حضرت علی ؓکا قول ہے” جو لوگ تم
سے زیادہ علم رکھتے ہیں اِن سے علم حاصل کرواور جو کم علم ہیں اُن کو اپنا
علم سِکھاؤ“اور آپ ؓ ہی کاایک قول یہ بھی ہے کہ”جس نے علم حاصل نہیں کیاوہ
یتیم ہے“یعنی یہ کہ انسانیت کی تکمیل علم حاصل کرنے ہی سے ممکن ہے توپھرکیا
آپ بھی ہماری اِس بات سے متفق نہیں ہوں گے کہ آج دنیاکے سامنے ہم (پاکستانی
)جس معیار پر بھی کھڑے ہیں تھوڑی بہت تعلیم کی وجہ سے ہیں اور ہمیں اِس بات
کا بھی یقین ہے کہ ہم کل جس(اچھے/بُرے یااُونچے/نیچے) مقام پرہوں گے وہ بھی
تعلیم کی ہی وجہ سے ہوں گے۔
جبکہ حکیم محمدسعید نے فرمایا ہے کہ” علم ایک ایساسمندر ہے جس میں چھلانگ
لگانے کے بعد ہی اِس کی وسعت وعظمت کااندازہ ہوسکتاہے“اور اِسی کے ساتھ یہ
بھی حقیقت ہے کہ علم ایک بہترین اچھائی ہے جو قوموں کو ترقی سے ہمکنار کرتی
اور دوسری طرف جہالت وہ بدترین برائی ہے جس پر قائم رہ کر قومیں ذلت کی
کھائی میں گرجاتی ہیں اور بھوک و افلاس،تنگدستی اور مایوسی اِن کا مقدر بن
جاتیں ہیں علم ایک ایساپھول ہے جو جتنازیادہ کِھلتاہے اتنی ہی زیادہ
خوشبودیتاہے اور جن اقوام کے پاس جتنا زیادہ علم ہوگا اِن پر قسمت کی دیوی
بھی اتنی ہی زیادہ مہربان رہی گی اور وقت بھی اِن کی گرفت میں رہے گا اور
وہ بھی اِن اقوام کی مرضی کے مطابق آگے ، پیچھے اور تیز اور سست رفتار کے
ساتھ حرکت کرے گاتوپھر کیوں نہ قوم کے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت
کے خاطر ہمارے حکمران اپنا کوئی ایسادیرپا اور پائیدار لائحہ عمل مرتب کریں
جس سے ہماری قوم کا مستقبل تابناک ہوجائے اور ہم چاردانگِ عالم میں ایک
تعلیم اور تہذیب یافتہ قوم کے روپ میں نمودار ہوکر اپنے آج کے حال کو ایک
خواب سمجھ کر بھول جائیں اور دنیاکو بتادیں کہ ہم وہی قوم ہیں جِسے دنیا
کسی زمانے میں کس نام سے یادکیا کرتی اور جانتی تھی ۔
اگرچہ ایک زمانے میں چرچل نے تویہ تک کہہ دیاتھا جس کا یہی قول آج بھی دنیا
کے کسی بھی پست ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ثابت ہوتاہے اِس کا کہناہے
کہ بچوں اور نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت سب سے اچھی سرمایہ کاری ہے“
اِسی طرح ابن باویس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب کرکے کہاتھا”اے میری
قوم کے لوگو! یہی نوجوان تمہاری پونچی ہیں اور بلندیوںکو چھونے والے یہی
ہیں اِن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حاکم الوقت پر اپنی اولادوں سے بھی
زیادہ عائد ہوتی ہے کیوں کہ کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اِس
کے تعلیم یافتہ لوگوں سے ہی ممکن ہوسکتی ہے مگر ضروری ہے کہ حکمرانِ وقت
اپنی قوم کے بچوں کو اپنی اولادوں سے بڑھ کرتعلیم وتربیت کی فکر کرے تواِس
میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم میں کوئی قوم اوج ثریاکو نہ پہنچ سکے اِسی
لئے توہم بھی یہ کہیں گے کہ آج ہماری اِس بات سے شایدکوئی ذی شعور انکار نہ
کرسکے اور وہ یہ صدق دل سے تسلیم بھی کرے کہ ہرزمانے میں یہ بات مصمم حقیقت
رہی ہے کہ”درست اور موزوں تربیت یافتہ افرادخوش حال گھرانوں کو جنم دیتے
ہیں اور خوش حال گھرانے ہی لازمی طور پر خوش حال اور ترقی یافتہ قوم
پیداکرنے میں اپناکلیدی کردار اداکرتے ہیں۔
