اللہ تعالیٰ کے لئے ہی سب
تعریفیں ہیں جو تمام زمینوں اور آسمانوں کا بنانے والا ہے۔ جس نے انسان کو
تمام مخلوق میں افضل اور حسین بنایا ۔پھر اسے عقل دی تاکہ وہ اپنے نفع و
نقصان، اپنی عزت و حرمت یا بے عزتی کا خیال رکھ سکے ۔بیشک عورت انسان کی
فروغ نسل کا ذریعہ ہے لیکن ایک قاعدے اور اصول پر قائم رہ کر ۔
آج ہمارے معاشرے میں جو جنسی برائیاں اور بدکاریاں موجود ہیں ان کی بڑی وجہ
بے پردگی ہے اور ہماری بیٹیاں اور بہنیں ننگے منہ اور ننگے غیر محرم مردوں
کے ساتھ مصروف عمل ہیں اور بناﺅ سنگھار کر کے سکولوں ،کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔دفتروں میں کام کرتی ہیں ۔جلسوں
جلوسوں اور ہڑتالوں میں مردوں کے ساتھ ہو تی ہیں ۔اس طرح مردوں اور عورتوں
کے اختلاط سے برائیاں جنم لیتی ہیں اور فحاشی کو ترقی ملتی ہے ۔اسلام عورت
کے با پردہ کام کاج اور تعلیم پر پابندی نہیں لگاتا ۔ مگر عورت کو اپنے بناﺅ
سنگھار کو حدود چاردیواری میں قید رکھنے کا پابند بناتا ہے ۔
بعض حضرات عورتوں کو ترقی کا خواب دکھاتے ہوئے بے پردگی پر زور دیتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کر ان کے دوش بدوش کام کرنا
چاہئے ۔لیکن اس دوش بدوش کام کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر مردوں کے
ساتھ کھلے منہ پھرتی رہیں اور ان کی بے پردگی ہے ۔اس نام نہاد آزادی کی
اسلام اجازت نہیں دیتا ۔
مغربی تہذیب کا اثر:
ہمارے ہاں بعض لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ اور غیر مسلم ممالک کی طرح عورتوں
کو میدان عمل میں غیر مردوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ
عورت کو گھر میں قید کر کے اس کے حقوق غصب کر لئے جاتے ہیں اور اس طرح سے
ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔حالانکہ یہ دعویٰ بے پردگی و بے حیائی کو فروغ دیتا
ہے جو کسی قوم کی پستی اور تنزلی کا باعث ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بے حیائی اور تنزلی سے بچانے کے لئے اپنے
محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے ذریعے پیغام بھیجاہے کہ :”اے نبی (ﷺ)
اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی
چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی
پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔“(سورة ا
لاحزاب پارہ22)
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کا حکم دیا ہے لیکن جو
لوگ بے پردگی کے قائل ہیں وہ ذلیل ہوتے ہیں اور احکام الہٰی کے جھٹلا
نیوالے ہیں اورفرنگی تہذیب کو دعو ت دینے والے ہیں ۔
معزز قارئین ! ہماری بیٹیاں اور بہنیں جب زرق برق لباس پہن کر باہر نکلتی
ہیں تو لوگوں کی نگاہیں اُن کی طرف اُٹھتی ہیں۔ اوباش آوازے کستے ہیں اور
لوگوں کے دلوں میں وسواس پیدا ہوتے ہیں ۔کیونکہ عورتوں کا حسن مردوں کے
جذبات کو بھڑکاتا ہے اس لئے حرام کاری کو فروغ ملتا ہے ۔
فرمان نبوی ﷺ ہے :” عورت سرتا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے جب وہ باہر نکلتی
ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے ۔“(مشکوٰة266)
بے پردگی جاہلیت ہے :بعض اصحاب کے نزدیک آجکل بے پردگی ترقی اور تہذیب کا
نشان ہے ۔لیکن یاد رہے کہ عریاں کاری جاہلیت اور پستی کا اظہار ہے۔ کیونکہ
زمانہ ¿ جاہلیت میں بے پردگی عام تھی اور کھلے میدانوں میں عورتیں اور مرد
ننگے پھرتے تھے اور جانوروں کی طرح ایک دوسرے سے پردہ نہ تھا ۔ننگے ہو کر
