مفتی محمد جمیل خان شہید ہمارے دور کے ان
علماء میں سے تھے جنہوں نے تمام عمر دین متین کی خدمت کے لیے وقف رکھی حتٰی
کہ اسی راہ میں اپنی جان عزیز بھی قربان کرکے شہداء کے حسین جھرمٹ میں جا
شامل ہوئے ۔ مفتی جمیل شہید کے نام سے صرف پاکستان والے ہی نہیں بلکہ آپ
کی شہرت بیرون ممالک تک پہنچی ہوئی تھی ۔ آپ نے دین کے مختلف شعبوں میں
مثالی ۔ قابل تقلید اور حیرت انگیز خدمات سرانجام دی ہیں خاص طور پر تحفظ
ختم نبوت ، تردید مرزائیت کے لیے آپ کی خدمات سب سے نمایاں ہیں علاوہ ازیں
عصری و دینی تعلیم کے حسین امتزاج کے حامل تعلیمی ادارے بنام اقرا تو آپ
کا ایسا کارنامہ ہے جس میں آپ کو گوئے سبقت حاصل ہے ۔ آپ کی ڈھیروں
خوبیوں میں سے چند خوبیاں جو آپ کے ایک عظیم شاگرد نے محسوس کی اور پھر
انہیں آپ کی شہادت کے بعد قلم بند کیا وہ بہت حیرت انگیز اور موجودہ تمام
معلمین و مدرسین کیلیے قابل تقلید ہیں۔اور اسی لیے یہ چند سطور پیش کی جا
رہی ہیں۔ جو آپ کے عظیم شاگر حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالی
کے قلم سے تحریر ہوئی ہیں ۔ مولانا رقم طراز ہیں:
حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید(رح) کچھ عرصہ تک. ملک کے نامور اور
معروف دینی ادارے. جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری(رح) ٹاؤن میں. مدرس
بھی رہے. وہ اسی جامعہ کے فاضل تھے اور تادم شہادت اس کے خادم رہے. حسن
اتفاق کہ . بندہ نے جب جامعہ کے پہلے درجے . ’’درجہ اعدادیہ‘‘ میں داخلہ
لیا تو ان ایام میں آپ وہاں استاذ تھے. اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہ عجیب صفت عطا
فرمائی تھی کہ . جس ذمہ داری کو سنبھالتے تھے اسے اپنا مشن بنا لیتے تھے.
اور پھر اپنی جان، مال، وقت اور محنت الغرض سب کچھ اس پر کھپاتے تھے. دین
کا کام. اگر اخلاص، محنت اور دل کی رغبت کے ساتھ کیا جائے تو اسی عمل کو.
’’احسان‘‘. کہتے ہیں. اور اﷲ تعالیٰ نے محسنین سے اپنی محبت کا قرآن پاک
میں واضح اعلان فرمایا ہے. واﷲ یحب المحسنین. آج کل ہمارے ہاں یہ مرض عام
ہے کہ . ہر شخص اپنی ذمہ داری کو . سر کا بوجھ سمجھ کر نبھاتا ہے. اور
سرکاری ملازمین کی طرح بے دلی، بے توجہی اور بغیر محنت اپنا کام ’’جیسے
تیسے‘‘ پورا کرتا ہے. ہماری ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ. ہماری یہ بری عادت
بھی ہے. کچھ عرصہ پہلے. ایک اﷲ والے بزرگ کے ہاں حاضری ہوئی. بہت مصروف اور
بہت کم گو. بندہ نے نصیحت کی گذارش کی تو انہوں نے. یہ جملہ لکھ کر دے دیا.
