موجودہ وقت میں ہم جس خطہ میں
زندگیاں بسر کر رہے ہیں اس کے باسیوں کا ایک اپنا الگ ہی انداز ہے ،رہن سہن
رسم و رواج اور دیگر خصلتیں دیگر خطوں کی بنسبت بلکل مختلف سی ہیں گو کہ
پوری دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والے لوگ اپنی الگ الگ شناخت رکھتے ہیں اور
سب کی ترجیحات ہی دیگر سے مختلف ہوتی ہیں ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا
جا سکتا کہ ہمارے خطہ کے لوگ صدیوں پرانی اپنی روایات کو برقرار رکھے ہوئے
ہیں گو اس بات کی تائید و تصدیق کرنا فل وقت ممکن نہیں کہ ہماری روایات و
اقدار موجودہ و قت میں اپنائے رکھنا کس حد تک دانش مندی ہے ،لیکن میں ذاتی
طور پراس بات کا حمایتی ضرور ہوں کہ ماضی میں جو اچھے کام اس وقت کے حساب
سے کیے گئے ہوں ان پرتعریفی الفاظ ادا کیے جانے لازم ہیں لیکن اس کے ساتھ
ساتھ اس بات پر بھی زور دوں گا کہ ماضی میں جو ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں ان پر
اڑے رہنا کسی طور پر درست نہیں اور نہ ہی یہ مہذب قوموں کی میراث ہوتے ہیں
مہذب کا لفظ بھی اپنے اندرہزاروں معنی چھپائے ہوئے ہے لیکن میں ہر گز یہ
نہیں مانتاکہ میں یورپ یا امریکہ کو مہذب قرار دوں کیونکہ وہاں وقت گزارنے
کا میرا کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہے اور کتابوں ،انٹرنیٹ اوروہاں وقت گزار کے
آنے والوں سے معلومات ملتی رہتی ہیں جن سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ
وہاں کا حال بھی قابل مثال اور قابل تقلید نہیں ہے ان میں بھی آپسی تضاد
پایا جاتا ہے ہمارے یہاں کہ کچھ لوگ وہاں کے ماحول کو الگ تناظر میں دیکھتے
ہیں مختصراً یہ کہ اکثریت وہاں سے بھی ناخوش ہے۔
موجودہ وقت میں بر صغیر کے لوگوں کی بڑی تعداد ریاست کشمیر کے باسیوں کے
مسائل کے حوالے سے الجھن کا شکار ہے ،کشمیر ایک ایسا موضوع ہے جس پر
موثرتحریر لکھنا ایک کٹھن سی مشق معلوم ہوتی ہے اسی ریاست کشمیر کے نام کو
ذاتی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں گو کہ اکثریتی کشمیری اس بات سے نابلد
ہیں کہ ریاست کشمیر کی اس تقسیم سے قبل اس کی اصل حیثیت کیا تھی اور رفتہ
رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی حیثیت میں کیا کیا تبدیلیاں آتی رہی
ہیں۔میںکہ میں کوئی بڑا فلاسفر یا محقق نہیں ہوں لیکن اس کے باوجودایک کوشش
کر رہا ہوں ریاست کشمیر،جونا گڑھ اور حیدر آباد ہم سے کیوں اور کیسے چھینی
گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کشمیر کی اپنی اہمیت ہے ،اس میں قدرتی
وسائل ،جغرافیائی تناظر اور یہاں کی ثقافت اسے دنیا بھر میں ایک بڑا رتبہ
دیئے ہوئے ہے دورا یہ کہ یہاں کہ محنت کش و خود دارلوگوں نے صدیوں سے اپنی
منوائی رکھی ہے لیکن اب کی بار شاید یہاں کے لو گوں میں وہ دم خم نظر نہیں
آتا جو ان کی تاریخ رہی ہے۔ اس خطہ کو دوسری اقوام کی طرف سے قدر کی نگاہ
سے دیکھا جاتا ہے ریاست کشمیر کی ایک اپنی الگ حیثیت رہی ہے میں تو اسے
کشمیریوں کی نادانی کہوں گا کہ انہوں نے اس خطہ کو محدود کرنے میں پاکستان
و بھارت کی مدد کی اور اس جرم میں شرکاءکی تعداد ان گنت ہے ، موجودہ وقت
میں بھارت اور پاکستان کے لیے کشمیر کی سر زمین میں اپنے اپنے