نہاتے اور رفع حاجت کے لئے باہر نکلتے تھے اور مرد اور عورتیں ننگے ہو کر
اکٹھے خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ لیکن بے حیائی اللہ تعالیٰ کو ہر گز
پسند نہ تھی اور اس نے ان کو سمجھانے کے لئے نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا
جنہوں نے فرمایا:”خبردار ! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی
ننگا حرمِ محترم کا طواف کرے ۔“(رواہ المسلم)
اسی طرح زمانہ جاہلیت میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی تھیں اور اپنی زینت و
محاسن کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں ۔لباس ایسا پہنتی تھیں جن سے
جسم کے اعضا صاف نظر آئیں۔ اسلام نے بڑی سختی سے اس بے حیائی کو روکا اور
فرمایا :”اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو جیسے اگلی جاہلیت
کی بے پردگی تھی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اللہ اور اس کے رسول
کا حکم مانو“(سورة الاحزاب پارہ 22)
اس سے ظاہر ہے کہ زمانہ جاہلیت کی عورتیں بھی آج کل کی عورتوں کی طرح بناﺅ
۔سنگھار کر کے غیر مردوں کو دکھاتی تھیں ۔لیکن آج کی عورت پہلے وقتوں کی
عورت سے کچھ زیادہ ہی ترقی کر گئی ہے اور وہ بازاروں ،تقریبوں ،جلسوں
،تفریح گاہوں اور سینما گھروں میں بناﺅ سنگھار کر کے جاتی ہے اور نا محرم
یعنی غیر مردوں سے باتیں کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتی۔ اِس طرح سے جاہل
عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر برائی اور بے حیائی کو دعوت دیتی ہیں یہ جہالت
نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ شیطان تو ہر وقت انسان کے پیچھے لگا رہتا ہے
اور اسے گناہ گار ی کی طرف راغب کرتا ہے ۔
اسلام عورت کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے پردہ کرنے کی دعو ت دیتا ہے
۔لیکن ہمارے ہاں اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔بعض عورتیں کہتی
ہیں کہ یہ رشتے میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں کم ہے اس سے پردہ نہیں۔
حالانکہ ہر نا محرم سے پردہ لازمی چیز ہے کیونکہ جو اپنے سے عمر میں کم ہو
وہ بھی گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہے ۔
ہمارے ہاں چوہدریوں کے گھروں میں یا لیڈروں کے گھروں میں لوگ یونہی داخل ہو
جاتے ہیں ۔ملازمین اپنے آفیسروں کے گھروں میں بلا جھجک اور بلا روک داخل ہو
جاتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے ۔
معزز قارئین! اس حالت میں صرف نا محرم مردسے گریز ہی بہتر ہے۔بعض لوگوں کا
خیال ہے کہ پردہ آنکھوں کا ہے اگر عورت حیا دار ہے تو خواہ ننگے منہ اور
ننگے سر چلی جائے کوئی حرج نہیں وہ لوگوں کو نہیں دیکھے گی ۔دوستو! اگر وہ
کسی غیر کی طرف نہیں دیکھے گی تو یہ تو اس کے بس میں ہو گا اور کیا وہ
دوسروں کو اپنی طرف دیکھنے سے روک سکتی ہے۔ اس بات کا گناہ کس کے سر ہو گا؟
کہ لوگ اسے دیکھیں اور اپنے دلوں کو میلاکریں ۔صرف پردہ ہی ایک ایسی چیز ہے
جو ہمیں گناہگاری سے روک سکتا ہے۔
اسلام میں پردے کی ابتداء:امام بخاری رحمة اللہ علیہ سورہ احزاب کی تفسیر
میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ
آپ کی خدمت میں نیک و بد سب طرح کے لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔اگر آپ ازواج مطہرات
کو پردہ کرنے کے متعلق فرما دیں تو اچھا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ترجمہ
:”اے ایمان والو! نبی کے گھر وں میں نہ حاضر ہوﺅ جب تک اذن نہ پاﺅ مثلاً