آج کی اِس 21ویں صدی میں بھی دنیا کے بہت سے ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے
اپنے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں تعلیم پراچھی خاصی توجہ مرکوز
کررکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن ممالک کے حکمران اپنے سالانہ بجٹ میں
تعلیم کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے اِس میں کئی گنا اضافہ
کررہے ہیں کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے اور جانتے ہیں کہ اگر دیگر
شعبوں میں ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی اور قوم
کو تعلیم سے آراستہ کئے بغیر دوسرے شعبوں میںکامیابی مشکل بلکہ ناممکن بھی
ہوگی ۔
ہمیں اُوپری سطور میں علم اور تعلیم وتربیت سے متعلق اتنی ساری خوبیاں کرنے
کا ایک مقصد یہ ہے کہ آج جب ہم اپنی 64سالہ تاریخ کا ماضی کھنگالنے کی کوشش
کررہے ہیں تو ہمیں سال بہ سال اپنا معیاری تعلیم تیزی سے زوال کی جانب
جاتاہواہی دکھائی دے رہاہے اور ہم کفِ افسوس کے اور کچھ نہ کرپارہے ہیں اور
آج جب ہم نے اِس حوالے سے اپنا موازنہ اپنے پڑوسی ملک بھارت سے کیا تو ہمیں
اپنا وجود زمین میں دھنستاہواہی محسوس ہوااور ہم خود کو ایک جاہل قوم کا
فرد تصور کئے بغیر نہ رہ سکے اور دوسری جانب جب ہم نے اُمتِ مسلمہ کے (ماضی
سے ہٹ کر)آج کے معیارے تعلیم کا موزانہ یورپی ممالک سے کیاتو ہمیں اِس بات
کا شدت سے احساس ہواکہ ایک ہم پاکستانی ہی نہیں بلکہ ساری مسلم اُمہ ہی
تعلیم کے میدان میں یورپی اور دیگر ادیان کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
اِس حوالے سے ایک خبر نے ہمارے اوسان اور زیادہ خطاکردیئے کہ”برطانیہ اور
امریکا کی دانشگاہیں دنیاکی 10بہترین جامعات قرار پائیں ہیں جبکہ افسوس کا
مقام تو یہ ہے کہ اِن میں کوئی بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے“ خبرکچھ اِس طرح
ہے کہ”شہرہ آفاق یونیورسٹی کیمبرج امریکامیں تحقیق و دانش کے عالمی
مرکزہارورڈکے مقابل عشاریہ کی حفیف فرق کے ساتھ 2011کی درجہ بندی میں دنیا
کی پہلی معیاری یونیورسٹی قرارپائی ہے جبکہ ہارورڈکے بعد امریکاکی ہی یل
یونیورسٹی تیسرے، برطانوی یونیورسٹی کالج آف لندن چوتھے اور میسا چوسٹ
انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) بہترین عالم یونیورسٹیوں کی درجہ
بندی میں پانچویں نمبر پر ہے، آکسفورڈچھٹے، امپریل کالج آف لندن ساتویں،
یورنیوسٹی آف شگاگو آٹھویں، کیلیفورنیاانسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نویں اور
امریکا کی ہیپرنسٹن یورنیوسٹی دنیا کی دسویں یونیورسٹی ہے۔
مگریہاں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ جس دین اسلام کی بنیادہی تعلیم
پر ہے اِس دین سے تعلق رکھنے والے مسلم ممالک کی کوئی بھی یونیورسٹی اِن دس
نمبروں میں شامل نہیں تھی حالانکہ اسلامی ممالک میں کُل 580یونیورسٹیاں ہیں
مگر کوئی بھی اِس قابل نہیں کہ وہ دس نمبروں میں سے کسی بھی پوزیشن پر آتی
اور اِس سے زیادہ حیران کُن بات تو یہ ہے کہ دنیاکے سارے اسلامی ممالک
کی580یونیورسٹیاں ایک طرف مگر بھارت جیسے پونے دو ارب کے لگ بھگ آبادی والے
دنیاکے غریب ملک میں ہی583یونیورسٹیاں مستحکم انداز سے اپنے نوجوانوں کو
تعلیم کی روشنی سے مستفیدکررہی ہیں۔