دفاعی،سیاسی،نظریاتی اور اقتصادی مفادات ہیں،کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے لیے
کشمیر کی اہمیت نظریاتی یعنی دو قومی نظریہ کے تحت جو تقسیم بر صغیر کا
عمومی اور اصولی فارمولہ تھاکشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست کے طور پر پاکستان
کے ساتھ حصہ بننا چاہیے تھا پھر پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرنے والے تمام
دریاکشمیر سے نکلتے ہیںجب کہ شمالی کشمیر کے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کا
پاکستان کے دفاعی معاملات سے گہرا تعلق بنتا تھا جب کہ دوسری طرف یہ بھی
بتایا جاتا ہے کہ بھارت کے لیے کشمیر پر دعوے کی پہلی بنیاد پنڈت نہرو کا
کشمیری النسل ہونا اور اس بنا پر پیدا ہونے والی جذباتی وابستگی تھی
کانگریس کے رہنما اپنے سیکولر نظریے کی تائید اور دو قومی نظریے کو غلط
ثابت کرنے کے لیے مسلم اکثریتی ریاست کو اپنے سیکولر وجود کے سر کا تاج
بنائے رکھنے کی خواہش کا شکار تھے پھر کشمیر سے نکلنے والے دریاﺅں پر
کنٹرول اور بمطابق پاکستانی تاریخ اس کے نتیجے میں پاکستان کو بے آب وگیاہ
بنانے کی خواہش کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی سوچ کے بنیادی محرکات میں سے
تھی گو کہ چوہدری رحمت علی نے جب پاکستان کا نام تجویز کیا تو اس میں ”ک“
کا حرف کشمیر کو ظاہر کرتا تھا لیکن تقسیم بر صغیر کا جواصول طے کیا گیا
تھا اس کا ازخود اطلاق کشمیر سمیت تمام دیسی ریاستوں پر نہیں ہوتا تھا
کشمیر،حیدرآباداور جونا گڑھ اس وقت ایسی ریاستیںتھیں جو متحدہ ہندوستان کے
صوبے نہیں تھے (یہ داخلی طور پر خود مختاری ریاستیں تھی) بلکہ ان کے
حکمرانوں نے انگریزوں کے ساتھ الگ الگ معاہدات کر رکھے تھے جب ان ریاستوں
کے مستقبل کاسوال اٹھا تو اصولی طور پرکانگریس اور مسلم لیگ میں واضح
اختلاف پیدا ہوا ۔کانگریس ان ریاستوں کے حق خود مختاری کی مخالف تھی جب کہ
مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح ذاتی طور پر یہ فیصلہ ریاستوں کے
عوام پر چھوڑنے کے حامی تھے یعنی یہ کہ اگر ریاستوں کے عوام پاکستان ،بھارت
میں سے کسی کے ساتھ بھی اپنا مقدروابستہ نہ کرنا چاہیں تو انھیں کسی نئے
انتظام اور اصول کے تحت خود مختاری کا حق دیا جائے اس لیے ان تمام دیسی
ریاستوں کے مستقبل کے لیے الگ اصول مقرر کیے گئے۔
میری نظر میں یہ وہ مرحلہ تھا جہاں مسلم لیگ کی قیادت سے اندازے یا حکمت
عملی کی غلطی ہوئی تھی جس کے نتائج کو یہ قوم آج تک برداشت کر رہی ہے،
ریاستوں کے مستقبل کے معاملے میں ریاستی حکمران کی رائے کا اصول تسلیم کر
لیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ حیدر آباد میں اکثریت ہندوﺅں کی تھی لیکن وہاں
کے حکمران میر عثمان علی مسلمان تھے جب کہ کشمیر میں صورت حال کلی طور پر
اس کے بر عکس تھی جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور حکمران ہندو مہاراجہ ہری
سنگھ تھا تاریخ کے ابواب کا درست سندوں سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم
ہوتا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بجائے خود
مختار کشمیر کا حامی تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیراعظم پنڈت رام چندر
