صرف کراچی میں رواں سال کے پانچ ماہ میں 114عورتوں کا قتل

آخر عورتیں مردوں کے ہاتھوں کب تک قتل ہوتی رہیں گیں.؟
ماں بہن بیوی اور بیٹی جیسے مقدس رشتوں کی تسبیح میں پروئی گئی عورت کو مردکیوں قتل کردیتے ہیں...؟؟ایک سوالیہ نشان..؟

کوئی بالخصوص اپنے پاکستانی اور بالعموم دنیاکے اُن مردوں سے تو یہ پوچھے کہ جن کا سارازور ماں بہن بیوی اور بیٹی کی شکل میں اِن کے معاشرے میں موجود عورت پر ہی کیوں چلتاہے...؟اور اِن کاہرقسم کا غصہ عورتوں پر ہی کیوں اُترتاہے...؟دنیا کے مردوں کی با ت تو ہم پھر کبھی کریں گے مگر پہلے ہم ذکرکرناچاہیں گے اپنے معاشرے کے مرد کا وہ مرد جو برداشت کے معاملے میں کئی حوالوں سے اپنی عورت سے بھی زیادہ کمزور ہے ...؟و ہ مرد جو اپنی بھوک وپیاس برداشت نہیں کرسکتا...؟وہ مردجو کھانے میں نمک کی مقدار زیادہ ہونابرداشت نہیں کرسکتا...؟وہ مرد جو ٹھنڈی روٹی اور ٹھنڈاکھانا،کھانا برداشت نہیں کرسکتا..؟اورمعاف کیجئے گا ہمیں اپنے معاشرے میں موجودمرد کی اِ س برداشت اور کمزوری کا بھی ضرور ذکر کرنے دیں جسے بیان کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے یعنی یہ کہ ہماراوہ مرد جو اپنایورین برداشت نہیں کرسکتا(وہ ایسے کہ جب اِسے زور سے یورین (پیشاب) آتاہے تووہ فوراََ دیوار ڈھونڈتاہے اور جب اِسے اِس کے اخراج کرنے کے لئے کسی دیوار کی اُوٹ مل جاتی ہے تو پھر وہ یہ دیکھے بغیر کہ یہ دیوار کسی مقدس مقام یااسکول، دفتر یا کسی شاپنگ سینٹر کی تونہیں ہے جہاں یہ کرنامنع ہے اور یہاں سے عورتوں اور بچوں کا بھی گزر ہورہاہے اِن بس باتوں کو نظراندازکرتے ہوئے اِسے تو بس اپنا یورین کا اخراج کرنا ہوتاہے اور پھر وہ اِسے کرکے ہی فارغ ہوتاہے) ...؟ ہمارے معاشرے کا یہ کمزور مرد جو اپناپیشاب برداشت نہیں کرسکتاجی ہاں ایساکمزور مرد....جس کی مردانگی کے بڑے بڑے بہت سے دعوے ہیں مگر ہے یہ عورت سے کمزور۔حالانکہ یہ عورت اِس سمیت اور بہت سے معاملے میں بہت مضبوط اور برداشت کرنے والی ہستی ہے۔یہاں ہم اپنے معاشرے کے مرد کی ایسی اور کون کون سی ناقابلِ برداشت عادتوں کا ذکرکریں آج جن کی وجہ سے ہمیں خود پر ہنسی آنے لگتی ہے کہ ہم مرد حضرات جو اپنے معاشرے کو اپنے حساب اور نظریئے اور طور طریقے سے چلاناچاہتے ہیں ہم کیااتنے کمزور ہیں کہ ہم سے اتنی ذراذراسی چیزیں بھی برداشت نہیں ہوتیں ہیں اور ہم خود کو مرد کہتے ہیں ...؟اور اپنی عورتوں پر سفاک ظلم کرتے ہیں۔

