جن و انس ،شجر و ہجر ،حیوانات و نباتات
الغرض دنیا کی ہر چیز کا خالق و مالک اللہ عزوجل کی ذات یکتا ہے ۔جس نے
تمام پر انسان کو فوقیت دی ۔اسے اک نظام دیا ،قانون دیا ،ضابطہ دیا جس میں
زندگی کا ہر گوشہ ہر الجھن کا حل،ہر ضرورت کا پاس،وقتی و عارضی ناصرف یہ
بلکہ دیرپا رہبری و رہنمائی فرمائی ۔اسی میں ایک گوشہ انسانی صحت ،انسان کو
لاحق امراض سے خلاصی ،تندرست و توانا رہنے کے ذریں اصول سبھی کچھ بیان ہے ۔ہاں
مگر جس نے من جد وجدوالی بات ہے کہ جس نے کوشش کی اس نے پالیا۔ایسی ہی
براہین و دلائل اور سیرت و تاریخ کے جھروکوں سے گزرتے ہوئے طب نبوی و طب
یونانی کا معرکہ آراء ارتقائی سفر اور بہت کچھ ۔
ابن البیطار
ان کا نام محمد ضیاء الدین عبد اللہ بن احمد بن البیطار المالقی الاندلسی
ہے، وہ طبیب اور پودوں یعنی نباتاتی عالم تھے، عرب کے ہاں وہ علمِ نبات (پودوں
کا علم) کے سب سے مشہور عالم سمجھے جاتے ہیں، وہ چھٹی صدی ہجری کے اواخر
میں پیدا ہوئے، اندلس کے مشہور نباتاتی عالم ابی العباس کے شاگرد تھے جو کہ
اشبیلیہ کے علاقے میں پودوں پر تجربات کیا کرتے تھے.
اپنی جوانی کے ابتدائی زمانے میں ہی وہ ملکِ مغرب کی طرف نکل پڑے اور مراکش،
جزائر اور تونس کا سارا علاقہ پودوں کی تلاش اور تجربات میں چھان مارا..!!
کہا جاتا ہے کہ اس جستجو میں اور علمائے نبات سے سیکھنے کے لیے وہ اغریق
اور ملکِ روم کے آخر تک گئے..!! اور کارِ آخر مصر آن پہنچے جہاں ایوبی شاہ
الکامل نے ان کا اکرام کیا، ابن ابی اصیبعہ لکھتے ہیں کہ الکامل نے انہیں
مصر میں تمام علمائے نبات کا سربراہ مقرر کردیا تھا اور انہیں پر اعتماد
کیا کرتے تھے، الکامل کے بعد وہ ان کے بیٹے شاہ الصالح نجم الدین کی خدمت
میں دمشق آگئے، دمشق میں ابن البیطار پودوں کی تلاش اور تجربات کے سلسلے
میں شام اور اناضول کے علاقوں کے مسلسل چکر لگایا کرتے تھے، اس عرصہ میں
“طبقات الاطباء” کے مصنف ابن ابی اصیبعہ ان سے جاملے اور پودوں پر ان کی
علمیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے چنانچہ انہی کی معیت میں دسقوریدس کی
دواؤں کی تفاسیر پڑھی، ابن ابی اصیبعہ لکھتے ہیں: “میں ان کی علمی زرخیزی
سے بہت کچھ لیتا اور سیکھتا تھا، وہ جس دوا کا بھی ذکر کیا کرتے ساتھ ہی یہ
بھی بتاتے کہ دسقوریدس اور جالینوس کی کتب میں وہ کہاں درج ہے اور اس مقالے
میں مذکور ادویات میں وہ کون سے عدد پر ہے..!!”
ان کی اہم تصنیفات میں کتاب الجامع لمفردات الادویہ والاغذیہ ہے، یہ کتاب
مفردات ابن البیطارکے نام سے مشہور ہے، ابن ابی اصیبعہ اس کتاب کو کتاب
الجامع فی الادویہ المفردہ کا نام دیتے ہیں.. اس کتاب میں طبعی عناصر سے
نکالے گئے آسان علاجات ہیں، اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا، ان کی
کتاب المغنی فی الادویہ المفردہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس میں
جسم کے ایک ایک حصہ کی تکالیف بمع علاجات بتائے گئے ہیں، ان کی دیگر اہم
تصانیف میں کتاب الافعال الغریبہ والخواص العجیبہ اور الابانہ والاعلام علی
ما فی المنہاج من الخلل والاوہام قابلِ ذکر ہیں..
ابن البیطار کی صفات میں جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ
انتہائی صاحبِ اخلاق شخص تھے اور زرخیز علم رکھتے تھے، انہوں نے حیرت انگیز
یاداشت پائی تھی جس سے انہیں پودوں اور دواؤں کی درجہ بندی کرنے میں بہت
آسانی ہوئی، انہوں نے طویل تجربات کے بعد مختلف پودوں سے مختلف ادویات
بنائیں اور اس ضمن میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.. ان کے بارے میں میکس
مائرہاف کہتے ہیں: وہ عرب علمائے نبات کے سب سے عظیم سائنسدان تھے. (اردو
انسائيکلو پيڈيا ج 1 ص 178) |