سانحہ سے سانحہ تک ۔۔۔اسباب وعوامل

ہر ُابھر تا سورج اک نئی داستان اپنے سینے میں لیے طلوع و غروب ہو تا ہے ،بہت سے گھروں میں خوشی و شادمانی کے گیت گائے جاتے ہیں جب کہ بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے ،ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ خطرناک خبریں لاتا ہے ،کسی زمانے میں ایک فر د کی موت سے دل دھل جاتے تھے اک فرد کی موت سے معاشرہ غمگین ہوتا تھا ،اب گردش ایام کی ایسی باد سموم چلی کہ فر د کی موت موت نہیں لگتی ،اب تو زمین سینکڑوں کو نگلنے کی عادی ہو چلی ہے ،اخبارات کی شہ سرخیاں بھی جب تک ایک صد یا اس سے زیادہ کا ہندسہ ظاہر نہ کریں تو وہ خبر معمول کی کارروائی لگتی ہے ۔ وطن عزیز پاکستان میں موت کا رقص جاری ہے ،کراچی ،کوئٹہ ،گلگت بلتست ان پہلے سے انسانی خون سے لت پت ہیں ،کراچی کی سرزمین تو خون کی پیاسی ہو گئی جس کی پیاس بجھنے کو ہی نہیں آتی ،روزانہ بیسیوں نہتے افراد ٹاگٹ کلنگ کا نشانہ بن کو داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں ۔

ابھی کراچی دہشت گردی کی بھٹی میں بھڑک رہا تھا کہ سیاچن کے برفانی تودوں نے گیاری سیکٹر میں 135جانباز و جانثا ران وطن کو آدبوچا ۔آج پندرہ روز سے پوری قوم ان کے درد والم کے باعث غمگین ہے ۔ضبط کے بندھن ٹوٹنے کو ہیں ، کو ئی ڈھارس نہیں بندھتی ،کوئی امید بر نہیں آتی لیکن پھر بھی قادر مطلق ذات( جو ابرہیم کے لیے آتش نمرود کو گلِ گلزار بنا سکتی ہے ،یونس ؑ کو مچھلی کے شکم میں زندہ رکھ سکتی ہے ،اصحاب کہف کو تین صد نوسال تک بغیر خوراک کے یقظ و نوم کی درمیانی حالت میں رکھ سکتی ہے )سے امیدوں کے چراغ ابھی نہیں بجھے یقینا اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔وہ ذات بڑی زبر دست ذات ہے ،وہ ذات اپنے حبیب کے امتیوں برف تلے دبے محب وطن سپاہیوں کو زندہ نکالنے پر بھی قادر ہے ،ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ان کو زندہ نکالیں ۔بہر حال پوری قوم ان کے غم میں نڈھال ان کے خاندانوں کے دکھ درد کی برا بر کی شریک ہے ،ابھی اس غم کو بھلا نہ پائے تھے کہ اچانک ایک اور جانکاہ خبر نے اعصاب کو شل اور اذہان کو مفلوج بنادیا ،ایک ایسی خبر جس سے پتھر سے پتھر دل موم ہو جاتا ہے ،ہر آنکھ میں آنسوﺅں کی بارات رم جم بارش کی طرح آجاتی ہے ،کلیجے پھٹ کے سینے کو آجاتے ہیں ،زبان گنگ ہو جاتی ہے کہ کراچی سے اسلام آباد آنے والی بھوجا ائیر لائن منزل کے قریب پہنچ کر عظیم حادثہ سے دوچار ہو گئی ہے ۔
نکلے تھے ہم گھر سے عزیزوں کے دیس کو
منزل کے پاس آکر سفینہ اُجڑ گیا

نصف سے زائد صنفِ نازک ،بچوں کی کثیر تعداد اور علمائے کرام خصوصاً ملک کی معروف دینی درسگاہ علامہ بنوری ٹاﺅن کراچی کے ناظم تعلیمات مولانا عطاءالرحمن اور عبدالمجید ہزاروی صاحب کے بھانجے عثمان رشید کی شہادت نے ہر آنکھ کو اشک بار بنا دیا ۔کس کس کا رونا رویا جائے ،کس کس کا درد اور نوحہ لکھا جائے ایک سے ایک واقعہ دل کو خون سے پسیج رہا ہے ، نو بیاہتے جو ڑے کی بھی داستان ہے کیا کیا حسرتیں اور امیدیں لیے 128افراد موت کی سواری پر سوار ہوئے ہوں گے،کسی کو کیا خبر تھی کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے کو ہے ۔۔؟