،مسلم لیگ اور کانگریس کو کشمیر کی خود مختاری کا فارمولہ قبول کرنے کی
کوشش کرتے رہے جب کہ شیخ محمد عبداللہ بھی الحاق بھارت کی بجائے ریاست کی
خودمختاری کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا۔کشمیر میں تحریک پاکستان کی
علمبردار مسلم کانفرنس بھی نظریاتی لحاظ سے پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ
کی حامی تو تھی لیکن کشمیر کو بھارت کی طرف جانے سے بچانے کے لیے مسلم
کانفرنس بھی خود مختاری کے اصول پر مفاہمت کے لیے تیار تھی اس کا ایک ثبوت
جولائی 1947ءمیں چوہدری حمید اللہ کی قیادت میں مسلم کا نفرنس کے کنونشن
میں ایک ایسی قراردار کی منظوری کی کوشش ہے جس میں کشمیر کی خود مختاری کا
مطالعہ کیاگیاتھالیکن بعد میں سردار محمدابراہیم کی قیادت میں مسلم کانفرنس
کی جنرل کونسل نے اس قرارداد کا جو مسودہ اپنا یا اس میںمہا راجہ سے کشمیر
کے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ شامل تھا(شاید اس وقت الحاق کی قرار داد کے
بجائے خودمختاری کی قرار داد پیش کی گئی ہوتی اور وہ شاید منظو ر بھی ہو
جاتی توآج بھارتی مقبوضہ کشمیر والوں کو بھارت کی غاصبیت سے نقصان نہ
اٹھانا پڑتا وہاں ہماری ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کو ابروریز نہ
کیا جاتا نہ اور پاکستانی آزاد کشمیر کہلائے جانے والے علاقے میں ایسی ڈمی
حکومتیں قائم نہ ہو پاتی جن کے اختیارات انتہائی محدود ہیں) اسی قراردار کو
آج قرادار الحاق پاکستان کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب نظام حیدر آباد نے
خود مختاری کا اعلان کیا تو ہندو اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں
کیاپاکستان نے نظام حیدر آباد کے اسی اعلان کو تسلیم کرکے آزاد حیدر آباد
کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرلیے جب کہ ایجنٹ جنرل کے نام سے آزاد حیدر
آباد کا سفیر بھی کراچی میںتعنیات کر دیا گیا بھارت ایک طرف یہاں حیدر آباد
کے حکمران کا فیصلہ تسلیم نہ کرتے ہوئے ریاست کی خود مختاری پر شب خون
مارنے کا فیصلہ کر رہا تھا تو دوسری طرف کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ
کو شدید دباﺅ میں لا کر اور مذہب کے واسطے دے کر اسی اصول کے تحت الحاق
بھارت پر آمادہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیراتھے جس میں وہ کامیاب بھی ہو
گئے تھے۔
دوسری طرف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور پاکستان نے
اس حق کو تسلیم کر لیا اس طرح دفاع،خارجہ معاملات اور مواصلات کی ذمہ داری
پاکستان نے اٹھالی اور جب جونا گڑھ میں اس فیصلے کے خلاف گڑ بڑ پیدا کرنے
کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی فوج یا پولیس اس کا دفاع کرنے نہ پہنچ سکی(
یہ بھی حکمت عملی کا فقدان تھا کہ ہم جونا گڑھ کی حفاظت بھی نہیں کر سکے
اور بد بختی یہ کہ بعد میں اس کیلئے آواز بھی نہ اٹھا سکے اسی وجہ سے آج
ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں ایسے ابواب شامل نہیں کیے جاتے جن سے
ہماری غلطیاں اور کوہتایاں ظاہر ہوتی ہوں ،بلکہ ہمیں سب اچھا ہے کا سبق
پڑھا یا جاتا ہے ۔) چنانچہ بھارت نے جونا گڑھ پر فوج کشی کرکے قبضہ کر لیا
اور پاکستان اصول تقسیم کے تحت بننے والے حصے کا دفاع نہ کر سکا البتہ