کھانے کے لئے بلائے جاﺅ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاﺅ
تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاﺅنہ یہ کہ بیٹھے رہو باتوں میں دل
بہلا ﺅ ۔ بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی ہے تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے ہیں
اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز
مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو اس میں زیادہ ستھرائی ہے ۔تمہارے دلوں اور
ان کے دلوں کی ۔“(سورة الاحزاب پارہ 22)
حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف
لائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ بتلاتے ہیں کہ میں دس سال کا تھا اور میری
ماں مجھے حضور اکرم ﷺ کی خدمت کرنے کی ہدایت فرما تی رہتی ۔چونکہ میں آپ ﷺ
کی خدمت میں حاضر رہتا تھا س لئے مجھے پردے کی آیت کے شان نزول کا زیادہ
علم ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت زینب بن
جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو لوگوں کو صبح ولیمہ پر مدعو کیا گیا
۔لوگ کھانے سے فارغ ہو کر چلے گئے ۔لیکن کچھ لوگ آپ کے پاس بیٹھے رہے حتیٰ
کہ آپ کو گراں محسوس ہوا ۔چنانچہ آپ وہاں سے اٹھے اور باہر تشریف لے آئے
تاکہ وہ لوگ چلے جائیں اور ٹہلنا شروع کر دیا ۔میں بھی ساتھ تھا ۔پھر آ پ ﷺ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی طر ف گئے اور واپس حضرت زینب
رضی اللہ عنہا کی طرف آئے تو وہ لوگ ابھی تک بیٹھے تھے ۔پھر حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارکہ کی طرف تشریف لائے اور ٹہلتے ٹہلتے پھر
واپس آئے تو وہ لوگ جا چکے تھے ۔
اس وقت حضور نبی کریم ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان ایک پردہ کھینچ لیا تو یہ
آیت حجاب نازل ہوئی ۔(الادب المفرد صفحہ461)
معزز قارئین! پردے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرنا لازمی ہے
اور نہ عمل کرنیوالا اسلام سے دور اور برائیوں کو دعوت دینے والا ہے ۔
خوشبو لگانے کی ممانعت:پردہ صرف کپڑا اوڑھ لینا ہی نہیں ہے کہ ہماری بیٹیاں
اور بہنیں پردے کے نام پر ایک برقعہ سلالیتی ہیں جس سے جسم کے سارے
اعضاءنمایاں ہوتے ہیں اور بازاروں کی طرف چل نکلتی ہیں یہ پردہ نہیں ہے
۔اگر کسی کام سے عورت کو باہر جانا ہی پڑے تو وہ اپنے خاوند کی اجاز ت کے
بغیر گھر سے نہ نکلے گی اور باہر جانے کی صورت میں وہ نہ بناﺅ سنگھار کر
سکتی ہے نہ خوشبو لگا سکتی ہے ۔
عہد رسالت ﷺ میں عورتیں مسجدوں میں جاتی تھیں تاکہ احکامِ دین کو خود حضور
اکرم ﷺ سے سیکھیں ۔لیکن اب عورتیں مسجدوں میں کچھ سیکھنے کے لئے جانے کی
بجائے عید یا جمعہ کے دن اچھے اچھے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر اور پورا
سنگھار کر کے جاتی ہیں جس کا مقصد صرف دکھاوا ہے لیکن اس دکھاوے کی نیکی اس
پر فتن زمانے میں گناہ گاری کی طرف راغب کر سکتی ہے اور نیکیوں کے دھوکہ
میں برائیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔
نیز عورتیں مسجد میں جا کر باتیں کرتی ہیں جس سے شور و غل کا احتمال ہے۔ اس
لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی عادات و خصائل کے پیش نظر
عورتوں کا مسجد میں داخل ہونا نا مناسب بتلایا ہے ۔
نگاہوں کا پردہ:
عموما برائی کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے ۔کیونکہ جب تک کوئی ایک دوسرے کو
دیکھے گا نہیں برائی کا ارتکاب نا ممکن ہے ۔اس لئے سب سے ضروری بات جو
