زندگیاں داﺅ پر

روسی ساختہ طیارہ فلائٹ نمبر بی دو سو تیرہ کا ایک قومی سانحے کی صورت میں گزشتہ روز حادثے کا شکار ہوا۔ طیارہ خراب موسم کے باعث گرا، پائلٹ کا کنٹرول ٹاور سے چھ بجکر چالیس منٹ پر رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ کنٹرول ٹاور نے طیارے کو لینڈنگ کی اجازت دے دی تھی لیکن جہاز ائر پورٹ پر لینڈنگ سے قبل ہی گر کر تباہ ہوگیا۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہو رہی تھی۔راولپنڈی میں چکلالہ کے علاقے بحریہ ٹاﺅن کے قریب نجی ایئر لائن کا مسافر طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق 118 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں ، طیارے میں 127 مسافر سوار تھے، طیارہ کراچی سے اسلام آباد کیلئے شام 5 بجے روانہ ہوا تھا۔ فضائی حادثے کے بعد سول ایوی ایشن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا مسافر طیارہ بھوجا ایئر لائن کا ہے جس میں 118 مسافر اور عملے کے 9 ارکان سوار تھے۔ خبروں کے مطابق طیارہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے 5 کلو میٹر دور رہائشی علاقے میں گرا، حادثے کے مقام پرتما م طرف آگ لگ گئی اور طیارے کا ملبہ دور دور تک بکھرا ہوا ہے۔ سول اور فوجی امدادی ٹیمیں حادثے کے مقام پر پہنچ گئی ہیں جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نجی ایئر لائن کی پرواز بی فور- 213 شام 5 بجے کراچی سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئی تھی تاہم ٹریفک کنٹرول سے 6 بج کر 40 منٹ سے طیارے کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق کنٹرول ٹاور سے طیارے کو لینڈنگ کیلئے کلیئر کردیا گیا تھاتاہم موسم کی خرابی کے باعث طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ وزیر دفاع نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کو راولپنڈی میں طیارہ حادثے کی تحقیقات کا حکم دیدیا۔اگرچہ تاحال لاشوں کی شناخت جاری ہے جس میں سے102لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے۔تما م 127لاشیں مل چکی ہیں اور لواحقین کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر اپنے ہلاک شدگان افراد کی لاشیں لیکر کراچی کی طرف شدید قیامت خیز لمحات میںرواں دوا ں ہیں۔اس حادثے میں کئی گھر اجڑ گئے ،کئی گھرانے لٹ گئے۔

قارئین! پچھلے سال ائر بلیو کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور المناک حادثے کے بعد بھی کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔اس جہاز کے اترنے میں بھی فقط کئی منٹ کا سفر باقی تھا کہ یہ اس خوفناک حادثے کا شکار ہو گیا۔اگرچہ موسم بہت خراب تھا لیکن سوچنے کی یہ بات ہے کہ اس نجی کمپنی نے کس طرح اپنا لائسنس حاصل کیااور اتنے پرانے جہاز چلانے کی اجاز ت حاصل کی۔اس سارے مرحلے میں کوئی نہ کوئی گھپلا ضرور ہے ہوا ہے اس کمپنی اور لائسننگ اتھارٹی کے درمیان کوئی غیر شفافانہ کردار ضرور خفیہ اور طاقتور ہیں ۔پچھلے سال والے حادثے میں بھی جہاز کا کیپٹن پہلے سے ریٹائرڈ ہو کے دوبار ہ بطور کپتانی اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا اور اس دفعہ بھی اس قسم کی صورت حال کا سامنا ہوا ہے۔

اس خوفناک حادثے نے پہلے کی طرح کئی سوالات کو جنم دیا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اسلام آباد میں موسم اتنا خراب تھا تو اس کمپنی کے جہاز کو اسلام آباد کی طرف اڑان کی اجازت کس طرح ملی؟۔اس جہاز کے پائلٹ کی زیادتی عمر کے بعد کیا اس کا میڈیکل فٹنس درست طریقے سے کرایا گیا یااسے محض تجربہ کار ہو نے پر اس جہاز کا کرتا دھرتا بنا دیا گیا۔حالانکہ عمر کے ساتھ ساتھ عمر،نظر،ذہن اور جسم کی پھرتی میں فرق آجاتا ہے جب ایک کمپنی کسی شخص کو پچاس یا ساٹھ سال بعد ریٹائرڈ کرتی ہے تو یقینا یہ اس ادارے اور اس شخص کے ساتھ انصاف ہوتا ہے۔ایسے کسی بھی ریٹائرڈ افراد جن میں پائلٹ،ڈرائیور یا ٹیکنیکل فیلڈ کے افراد ہیں ان کی نظر،ذہن اور جسمانی فٹنس نہایت ضروری ہوتی ہے، انہیں دوبار ہ منتخب کرنا دراصل معاشرے کے ساتھ نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے؟جنوبی افریقہ سے درآمد کئے گئے 30سالہ پرانے جہاز کو کن اصولوں کے تحت اڑنے کے قابل سمجھا گیا یا بنایا گیا؟اسلام آباد کے قریب پہنچنے کے بعد اس جہاز کو شدید خراب موسم کی اطلاع دی گئی یا نہیں؟پچھلے سال کی طرح یہ جہاز بھی اچانک کریش ہوا کیا اس میں کوئی موسمی ردعمل ہے یا اس جہاز کو خدانخواستہ کسی چیز سے ہٹ کیا گیا ہو اور اس کے تانے بانے کسی دہشت گردی سے ملتے ہوں کیونکہ اتنی نیچی پرواز میں فلائٹ کی اتنی بڑی تباہی کا خدشہ نہیں ہوتا جب کہ ٹیکنیکل لحاظ سے ڈی سول ایوی ایشن کے مطابق انجن میں کوئی خرابی نہیں تھی؟ڈی جی سول ایوی ایشن کے مطابق بھوجا ائر لائن کو لائسنس کسی سیاسی دباﺅ کے تحت نہیں دیا گیا مگر قارئین ! خدا جانے اصل بات کیا ہے؟کیا اس قومی سانحے کی تحقیقات سانحہ ائر بلیو کی طرح لوگوں کے لئے سوالیہ نشان چھوڑ جائیں گے اور اصل مجرم صاف بچ جائیں گے؟

سانحہ کورال جو محلہ حسین آبادکا یہ سانحہ مدتوں نہ صرف لواحقین بلکہ تمام پاکستانیوں کا دل لرزاتا رہے گا اور کئی افراد کسی بھی ائر لائن میں سفر کرنے سے نہ صر ف گھبرائیں گے بلکہ گریزاں رہیں گے۔تما م لواحقین جن میں اکثریت کا تعلق کراچی،راولپنڈی،اسلام آباد اور دیگر علاقوں سے ہے ان کی آہیں اور سسکیاں نہ جانے کب تک ہم سب کے کانوں میں دلسوز ماحول اجاگر کرتی رہیں گے اور تمام پاکستانی ائر پورٹس پر نہ صرف پرانے ایکسپائر جہاز اور ریٹائرڈ پائلٹس دوبارہ بطور پائلٹ اپنی اڑانوں میں لوگوں کی زندگیاں داﺅ پر لگائے آتے جاتے رہیں گے۔
mumtazamirranjha
About the Author: mumtazamirranjha Read More Articles by mumtazamirranjha: 35 Articles with 35204 views I am writting column since 1997. I am not working as journalist but i think better than a professional journalist. I love Pakistan, I love islam, I lo.. View More