پاکستان کے اس وقت کے سیاسی راہنماﺅں نے یہ قیاس کر لیا کہ جس طرح بھارت نے
جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا اسی طرح وہ کشمیر میں مہاراجہ کی رائے کے بر عکس
فوجی طاقت سے کشمیر حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ سوچ اس وقت غلط ثابت ہوئی جب
قبائلی لشکر اور آزاد فوج کشمیر میں داخل ہوئی تو کشمیر کے مستقبل کے بارے
میں مخمصے کا شکار مہاراجہ ہر ی سنگ مکمل طور پر بھارت کی گود میں چلاگیا۔
اس نے اپنی حکومت کی ڈوبتی ہوئی ناﺅ کو بچانے کے لیے بھارت کی غلامی قبول
کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا لیکن بھارت نے اس کے لیے الحاق کی شرط عائد کی
اور یوں حیدر آباد اور جونا گڑھ میں حکمرانوں کے فیصلوں کو روندنے والے
بھارت نے کشمیر میں حکمران کے فیصلے کو گلے کا تعویذ بنا لیا۔ قبائلی لشکر
کشی سے کشمیر میں صورت حال بہتر ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوئی اگر لشکر کشی
ہوئی تھی تو پھر انھیں بارہ مولہ سے آگے کیوں نہیں جانے دیا گیا اور وادی
کے اندر پہنچ کرا نھیںپسپائی پر کیوں مجبور کیاگیا۔۔؟ کیوں کہ اگر حیدر
آباد اور جوناگڑھ کے ردعمل میں طاقت کے مقابلے میں پاکستان نے طاقت کا اصول
اپنانے کا فیصلہ کیا ہی تھا تو پھر اس پر عمل درآمد کے لیے جس بصیرت اور
حکمت کی ضرورت تھی وہ نظر نہ آ سکی۔
آزاد کشمیر حکومت کے پہلے سیکریٹری جنرل (چیف سیکریٹری) قدرت اللہ شہاب نے
اپنی کتاب شہاب نامہ میں اس حکمت عملی کا یوں جائزہ لیا ہے۔
” سری نگر کے ہوائی اڈے پر بھارتی افواج ،اسلحہ ٹینک، انڈین ایئر فورس کے
جہازوں کے برآمد ہوتے ہی آزادی کشمیر کی جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔مجاہدین کے
لشکر کا زیادہ حصہ دوروز سے خواہ مخواہ بارہ مولہ میں اٹکاہو اتھا اگر اس
لشکر کا تھوڑا سا حصہ بھی یلغار کرکے سری نگر کے ہوائی اڈے پر قابض ہو جاتا
تو بھارتی فوج وادی کشمیر پر تسلط جمانے میں کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکتی
تھی اس کے بر عکس مجاہدین کی ہمت ٹوٹ گئی۔ان میں ایک طرح کی بھگدڑ مچ گئی
اور وہ انتہائی غیر منظم طور پر اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس لوٹنا شروع
ہوگئے-
لشکر کے بارہ مولہ میں قدم رکنے کی وجہ حددرجہ پر اسرار یت ہے۔ اس ایک بے
وجہ پڑاﺅنے قافلہ حریت کے پڑاﺅ کو دہائیوں اور عشروں پرمحیط کر دیا اور
طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیر کی تاریخ اس پڑاﺅ اور اس پسپائی کے اثرات
سے باہر نہیں نکل سکی۔ کیونکہ یہی وہ لمحے تھے جب بھارت کو اپنی فوج سری
نگر میں اتار کر مہاراجہ حکومت کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا پ ±ر کرنے
کا موقع ملا ۔یہی وہ دن تھے جب حالات سے مجبور مہاراجہ نے بھارت سے الحاق
کی شرط تسلیم کرکے خود سیرگی کا فیصلہ کیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لشکر کے
کمانڈر میجر خورشید انور جن کا تعلق جموں سے تھا نے24 اکتوبر کو آزادکشمیر
کی انقلابی حکومت کے اعلان کے بعد اپنے کردار کا تعین ہوئے بغیر بارہ مولہ
سے سری نگر کی جانب پیش قدمی روک دی۔کشمیر پر بھارت کی باقاعدہ فوج کشی کی