جبکہ ایشائی ممالک میں بھارت، جنوبی کوریا اور چین ایسے ممالک ہیںجو اپنے
یونیوسٹیوں کے طالب علموں پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کا
درجہ حاصل کرچکے ہیں اِسی طرح سروے کے مطابق دنیا کی 400بہترین یونیورسٹیوں
میں بھی کوئی پاکستانی جامعہ شامل نہیں ہے صرف سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی
ضرورشامل ہے اور اِس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جبکہ اطلاع یہ ہے کہ ایک امریکی جریدے ” یوایس نیوزاینڈ ورلڈرپورٹ“ نے یہ
درجہ بندی تعلیم اور کیریئر پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے”کوئیک
کیورلی سیمونٹنگ“سے کرائی ہے جس سے متعلق یہ خیال کیا جارہاہے کہ اِس سروے
رپورٹ میں دنیاکی یونیورسٹیوں کی علمی ساکھ، عملے کی ساکھ،فیکلٹی، طلباءکا
تناسب، انٹرنیشنل فیکلٹی،غیرملکی اسٹوڈنٹس اور فی استاد سائٹیشن (حوالے)کی
تعدادکو درجہ بندی کرنے والے انڈیکیٹربنایاگیاہے ۔
اِدھر اِس سارے منظر اور پس منظر میں یہ ہم جیسے دنیا کے ایٹمی ملک پاکستان
کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور 19کروڑ عوام کے لئے انتہائی افسوس کا مقام ہے
کہ اسلامی ممالک کی 580 بشمول پاکستان کی 128یونیورسٹیوں کے مقابلے میں صرف
بھارت کی ہی 583یونیورسٹیاں ہیں جو اپنے یہاں نوجوانوں کو جدید علوم و فن
سے روشناس کرانے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں اور ایک اسلامی ممالک ہی جو سب
مل کر بھی بھارت جتنی یونیورسٹیاں نہیں بناسکے ہیں اور سروے کی مطابق دنیا
کی 400بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے جبکہ
اِن میں بھارت کی 2اورسعودی عرب کی ایک یونیورسٹی دنیاکی بہترین
یونیورسٹیوں میں ضرور شامل ہیں اور دوسری طرف صرف امریکامیں 5ہزار
758یونیورسٹیاں ہیں ہاں البتہ! یہ بات ہم مسلم امہ کے لئے ضرور حوصلہ
افزارہی کہ اِس سروے میں اِس بات کو کھلے دل اور دماغ سے ضرور تسلیم
کرلیاگیاہے دنیاکی 10قدیم یونیورسٹیوں کے حوالے سے مصر کی جامعہ الازہر وہ
قدیم ترین مستند یونیورسٹی کا درجہ قرار پائی ہے جو 969ہجری میں قائم ہوئی
تھی جس کے سوت سے آج بھی اُمتِ مسلمہ سیراب ہورہی ہے مگر اِس کے باوجود بھی
ہمیں یہ ضرور سوچناچاہئے کہ اُمتِ محمدیﷺ کی ترقی اور خوشحالی کاانحصار صرف
ایک مصر کی جامعہ الازہر سے وابستہ نہیں کرلیناچاہئے بلکہ دنیاکے جدید علوم
کے حصول کے خاطر یورپی طرز کی زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیاں اپنے یہاں بنائیں
جائیں تاکہ ہم بھی جدید علوم و فن سے یورپ کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے وسائل
کو اپنے حساب سے خرچ کریں نہ کہ اِنہیں استعمال کرنے کے لئے یورپ سے ماہرین
بلوائیں اور خود کو اِن کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اپنی ترقی اور خوشحالی کی
راہیں خود ہی بند کراتے رہیں اور اِس کے ساتھ ہی ہم آخر میں یہ بات کہہ کر
اجازت چاہیں گے کہ کیا ہم واقعی علم کے لئے اپنے بجٹ میں زیادہ رقوم مختص
نہ کرکے قوم کو علم کے بغیر یتیم بناناچاہتے ہیں ....؟؟یا تعلیم کے شعبے کو
ترقی دینے کے لئے اپنے کُل بجٹ کا آدھاحصہ مختص کرکے ترقی کرناچاہتے ہیں
...؟؟یہ ہے ہمارااپنے حکمرانوں اورسیاستدانوں سے سوال اور سوالیہ
نشان....؟؟؟؟ |