چند دنوں قبل ایک کہانی پڑھی تھی
بلاعنوان ۔ دادا، پوتا اور ٹیچر کے کردار پر مشتمل یہ کہانی موجودہ
ہندوستانی معاشرہ کی بھر پور عکاس تھی ۔ دادا بدعنوانی مخالف ہر تحریک کا
سرگرم رکن رکین ، گاندھی ٹوپی اور سفید کرتا دھوتی زیب تن کئے ہر پروگرام
کا پر جو ش مقرر ، پو تا صغر سنی میں کیا جانے بدعنوانی کے مفہوم کو ،
داداکی سفید پوشی البتہ اسے بہت بھاتی تھی ، للچائی نظریں اس پر ڈالتا تھا
، مگر اس کی نزاکت کے مفہوم سے بالکل ہی نابلد تھا ، بسم اللہ خوانی کے بعد
گھر پر اسے پڑھانے کے لئے پابندی سے آنے والی ٹیچر سے ہمیشہ سفید کرتا ٹوپی
کے بابت ہی سوال کیا کرتا تھا ، لاکھ سمجھائے مگر بدعنوانی کی حقیقت اور
سفیدکرتاٹوپی کی” فضیلت “اسے کہاں سمجھ میں آئے ۔ بالآخر ایک دن دادا سے
سفید پوشی کے بارے میںپوچھ ہی لیا ، دادا اسے سمجھاہی رہے تھے کہ دروازے پر
دستک ہوئی ، داداجی باہر آئے اور صرف یہ کہے جارہے تھے ، ”بھیا اتنے سے کام
بننے والا نہیں ، اتنا تو بس “سفید کرتے کپڑے میں لپٹی ہوئی ”چیز “اندر
رکھنے کے بعد پھر کسی اور سے ملنے باہر گئے ، پوتے کے تجسس کا پیمانہ لبریز
ہی تھا ، چنانچہ الٹ پلٹ کر اچھی طرح دیکھا ، اب کیا تھا سفید کرتا ٹوپی
اور بدعنوانی کی حقیقت اسے سمجھ میں آگئی ۔ اس بلاعنوان کہانی کو ختم کرتے
ہی فی الفور اس کے لئے ”سرخ گاندھی ٹوپی“عنوان ذہن میں ابھر آیا ۔
فی الواقع اسی دو رنگی پنجرے میں ہندوستانی معاشرہ قید ہے ۔ اسی کے تناظر
میں اس رپورٹ کا انکشاف ہواکہ غیر ممالک میں جمع کالادھن کی واپسی کی مہم
چھیڑ نے والے یوگا گرو رام دیو خود مصیبت میں پھنس گئے ہیں ۔ بیرون ممالک
میں سرمایہ جمع کرنے اور غیر قانونی طور پر سرمایہ کاری کرنے کی وجہ سے کڑی
ان پر بھی نگاہ رکھی جائے گی ۔ اسی کے ساتھ ان کے زبردست کاروبار کے مدنظر
58کروڑ روپئے بطور ٹیکس اداکرنا لازم قرار دیا گیا ہے ، یہ بھی انکشاف ہوا
ہے کہ انہوں نے 2009-10میں 120کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی ہے اور ان کے
تما م ٹرسٹوں کی بھی تفتیش ہوگی ۔ کبھی یوگا گرو کو انکم ٹیکس کے معاملہ
میں مستثنی رکھا جاتا تھا ، مگر اب محکمہ ¿ انکم ٹیکس نے آیورویدک دوا کی
خرید وفروخت کے تئیں 58کروڑ روپئے ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس انہیں بھیج دیا ہے
۔ بابا رام دیو اپنے ٹرسٹوں کے تحت رفاہی کام کروانے کا ڈھنڈورہ پٹوارہے
تھے ، تاکہ ٹیکس کی ادائے گی میں رعایت ملے ، مگر اب جبکہ یہ انکشاف ہوگیا
کہ رفاہی کاموں سے زیادہ انہیں کاروباری سرگرمیوں میں دلچسپی ہے ، دھن کے
بڑھانے میں یقین ہے تومحکمہ انکم ٹیکس نے انہیں نوٹس بھیج دیاہے ۔
صرف یہ کہنا مناسب نہیں ہوگاکہ بدعنوانی مخالف علم بلند کرنے کی وجہ سے
یوگا گرو اس مصیبت میں پھنس گئے ، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر ایک کو اپنے
کئے کا انجام بھگتنا پڑتا ہے ۔ آج نہیں تو کل یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے ، ان
کی سرمایہ کاری کی اصلیت عیاں ہوتی اور رفاعی کاموں کی آڑ میں جمع کئے جانے
والے سرمایوں پر ٹیکس کا نفاذ ہوتا ۔ یہ بات تو دودوچارکی طرح عیاں ہے کہ
بدعنوانی مخالف علم بلند کرنے سے ان کا زبردست فائدہ ہوا ہے ، عوامی
مقبولیت بھی حاصل ہوئی ، ان کے عقیدت مندوں کا دائرہ وسیع تر ہوا ۔ ظاہر با
ت ہے کہ بدعنوانی کسی کا خاص مسئلہ نہیں ہے ، کسی صوبہ کا ایشو نہیں ہے ،
کسی ایک ملک کا قضیہ نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک عالمگیرمسئلہ ہے ، ہر شعبہ اس
کی زد میں ہے ، ہرمیدان میں اس کا بول بالا ہے ، خاندانی سطح سے لے کر ملکی
بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ نمایاں ہے ۔ چنانچہ اس کے خلاف ہمت وجوانمردی
سے آواز بلند کرنے والوں کی مقبولیت ہوگی ہی ، اس کی آواز کو ہرا یک اپنی
آواز تصور کرے گا ، اس کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک نہیں ہزا ر ہوں گے ،
مگر ایسے اہم مسئلہ کو اپنی آوازسے قوت بخشنے والے بالفرض بد عنوان ہو ں،
رشوت شتاں ہوںتو لو گوں کی عقیدت کا خون ہوجائے گا ، ا ن کی تحریک لرزہ
براندام ہوجائے گی، اس کی آواز پست ہوجائے گی ، اس کی آواز سے آواز ملانے
والے شرم وعار محسوس کریں گے ، کیونکہ انسانی فطرت تو یہی ہے ۔ رام دیوہو
یا انا ہزارے، انہوں نے تو حکومت کو کس کے نشانہ تنقید بنایا ، ارباب سیاست
کو ہدف ملامت بنایا ، سرمایہ داروںپر لعن وطعن کے تیر برسائے ، مگر کبھی
اپنی پیشانی پر دمکتے داغ کو نہیں دیکھا ، دوسروں کی آنکھوں کا تنکا تو
انہیں خوب نظر آیا مگر اپنی آنکھوں کا شہ تیر نہیں ۔ ملک گیر تحریک کو موثر
بنانے کے لئے ضروری تھا کہ یہ دونوں بھی اپنے دامن پر لگے دھبوں کو صاف
کرتے ۔
ملک گیر تحریک چلاکر بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے اقدامات کرنا کسی بھی ناحیہ
سے غلط نہیں ہے ، بلکہ لائق داد ہے ، قابل تحسین ہے ۔ کیونکہ شراب جس طرح
’ام الخبائث ‘ہے ، اسی طرح بدعنوانی بھی ”ام الجرائم “ہے ۔ بالعموم شراب
پینے کے بعد اوسان خطا ہوجاتے ہیں ، عقل ٹھکانے نہیں رہتی ہے ، بے خبری کے
عالم میں شرابی خبیث سے خبیث ترین حرکت کربیٹھتا ہے ، بالکل اسی طرح بد
عنوان ہر ناجائز کو جائز تصورکربیٹھتا ہے ، بدعنوان کو کسی کے مستقبل کی
پرواہ ہوتی ہے اورنہ ہی کسی کے بھوک و پیاس کی ، کسی کے آشیانہ کی فکر ہوتی
ہے اور نہ ہی کسی کی جان ومال کی ۔ چنانچہ بدعنوانی مخالف علم بلند کرنا
خواہ کسی بھی سطح پر ہو معاشرتی ، ملکی اور سب سے بڑھ کر مذہبی نقطہ نظر سے
بھی مستحسن ہے ۔ تاہم اس کے خا تمہ کے لئے بھی اٹھائے گئے قدم سے پہلے خود
کا دیانتدار ہونا ضروری ہے ، حقارت آمیز لہجے ، بلاتحقیق وتفتیش کسی کو ہدف
ملامت بنانے اور غیر ضروری دھما چوکڑی اورہڑبونگ سے کوئی تحریک موثر نہیں
ہوتی ہے ۔
بابا رام دیو کو اپنی بدعنوانی کی طرف اب بھی توجہ نہیں ہورہی ہے ، صرف
دوسروں پر ہی کیچڑ اچھال رہے ہیں ، بلا تفتیش نشانہ تنقید بنارہے ہیں ۔ چند
دنوں قبل داؤد ابراہیم پر بھی الزام تراشی کی ہے کہ آئی پی ایل میں داؤد
ابراہیم جیسے غنڈے کی سیا ہ دولت لگی ہوئی ہے ۔ راجستھان کے الور میں
صحافیوں سے گفت وشنید کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم کو راست طور پر نشانہ