فحاشی کو روکنے کے لئے ممدو معاون ہے وہ کسی کی طرف برے ارادے سے دیکھنا ہے
۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے نگاہوں کو نیچا رکھنے کا حکم دیا ہے تا کہ برائی نہ
پھیل سکے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
”مسلمان مردوں کو حکم دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کریں اس میں ان کے لئے پاکیزگی ہے ۔بیشک اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے
واقف ہے مومن عورتوں کو حکم دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ “(سورة النور پارہ 18)
حضور اکرم ﷺ نے بری نظر سے دیکھنے والے پر لعنت کی ہے چنانچہ فرمایا :”اللہ
تعالیٰ دیکھنے والے پر اور دیکھی جانیوالی چیز پر لعنت کرتا ہے ۔“(رواہ
البیہقی ،مشکوٰة صفحہ270)
یہاں دیکھنے والا سے مراد بری نظر سے دیکھنے والا اور دیکھی جانیوالی چیز
کا مطلب ہے بناﺅ سنگھار کرنیوالی جو کسی کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے ۔
اسلام نے بے حیائی کو روکنے کے لئے جو پابندیاں لگائی ہیں ان میں سے یہ بھی
ہے کہ کوئی کسی کے گھر میں جھاتی نہ لگائے اور نہ دروازے کے سوراخوں میں سے
جھانک کر دیکھے ۔
حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے
دروازے کے سوراخ میں سے جھانکا اس وقت آپ ﷺ سر مبارک پر کنگھی فرما رہے
تھے۔حضور اکرم ﷺ نے اس کی حرکت پر فرمایا اگر مجھ کو معلوم ہوجا تا کہ تم
مجھے اس طرح جھانک رہے ہو تو میں یہ کنگھا ہی تمہاری آنکھ میں مار دیتا اور
فرمایا اجازت کی ضرورت اسی نظر کی وجہ سے ہی تو ہے ۔(الادب المفرد صفحہ468)
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ
سے اندر داخلے کی اجازت چاہی مگر ساتھ ہی جھانکنے لگا آپ نے فرمایا کہ تیری
آنکھ تو داخل ہو رہی ہے اب رہ گئی تیری پشت تو اس کو داخل نہ کر یعنی اسے
اجازت نہ دی ۔(الادب المفرد صفحہ476)
دور جاہلیت میں ایک یہ بے حیائی بھی عام تھی کہ لوگ دوسروں کے گھروں میں
بغیر آواز دیئے گھس جاتے تھے اور غیر محرم عورتوں کو دیکھ لیتے تھے ۔اس بے
حیائی کو روکنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمان بھیجا :” اے ایمان والو ! اپنے
گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاﺅ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے رہائشی
پر سلام کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو“(سورة النور پارہ 18)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آدمی کو چاہئے کہ اپنے والدین بیٹے
یا بہن بھائیوں سے اجازت لیکر گھر میں داخل ہو ۔
حضرت عطار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں اپنی بہن کے پاس بھی اجازت لیکر جاﺅں ۔فرمایا
ہاں۔ میں نے پھر یہی سوال کیا کہ میری دو بہنیں ہیں جو میری زیر کفالت ہیں
کیا میں ان کے پا س بھی اجازت لے کر جاﺅں ؟فرمایا ہاں تم ان کو بے پردہ
دیکھنا پسند کرو گے ۔(الادب المفرد صفحہ466)
یہ تھی ساری گفتگو مجموعی مسائل پر ۔اب عورتوں کے بناﺅ سنگھار کے حوالے سے
اسلامی نقطہ نظر قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔عورت کو اس حد تک زیب و
زینت کی اجازت ہے جو مندرجہ ذیل ہے ۔
مسئلہ :عورتوں کو ہاتھ پاﺅں میںمہندی لگانا جائز ہے کہ یہ زینت کی چیز ہے
۔بے ضرورت ،چھوٹے بچوں کے ہاتھ پاﺅں میں مہندی لگانا نہ چاہئے ۔(عالمگیری)
لڑکیوں کے ہاتھ پاﺅں میں لگا سکتے ہیں جس طرح ان کو زیور پہنا سکتے ہیں۔
مسئلہ :عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا پہننا ۔بناﺅ سنگھار کرنا عظیم ثواب
