خبر پریشان کن بھی ہے اور باعث
ندامت بھی۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی بہترین 400جامعات
میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں، اس وقت امریکہ میں 5ہزار
758یونیورسٹیاں ہیں، 56کے لگ بھگ اسلامی ممالک میں کل 580جبکہ بھارت میں
یونیورسٹیوں کی تعداد مجموعی طور پر اسلامی ممالک سے زائد یعنی 583ہے۔
پاکستان میں 128جامعات تعلیمی میدان میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ دنیا کی
400بہترین جامعات میں اسلامی ممالک میں سے سعودی عرب کی صرف ایک یونیورسٹی
شامل ہے، امریکہ کی 6جبکہ بھارت کی 2یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل ہوسکی
ہیں۔ امریکی جریدے ”یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ“ نے یہ درجہ بندی تعلیم
اورکیریئر پر تحقیق کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے سے کروائی ہے، جس میں
دنیا میں یونیورسٹیوں کی علمی ساکھ، عملے کی ساکھ، فیکلٹی اور طلبا کا
تناسب انٹرنیشنل فیکلٹی اور دیگر معاملات کو میرٹ بنایا گیا ہے۔
مذہبی تعلیمات ،تاریخ دانوں ،روایات اور دانشوروں کی رائے یہی ہے کہ کسی
قوم کی ترقی ، خوشحالی اور عروج کے لئے اللہ تعالیٰ کے کچھ اصول ہیں، جو
اقوام یا افراد ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ کامرانی کی منازل کو
ضرور پاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اصولوں پر اگر غیر مسلم عمل کریں گے تو
کامیاب قرار پائیں گے اور اگر مسلمان ان اصولوں کو نظر انداز کردیں گے تو
وہ بھی نظرانداز کردیئے جائیں گے، ہم لوگ اس اصول کا عملی مظاہرہ دیکھ بھی
رہے ہیں، سبق حاصل کرنے کی توفیق پھر بھی نہیں ہوتی۔ بد قسمتی سے مسلمان
ممالک کے حکمرانوں کی ترجیح علم کی بجائے مال ہے، دنیاوی عیاشیاں ، محلات
اور اسی قسم کے دیگر معاملات ہی ان کے معمولات ہیں، وہ یونیورسٹی کی بجائے
ایک پرتعیش محل کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسلم امت کا حال سامنے ہے۔ ایشیا کی
یونیورسٹیوں میں چین ، جنوبی کوریا اور بھارت اپنی یونیورسٹیوں میں ملکی
اور غیرملکی طلبا پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے بالترتیب تین ممالک
ہیں۔
جب قدیم ترین یونیورسٹیوں کی تحقیق ہوتی ہے تو مصر کی جامعہ الازہر دنیا کی
مستند قدیم ترین یونیورسٹی ہے، جو 10ویں صدی میں قائم ہوئی، اس کے بعد
11ویں صدی میں بغداد کی آل نظامیہ یونیورسٹی قائم ہوئی، اس کے بعد مسلمانوں
کے علمی چراغ گل ہوگئے، دنیا کو جہالت کی تاریکیوں سے علم کے نور سے منور
کرنے والے خود تاریکیوں میں بھٹکنے لگے، زوال کی یہ داستاں تب سے شروع ہے
اور اب تک جاری ہے۔ اس دوران یورپی ممالک نے تعلیمی ادارے قائم کئے جو علم
کے مینارے بن گئے ، جو دنیا بھر کے لئے دانش گاہوں کا درجہ رکھتی ہیں اور
مسلمان حکمرانوں نے محلات اور قلعے بنائے جو اب عبرت گاہیں ہیں۔ ستم تو یہ
ہے کہ مسلمان حکمران ابھی تک اپنی اسی ڈگر پر چلے جارہے ہیں، عرب ممالک میں
آنے والے انقلابات سے بھی بادشاہوں کے انجام سے کوئی سبق سیکھنے کے لئے
تیار نہیں۔
اب جبکہ پوری دنیا کو ایک مواصلاتی گاؤں کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، مسلمان
حکمران دو قدم آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، ان کی نظر اپنی ذات سے
پرے جاتی ہی نہیں، تعلیم کو پہلی ترجیح قرار دینے والے کسی حکمران نے تعلیم
کو عملی طور پر اپنی پہلی ترجیح کبھی نہیں بنایا۔ اپنی وزارتوں ، ممبران
اسمبلی، بیوروکریسی ، پروٹوکول اور دیگر عیاشیوں سے انہیں فرصت نہیں، تعلیم
کے لئے شرمناک حد تک کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی
بھی اس مختص شدہ رقم کی طرح شرمنا ک حد تک ہی محدود ہے۔ مسلمان حکمران یہ
نہیں سوچتے کہ علم اسلام اور ہمارے اسلاف کی میراث ہے، سائنس کی بنیاد میں
ہمارے آبا کا خون پسینہ رچا بسا ہے، انہی نے اس کی آبیاری کی ، مگر یہ
میراث؟؟تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر
فردا ہو۔ اپنے اسلاف کی کتابیں یورپ کی لائبریوں میں دیکھ کر دل کو سی پارا
کرنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ کسی بھی مسلمان ملک کو ان کتابوں سے کوئی دلچسپی
ہی نہیں۔ |