بنا یاکہ جس وزیراعظم کی ناک کے نیچے 200لاکھ کروڑ کا گھوٹالہ ہوجائے ، وہ
وزیرا عظم ایماندار ہے یا بے ایمان ، آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ رام دیو کو
دوسروں کی ایمانداری کی پیمائش سے قبل خود اپنی بھی ایمانداری کا جائزہ
لینا چاہئے تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا رفاہی کاموں کے پس پردہ سرمایہ کاری
کرنا اورٹیکس ادا نہ کرنا ایمانداری کی دلیل ہے ؟کیا ٹیکس کی رقم رکھتے
ہوئے ٹیکس ادا نہ کرنا دیانتداری کی مثال ہے ؟کیا اپنے عیوب کی پردہ پوشی
اور دوسروں کی نقاب کشائی ہی شرافت کی دلیل ہے ؟کیا غیر معمولی تحریک چلانے
والوں کے لئے دریدہ دہنی کا مظاہر ہ کرنا ضروری ہے ؟۔
بدعنوانی توصرف کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ شعبہ میں اس کا بول بالا
ہے ، چنانچہ ہر سطح پر اس کے خاتمہ کے لئے ہر فرد اور ہر شعبہ کو آگے آنا
چاہئے ، اورتو اور محکمہ انکم ٹیکس کو بھی ۔بدعنوانی کا فروغ اور کالے دھن
کے جمع کرنے میں کسی نہ کسی حد تک اس محکمہ کا بھی دخل ہے ۔ بدعنوانی کے
روک تھام میںملک وقوم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے ، مثلاً ، غیر ممالک میں
ہندوستانیوں کے جو سرمایہ ہے اسے واپس کرلیاجائے تو ہندوستان کا منظر نامہ
ہی الگ ہوگا ۔
اندازہ کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ چار سو لاکھ کروڑ کا کالا دھن اگر ملک
واپس آجائے تو ہندوستان اقتصادیات میں نمبر1ہوسکتا ہے ، ہندوستانیوں کو بیس
برسوں تک کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا ، ایک ضلع کے حصہ میں60ہزار
اور ہر گاؤں کے حصہ میں 100کروڑ روپیہ آئے گا ، پٹرول 25 ،ڈیزل15، دال
20اور دودھ 6روپئے قیمت کے حساب سے ملیں گے ۔ ہر چہارجانب سے ہندوستان کی
سرحدیں چین کی طرح مضبوط ہوجائیں گی ، ملک کے طول وعرض میں آکسفورڈ جیسی
قابل قدر 1500یونیورسٹیاں قائم ہوسکتی ہےں ، پیرس کی طرح 28ہزار کلو میٹر
تک ربڑ کی سڑکیں تیار ہو سکتی ہیں ، تقریبا ً 20ہراز اسپتال قائم ہوسکتے
ہیں اور95کروڑ لوگوں کو رہائشی مکان دستیاب ہوجائے گا ۔
ظاہر بات ہے کہ اگر تمام سہولتیں دستیاب ہوجائے تو ہندوستان جنت نشاں بن
جائے گا ، چین وسکون کی فضا چھاجائے گی ، ہرہندوستانی اپنے پر فخر محسوس
کرے گا ۔ یہ خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے ، جب کہ صد ق دل سے اپنے
اپنے دل میں بدعنوانی مخالف تحریک چلائیں ۔ صرف دوسروں کو نشانہ تنقید
بنانے اور بے پر کے اڑا کر سستی شہر ت کمانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ملک کی
حالت یوںہی دگرگوں رہے گی ، بے شمار افراد دانے دانے کو ترستے رہیں گے
اوراہل ثروت محلوں میں داد عیش دیتے رہیں گے ۔
بہت خوشی کی بات ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس نے بابارام دیو کے کالے کارنامے کو
اجاگر کیا ہے اورانہیں 58کروڑ ٹیکس جمع کرنے کا نوٹس بھیج دیا ہے ۔ اسی طرح
اس محکمہ کو ان جیسے ٹیکس نہ ادا کرنے والوں پر نگاہ رکھنی ہوگی ، تاکہ
بدعنوانی کا خاتمہ ہو اور ٹیکس کے سرمایوں سے دیگر کام ہوسکے ۔ |