اطلاع پر قائداعظم نے کشمیر میں باقاعدہ فوج بھیجنے کاحکم دیا۔ جسے
پاکستانی کے ہی ملازم جنرل گریسی نے ماننے سے انکار کر دیا جب کہ بھارتی
فوج کے انگریز کمانڈر کشمیر پر بھارتی قبضے کی مسلسل نگرانی اور راہنمائی
کرتے رہے۔کشمیر میں بھارتی فوج اترنے کے بعد پاکستان نے کشمیر میں دفاعی
جنگ لڑنے کا آغاز کیا اور پھر یہ جنگ ہمیشہ دفاعی ہی رہی۔یہاں تک کہ مسئلہ
کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کاکام بھی بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو
نے یہ کہہ کر کیا کہ پاکستان نے کشمیر میں جارحیت کر دی ہے۔ قائد اعظم کے
سابق سیکریٹری کے ایچ خورشید کے مطابق کشمیر پر سویلین یلغار کی ساری
پالیسی چند سرکاری افسروں اور سرحد کے گورنر خان عبدالقیوم خان کے ذمے تھی۔
جو اپنے محدود اختیارات کی حدتک ہی کام کر سکتے تھے۔ البتہ جب بھارت نے
کشمیر میں اپنی باقاعدہ فوج اتاردی تو آزاد کردہ علاقے کے دفاع اور کنٹرول
کے لیے پاکستان کو اپنی فوج کشمیر میں بھیجنا پڑی اور یوں باقاعدہ افواج کی
کشمیر میں آمد سے وہ لکیر ابھری جسے آج منحوس سینرفائر لائن کہا جاتا ہے۔
تقسیم کے وقت کشمیر کو مسئلہ بنانے میں انگریز کا کردار بنیادی اور متضاد
ہے پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی حد بندی کے لیے قائم باﺅنڈری کمیشن کے
سربراہ ریڈکلف کے سابق سیکرٹری کر سٹوفر ہیومونٹ جو برٹش سول سروس کے ایک
اعلیٰ افسربھی تھے کی یاد داشتیں اس متضاد کردار کا پتا دیتی ہیں۔ ۲۰۰۲ءمیں
انتقال کرنے والے کر سٹوفر مونٹ تقسیم بر صغیر کے آخری حقیقت آشنا اور چشم
دید گواہ تھے جنہوں نے کئی بار لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی غیر منصفانہ پالیسیوں سے
اختلاف رائے بھی ظاہر کیا۔ریڈکلف کے ذاتی سیکرٹری کر سٹوہیومونٹ اپنی
یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ”وائسرائے لارڈماﺅنٹ بیٹن اگر چہ 1948ءمیں
برصغیر میں ہونے والے کشت و خون کے تنہاذمہ دار نہیں لیکن پھر بھی انھیں
پنجاب میں ہونے والے قتل عام کی ذمہ دارای قبول کرنی چاہیے جس میں پانچ سے
دس لاکھ کے درمیان مرد عورتیں اور بچے مارے گئے اقتدار کی منتقلی اور تقسیم
کا عمل کچھ زیادہ ہی تیزی سے انجام دیا گیا۔ہیومونٹ کی تاریخی یاداشتوں میں
یہ بار ہاکہا گیا ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن نے نہ صرف تقسیم کے وقت مروجہ قوانین کو
توڑابلکہ سرحدوں کی تشکیل کے حوالے سے بھارت کا ساتھ دیا اور اس کے لیے
ریڈکلف پر باقاعدہ دباﺅ بھی ڈالا گیاکر سٹوفر ہیومومنٹ لکھتے ہیں کہ ” مجھے
ماہر انہ انداز میں ایک ایسے ظہرانے سے الگ کر دیا گیا کہ جس میں ماﺅنٹ
بیٹن اور ریڈکلف نے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستان کی بجائے بھارت میں
شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی اور دوسروں کی تاریخ کے ابواب کا مطالعہ کرنے سے قومیں سیکھتی ہیں،ان
سے سب لیا جانا بھی چاہیے لیکن صد افسوس کہ سابقہ و موجودہ حکمرانوں اور
پالیسی میکرز کی نااہلیوں کی وجہ سے اصل تاریخ سے ہم میلوں دور چلے گئے ہیں
یہی وجہ ہے کہ اب درست تاریخی مسندات آسانی سے میسر آتی ہیں اور نہ ہی اس
طرف نئی نسل کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ |