اسلام و علیکم
آج ہمارے ملک پاکستان میں جو مسائل عوام کو درپیش ہیں انکی جانب سے ہمارے
حکمران اور سیاستدان آنکھیں موندے عیاشی کی زندگی گذار رہے ہیں جبکہ اسکے
برعکس ان سیاستدانوں کو منتخب کرکے اور ان لوگوں کو اپنے اوپر ظلم وستم
کرنے کا سرٹیفکٹ دینے والی عوام آج اپنے پیٹ کی دوزخ بجھانے کے لیے اپنے
بچوں کا اپنی بہن بیٹیوں کا سودا کرنے پر مجبور ہیں اور کچھ سفید پوش اپنی
عزت کا بھرم رکھنے کی خاطر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں ۔
آج اس دور میں جب میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ ہر لمحہ کی خبر ہمیں مل جاتی ہے
تو کیا ان سب واقعات و حادثات کی خبریں ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں تک
نہیں پہنچتیں۔ پہنچتیں ہیں مگر ان کی آنکھوں پر عیاشی کے اسقدر پردے پڑچکے
ہیں کے وہ خود غریبوں کی عزتیں پامال کرتے ہیں تو وہ انکی حفاظت کیوں کریں
انکے کانوں میں دولت کے گھنگروﺅں کی آوازیں اسقدر بس گئی ہیں کہ انھیں غریب
کی آہیں اور سسکیاں سنائی کیسے دیں ۔
آج ہمارے وزیراعظم ملتان کے ایک جلسے میں اپنے خطاب میں بڑی شان سے اعلان
کرتے ہیں کہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہونی چاہیے۔ جبکہ حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب خلافت ملی تو آپ رضی اللہ تعالٰی
عنہ کا جب وظیفہ مقرر کیا گیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ایک
غریب مزدور کی اجرت کے برابر وظیفہ مقرر کیا جائے جس پر امراء دربار میں
کھلبلی مچ گئی اور اسی وقت مزدور کی اجرت میں اضافہ کردیا گیا ۔
کیا ہمارے وزیراعظم اور وزراء آٹھ ہزار روپے میں گزارہ کرسکتے ہیں اگر نہیں
کرسکتے تو اتنے فخر کے ساتھ اعلان کر کے غریب مزدور کے احساسات سے کھیلنے
کا کوئی حق نہیں۔
ذرا سوچئے کہ ظلم سہنا ظالم کو طاقتور بنانا نہیں ہے آخر کب تک ہم مزدور یہ
ظلم و زیادتی سہتے رہینگے۔ ہم مزدور جو اپنا خون پسینہ بہا کر رات دن ایک
کرکے اس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارے حکمران
مزدور کو انکا حق دینے کی بجائے انھی کے خون پسینے کی کمائی سے عیاشی کی
زندگی گزار رہے ہیں۔
آج اگر اس ملک کے مزدور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عالمی دن کی یاد
کو تازہ کرکے اسکی تاریخ کو دوبارہ دہرائیں تو انشاءاللہ تعالٰی اس ملک کا
مزدور بھی خوشحال ہوگا۔ |