کا باعث اور ان کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے ۔ایک پار سا بی بی کہ وہ
خود اور ان کے شوہر دونوں صاحب حال و کمال اولیاءکرام سے تھے ۔ہر را ت بعد
نما ز عشاءپور ا سنگھار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں وہیں حاضر
رہتیں ۔اگر انہیں اپنی طرف راغب پاتیں توخدمت بجا لاتیں ورنہ زیور و لباس
اتار کر مصلیٰ بچھا تیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں ۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خاں قادری حنفی محدث
بریلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے معاشرے میں دلہن کو سجانا تو
مسلمانوں میں قدیم رائج اور بہت احادیث سے ثابت ہے ۔بلکہ کنواری لڑکیوں کو
زیور و لباس سے آراستہ رکھنا کہ ان کی منگنیاں آئیں یہ بھی سنت ہے ۔بلکہ
عورت کا قدرت رکھنے کے باوجود بالکل بے زیور رہنا مکروہ ہے کہ یہ مردوں سے
تشبیہ ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عورت کا بے زیور
نماز پڑھنا مکروہ جانتیں اور فرماتیں اور کچھ نہ پائے تو ایک ڈور ا ہی گلے
میں باندھ لے۔ بجنے والا زیور عورت کے لئے اس حالت میں جائز ہے کہ نا
محرموں مثلاً خالہ، ماموں ،چچا ،پھوپھی کے بیٹوں ،جیٹھ ، دیور، بہنوئی کے
سامنے نہ آتی ہو اور نہ اس کے زیور کی جھنکار نا محرم تک پہنچے ۔(فتاویٰ
رضویہ )
مسئلہ : :گھنگرو والے زیورات کا استعمال عورت کے لئے منع ہے ۔حدیث شریف میں
ہے کہ ہر گھنگرو کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور جس گھر میں گھنگرو والے زیور ات
استعمال کئے جاتے ہیں اُس گھر میں فرشتے نہیں آتے ۔(ابو داﺅد شریف)
مسئلہ :ایسے چست کپڑے جن سے جسم کا نقشہ کھینچ جاتا ہو مثلاً چست پا جامہ
میں پنڈلی اور ران کی پوری ہیئت نظر آتی ہے اور اس پر کوئی اور ڈھیلا کپڑا
شلوار وغیرہ نہ ہو تو عورتیں ایسے موقعوں پر استعمال نہ کریں کہ غیروں کی
نظریں ان پر پڑیں ۔اسی طرح بعض عورتیں بہت باریک کپڑے پہنتی ہیں۔ اس قسم کے
کپڑے پہننا بھی ناجائز ہیں اور مردوں کو اس حالت میں ان کی طرف نظر کرنا
بھی حرام ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ :عورت کو سر کے بال کٹوانے جیسا کہ اس زمانہ میں نصرانی عورتیں
کٹواتی ہیں ناجائز و گناہ ہے اور اس پر لعنت آئی ہے ۔شوہر نے ایسا کرنے کو
کہا جب بھی یہی حکم ہے کہ عورت ایسا کرنے میں گناہ گار ہو گی کیونکہ شریعت
کی نا فرمانی کرنے میں کسی کا کہنا نہیں مانا جائے گا۔(در مختار)
آہستہ آہستہ یہ مرضِ مغربی تہذیب کے دلدادہ گھرانوں میں پھیلتی جا رہی ہے
اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو عورت مردانہ ہئیت میں ہو اس پر اللہ کی
لعنت ہے ۔تو یہ بال کٹواتی ہیں اور اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہیں ۔
مسئلہ :سیاہ سرمہ یا کاجل آنکھوں میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ہاں
مرد بقصد زینت نہ لگائیں ۔(عالمگیری)
بناﺅ سنگھار کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے ہے ۔خود مطالعہ کر
کے فیصلہ کریں کہ آج کی عورت کس طرح شریعت کے احکامات کو پس پشت ڈال کر زیب
و زینت کی شوقین بن کر معاشرہ میں تباہی پھیلا نے کے درپے ہے ۔
آج اگر عورت اپنے بناﺅ سنگھار کو اپنے گھر بالخصوص اپنے خاوند تک محدود کر
لے تو معاشرتی برائیوں میں خاطر خواہ کمی واقعہ ہو سکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ
ہمیں راہ ہدایت نصیب فرمائے ۔آمین! |