کامیابی کیلئے اخلاص. اور مسلسل محنت ضروری ہے. اس زمانے میں. جبکہ غالباً
1980ئ کا سال تھا. درجہ اعدادیہ میں اردو، فارسی . اور حساب کی تعلیم ہوتی
تھی. دینی مضامین میں سیرت الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور تعلیم الاسلام
پڑھائی جاتی تھی. استاذ محترم کے ذمہ معاشرتی علوم کا سبق تھا. ساتویں
جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب. مگر قارئین حیران ہوں گے کہ انہوں نے. دن
رات ایک کرکے. درجہ اعدادیہ کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل ودماغ میں. دین اور
دینداروں کی ایسی محبت بٹھادی . جو.سالہال سال کی محنت سے بھی پیدا نہیں
ہوتی . وہ اگر چاہتے تو . ایک گھنٹے کے پیریڈ کو آسانی سے نمٹا دیتے. اردو
زبان کی اس کتاب کے روزانہ دوچار ورق پڑھادیتے. اور یوں سال گزر جاتا. مگر
انہوں نے . اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے دینی خدمات کے اس موقع کا بھرپور
فائدہ اٹھایا. اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا انبار اکٹھا کرلیا. اور ایک بڑی
کھیتی کے لئے بیج بودیا. کاش ہر شخص اسی جذبے اور محنت سے دین کی خدمت کرے
تو قحط الرجال کا شکوہ چند سالوں میں ختم ہوجائے. حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے دین کے طالبعلموں کے ساتھ جس سلوک اور روئیے کا حکم دیا ہے . اس کی
ایک جھلک دیکھنی ہوتو صحیح بخاری کی کتاب العلم پڑھ لیجئے. مگر ہمارا عمل
اس بارے میں اصلاح کا محتاج ہے. اور ہم دین کے طلبہ پر وہ محنت نہیں کرتے
جو ان کا حق ہے علمی طور پر حضرت مولانا مفتی جمیل خان شہید(رح) کسی اونچے
یا مثالی مقام پر فائز شمار نہیں کیے جاتے تھے. ان کا شمار نامور علمی
شخصیات میں سے بھی نہیں ہوتا تھا مگر. ان کی تدریس کی ایک جھلک سب علمائ
کرام کیلئے. ایک مفید، مثمر. بلکہ لازمی دعوت عمل ہے. بندہ نے ان کے طریقہ
تدریس پر. کچھ عرصہ قبل یہ چند الفاظ لکھے تھے.
آپ ہمیں اردو اور معاشرتی علوم پڑھاتے تھے مگر قارئین کرام حیران ہوں گے کہ
انہوں نے صرف ایک سال کے مختصر سے عرصے میں اپنے کم سن طلبہ کے ذہن میں
کتنے عظیم دینی کاموں کے بیج بودئیے ﴿۱﴾آپ نے طلبائ کو کئی مسنون دعائیں
اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختصر چالیس احادیث زبانی یاد کرادیں۔ یہ
بہت عجیب اور خوشگوار بات تھی کہ درجہ اعدادیہ کے بچے عربی زبان میں چالیس
حدیثیں فر فر سناتے پھرتے تھے ﴿۲﴾آپ طلبہ کو نوافل کی طرف رغبت دلاتے تھے
اور اپنی موجودگی میں صلوٰۃ التسبیح پڑھاتے تھے اور اس دوران ان کے رکوع،
سجود اور قیام کو مسنون طریقے پر درست کراتے رہتے ﴿۳﴾آپ طلبہ کو مضمون
نویسی کی طرف راغب کرتے تھے اور اپنی نگرانی میں ان سے مضامین لکھواتے تھے
اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کسی موضوع پر دلنشین انداز میں مختصر مگر جامع
مضمون طلبہ کے سامنے بیان فرمادیتے اور پھر اس مضمون کو اپنے الفاظ میں
لکھنے کا حکم دیتے. پھر آخر میں ان تمام مضامین کی خود تصحیح فرماتے. دوسرا
طریقہ یہ تھا کہ آپ طلبہ کو جامعہ کے مختلف شعبوں میں خود لے جاتے اور طلبہ
سے کہتے کہ متعلقہ شعبے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور جو کچھ پوچھنا چاہیں شعبے
کے مسئول سے پوچھ لیں اور بعد میں اپنے ان مشاہدات اور تاثرات کو قلمبند
کرلیں. تیسرا طریقہ یہ تھا کہ آپ عصر حاضر کے بعض اکابر کی وفات پر ان کی
سوانح حیات بیان فرماتے اور پھر طلبہ کو اس پر مضمون لکھنے کی دعوت دیتے.
