ہرفن کے ماہر تھے،مگر
سادگی کی زندگی گزارتے تھے،شفیق اتنے تھے کہ کلاس میں طالب علموں کے ساتھ
دوستانہ ماحول رکھتے تھے،ان کے طالب علموں کی ان کے جانے کے بعد جو حالت
تھی اس کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں۔جس طرح چہرے غم کی وجہ سے مرجھائے
ہوئے تھے،ان کی اس حالت کو بھی الفاظ کی صورت دینا ممکن نہیں۔جامعہ کے شاخ
کے ایک استاد حضرت مولانا عبدالغفار صاحب جو ان کے قریبی شاگردوں میں سے
تھے ،جب حادثے کا سنا توغم کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے۔جامعةالعلوم
الاسلامیہ کے دورہ حدیث کے طلباءکرام نے ان کے شھید ہونے کے بعد ایک شعر
مولانا عطاءالرحمن کے نام کی ہے جس سے ان کے دینی جذبے کا پتا چلتا ہے اور
اس شعر کے اند ر ایک درد کا المیہ سموئے ہوئے ہیں۔
مجھے اپنی زندگانی میں کسی اور چیز کی تمنا نہیں یارب،
میری زندگی سے جڑے ہرشخص کا دامن خوشیوں سے بھرا رھے۔
مولانا عطاءالرحمن صاحب بھی ان 126 افراد میں شامل تھے جو جہاز کے گرنے کی
وجہ سے شھید ہوئے ہیں۔مولانا تقریبا30سال تک جامعہ بنوری ٹاؤن کی ذمہ
داریاں سنبھالتے رہے۔
دوسرے عالم ومتقی قاضی حمیداﷲ جان صاحب تھے،بڑے ماہر فن تھے،سبق پڑھانے کا
انداز اتنا سادہ اور دل مول لینے والا تھا کہ آسانی سے ایک عام آدمی بھی
سمجھ سکے۔دین کی خدمت اور سربلندی کے لئے انہوں نے اپنے صوبے خیبر پختون
خواہ کو چھوڑ کرگجرانوالہ میں سکونت اختیا کرلی تھی۔اور لوگوں کو گجرانوالہ
سمیت ،پاکستان بھر میں دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے رہے، وہ یہاں
کراچی بھی آئے تھے کیماڑی ،سلطان آباداور کراچی کے دوسرے علاقوں میں
تقریریں بھی کی ہیں،جو آج تک ان علاقوں میں رہنے والوں کے سینے میں محفوظ
ہیں۔اﷲ عزوجل نے زبان میں اتنی مٹھاس و تاثیر رکھی تھی کہ کراچی کے ہر کونے
سے علما کرام ان کی تقریر سننے کے لئے تشریف لاتے تھے۔مگر افسوس کہ وہ بھی
اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
ایک عالِم کی موت سارے عالَم کی موت کہلاتی ہے۔ان دونوں حضرات کے جانے کے
بعد جو خلا ان کی وجہ سے رہ گیا ہے اس کے لئے رجال کا ملنا بہت مشکل
ہے۔جوامور یہ حضرات اکیلے کرتے رہے اب دو حضرات بھی ان کے امور نہیں
چلاسکتے۔آج یہ حضرات ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے تلامذہ جو سینکڑوں کی
تعداد سے تجاوز کرچکے ہیں ،ان کو دیکھ کر ان حضرات کی یاد تازہ کر سکتے
ہیں، علماءکرام کے پے درپے چلنے جانے سے جو علم کے چراغ انہوں نے روشن کیے
تھے ،وہ تو بجھ گئے لیکن جن لوگوں نے ان کے علم کے چراغ سے روشنی لی تھی وہ
باقی ہیں ،لیکن آج یہ دونوں حضرات اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں،اور ہمارے
سامنے جودین کی دشواریاں تھی اسے آسان کرکے گئے ہیں۔اور ہمیں یہ سکھا کر
گئے کہ جہاں تک ہم نے دین کے سلسلے میں خدمت کی اس کو رکنے نہ دینا اور
ہمارے بعد اس کو آگے بڑھاتے رہنا۔ایک شعر ان حضرات کے نام کرتا ہوں۔
موت اس کی جس کا زمانہ کرے افسوس،
یوں تو آئے ہیں دنیا میں سبھی مرنے کے لیے۔ |