ابھی مارگلہ کی پہاڑیوں میں ائیر بلیو طیارے میں 156افراد کی موت معمہ بنی ہوئی تھی کہ بلیک باکس نہیں مل رہا یا مل گیا ہے لیکن اس کے حقائق ابھی تک نظروں سے اوجھل ہیں ،ابھی تک اس حادثے کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ مغموم و پریشان وطن عزیز کے باسیوں پر اک اور غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا ،کہا جاتا ہے کہ طیارہ بہت پرانا تھا اس لیے یہ حادثہ پیش آیا ،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موسم درست نہیں تھا ،جس کے باعث آسمانی بجلی کے گرنے سے یہ سب ہوا ،کوئی تقدیر کے اٹل فیصلوں کے سامنے اپنے خیال کے گھوڑے دوڑاکر پائلٹ سے نالاں ہیں کہ جب کلیئرنس نہیں ملی تو لینڈ کیوں کیا۔۔۔ ؟ یا ہوا میں طغیانی کے باوجود پائلٹ کو لینڈنگ کی اجازت کیوں کر دی گئی اس طرح کے شکو ک و شبہات کی بھر مار ہے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ بہر حال جو اللہ کو منظور تھا وہ ہوگیا ۔

ائیر بلیو ہو یا بھوجا ائیر لا ئن، پی آئی اے ہو یاامارات ائیر لائن ،نئے طیارے ہوں یا پرانے ،ماہر پائلٹ ہو یا ناتجربہ کار ،موسم سازگار ہو یا آندھی طوفان یہ سب چیزیں اللہ کے فیصلے کے سامنے ہیچ ہیں ،آج ہماری نظر موسم کی ناسازگاری ،طیارے کی ادھیڑ عمری اور پائلٹ کی ناتجربہ کاری کی طرف تو جاتی ہے لیکن ان اسباب و عوام کی طرف نہیں جاتی جن کی بدولت آج وطن عزیز پاکستان مسائل کی دلدل میں دھنسا جا رہا ہے ۔کبھی خیبر پختونخواہ اور سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں اُمڈ آتی ہیں تو کبھی زندہ دلاں شہر لاہور میں ڈینگی جیسا نحیف کمزوربدن مچھر چھ فٹ انسان پر تابڑ توڑ حملے کر کے انہیں پریشان کرتا ہے ۔کبھی مارگلہ کی پہاڑیاں ڈیڑھ صدانسانی لوتھڑوں سے رنگین ہوتی ہیں تو کبھی ائیر پورٹ کے قرب وجوار میں انسانی اعضاء بکھرتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نتیجہ ہے ۔ جو کہ ہماری شامت اعمال کی بدولت ہم پر مسلط ہوتی رہتی ہیں ۔موجودہ حالات ہم سب سے ”انقلاب“ کے متقاضی ہیں۔ ہمارا اللہ تعالٰی کے ساتھ رابطہ کمزور ہو چکا ہے ۔ہم گناہوں کی وادیوں میں بھٹک کررب رحمن کی رحمت سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی صدق دل سے ٹھان لیں تو اللہ کی ذات سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ہمارے دگر گوں حالات کو سدھار سکتا ہے۔ اللہ رب العزت کی لاریب کتاب میں آج بھی یہ اعلان جلی حروف میں موجود ہے ”توبو الی اللہ جمیعا ایہاالمومنون لعلکم تفلحون‘ ‘ ترجمہ ۔ اے مومنو تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاﺅ۔

آئیے آج ہم عہد کریں کہ ہم سب اپنے گناہوں پر صدق دل سے ندامت کے آنسو بہا کرتوبہ کے ذریعے اس ذات کو راضی کر لیں جس کی ناراضگی کے باعث ہم ان برے حالات سے دوچار ہیں ۔اللہ تعالیٰ دنیا کے بلند ترین سرد محاذ سیاچن میں برف تلے دبے فوجیوں کی حفاظت فرمائیں اورطیارہ حادثے میں شہید ہونے والے تمام لوگوں کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں ۔آمین
Tuseef Ahmed
About the Author: Tuseef Ahmed Read More Articles by Tuseef Ahmed: 35 Articles with 32112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.