طلبہ کا قلم سے رشتہ مضبوط کرنے کیلئے آپ ان کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے
تھے جو بعض اوقات انعامات کی صورت میں ہوتی تھی اور بعض اوقات مضمون کی
اشاعت کی صورت میں. چنانچہ آپ نے بندہ کا ایک مضمون جنگ اخبار کے رنگین
صفحے پر شائع کروایا. اس وقت بندہ کی عمر بارہ سال تھی. اس سے آپ استاذ
محترم کے انداز تربیت کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں. بارہ سال کے بچے کا
مضمون استاذ کی اصلاح، تصحیح اور تعاون کے بغیر کس طرح ایک قومی روزنامے
میں شائع ہوسکتا ہے. ﴿۴﴾ آپ دوران سبق طلبہ کی اخلاقی تربیت فرماتے تھے اور
انہیں اس بات سے منع فرماتے کہ وہ ایک دوسرے کو ’’تو‘‘ کہہ کر پکاریں. اس
کے ساتھ آپ ان میں نیکیوں کی طرف رغبت اور گناہوں سے نفرت کا جذبہ بھی پیدا
کرنے کی کوشش کرتے تھے. ﴿۵﴾ آپ طلبہ کے سامنے اہل حق کے اسلاف واکابر کا
ایسا دلنشین تعارف پیش کرتے جو ان کے نرم دلوں میں اسلاف سے محبت کا بیج
بودیتا تھا‘‘.
استاذ محترم نے ہمیں ایک سال پڑھایا. اور پھر ان کی تدریسی صلاحیتوں کا رخ.
اقرائ روضۃ الاطفال کے تاریخ ساز کار نامے کی طرف . ہوگیا. ہم لوگ زندگی کے
ہر مرحلے میں . ان کے ایک سالہ تدریسی انوارات کی لذت محسوس کرتے رہے.
انہوں نے جامعہ میں تدریس چھوڑ دی. اور کراچی کے سیکولر ماحول پر. قرآنی
انقلاب کا ایسا تریاق چھڑکا کہ. پوری فضائ ہی بدل گئی. اس ادارے کی مقبولیت
کا یہ عالم تھا کہ. داخلہ کی ویٹنگ لسٹ میں کئی کئی سونام ہوتے تھے. اور
کئی لوگ بچے کے پیدا ہونے سے کچھ پہلے ہی اس کا نام لکھوا جاتے تاکہ. وقت
پر اس کے داخلے کا نمبر آجائے. یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا. میں نے اسے ’’انقلاب‘‘
کا نام دیا ہے. کیونکہ اس زمانے میں. کراچی کا مالدار طبقہ. اپنے بچوں کو
مدارس کی طرف بہت کم بھیجتا تھا. جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن جیسے
شہرہ آفاق ادارے میں. کراچی شہر کے صرف چند طالبعلم ہوا کرتے تھے. مگر پھر
وہ دور آیا کہ لوگ اپنی گاڑیوں پر . اقرائ روضۃ الاطفال کی شاخوں کا چکر
کاٹتے تھے . اور داخلے کے لئے سفارشیں کرواتے پھرتے تھے. اس خاموش اور
بھرپور انقلاب نے . کراچی کی فضا ایسی بدلی کہ اب . وہاں کے دینی مدارس میں
کراچی شہر کے طلبہ کی تعداد . ہزاروں تک جا پہنچی ہے. حضرت استاذ محترم .
اس پاکیزہ . قرآنی انقلاب کے بانی تھے. اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت ہے.
غالباً بنوری ٹائون کی تدریس چھڑوانے میں بھی . بہت بڑی حکمت تھی. اللہ
تعالیٰ آخرت کی بہت اونچی عزت اس شخص کا مقدر بنائے جو اپنی زندگی میں. دین
، قرآن ، مدرسہ ، علمائ . اور جہاد کی عزت کا ذریعہ بنا رہا. آمین یا رب
الشہداء و المجاہدین . یا ارحم الراحمین۔ |