اَب اِس خبر کو ہی دیکھ لیجئے جسے ہم یہاں بیان کرنے جارہے ہیں اِس میں جن خواتین کا ذکر کیا گیا ہے یقینا اِنہیں اِن کی باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹے یا اِن سب کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی نہ کسی مرد نے ہی قتل کیاہے تو تفصیلات کے مطابق یکم جنوری2012سے 30مئی 2012تک یعنی رواں برس کے صرف پانچ ما ہ کے روران114ایسی خواتین جنہیں سفاکیت سے قتل کیاگیااور اِن خواتین کو ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت سپردخاک کیاگیاجن میں 101کی شناخت نہیں ہوسکی اور خبر میں یہ بھی ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق اِس رواں سال کے اِس مختصرترین عرصے میں شہر کے مختلف علاقوں سے اِن کے سینٹر میں114خواتین کی لاشیں پہنچائی گئیں جن میں سے 101خواتین ایسی تھیںجن کی شناخت نہیں ہوسکی اور اِن کی تصاویر ایدھی فاؤنڈیشن والوں نے محفوظ کرکے اِنہیں ایدھی کے قبرستان واقع مواچھ گوٹھ میں عدم شناخت پر سپردخاک کردیاگیاہے مگر اِس موقع پر افسوس کا مقام تو یہ ہے اِن تعدادوشمار میں سے 75سے زائد خواتین ایسی بھی تھیں کہ جنہیں فائرنگ، تیزدھار آلے کے وار، گلاگھونٹ کر یا دیگر سفاک طریقوں سے قتل کیا گیاجو مردوں کے اِس معاشرے میں اُن مردوں کے لئے یقینا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ...؟؟جو اپنی مردانگی کی آڑ اور حیوانگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنی ضد اور انا کے خاطر عورت جیسے دنیاکے خوبصورت ترین پھول کو بھی مسلنے سے دریغ نہیں کرتے اور اِسے اپنی جھوٹی شان اور عظمت کو برقرار رکھنے اور اپنی مردانگی کی شیشے سے بھی زیادہ کمزوراور آسمان جتنی بلنددیوارکھڑی کرنے کے چکر میں عورت کو قتل کردیتے ہیں ایسے میں اَب سوچنے اور غورکرنے کا مقام یہ ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں عورت کب تک مردوں کے رحم وکرم پر رہے گی...؟ اور اپنی زندگی کی ڈوری اپنے حیوان نما مردوں کے ہاتھوں میں دے کر روز جیتی اور مرتی رہے گی...؟کیاکبھی ہماری عورت اپنے حقوق کے خاطر مردوں کے سامنے کھڑی ہوپائے گی...؟یایوں ہی اپنے وجود کو مردوں کے لئے کھلونابناکر پیش کرتے ہوئے اِس کی نسلوں کو پروان چڑھاتے ہوئے گھٹ گھٹ کر مرتی جائے گی...؟ایسے میں اَب اِسے اپنامقام اور مرتبہ خود سمجھناہوگا اور اپنے حقوق اِن بھیڑیوں نما مردوں سے ضرور حاصل کرنے ہوں گے جو اِن سے برداشت کے معاملے میں ہر حال میں کمزور ہیں اور اپنے اِن مردوں سے جو باپ، بھائی ، شوہر اور بیٹے کے روپ میں اِس پر حاکم بنے بیٹھے ہیں اِن سے اپنے ہر وہ جائز حقوق جو ہمارے دین اِسلام نے اِسے دیئے ہیں اُن تمام کو حاصل کرنے ہوں گے تاکہ یہ اِن کے ہاتھوں مرنے سے بچ سکے اور اپنے جائز حقوق کے ساتھ اپنی زندگی عزت و احترام اور شان و شوکت اور منزلت سے گزار سکے اور اَب اِسے خود کو اِس مقام تک لانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری عورت کو اپنی قدر جاننی ہوگی اِس کے بغیر یہ اپنے حقوق کے خاطر اپنے معاشرے کے مردوں سے نہیں لڑسکتی ہے ۔

کیوں کہ داناکہاکرتے ہیں کہ عورت کائنات کی بیٹی ہے اِس کے بغیر دل اور دنیاویران ہے یہ ماں بہن بیوی اور بیٹی (خود سے منسلک اور دیگر )جیسے مقدس رشتوں کی خوبصورت ترین تسبیح میں اِس قرینے سے پرودی گئی ہے کہ اِس تسبیح کے ایک ایک دانے میں ایثارو محبت اور الفت کے ایسے عظیم چشمے پوشیدہ ہوتے ہیں جن سے سیراب ہونے والا ہی اِس کی قدر ومنزلت سے واقف ہوتاہے اور اہلِ دانش یہ بھی کہتے ہیں کہ اِن رشتوں کی مٹھاس قسمت والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے جس کے خاطر ضروری ہے کہ اِن سے بڑھ کر محبت کی جائے اِن کی عزت و تکریم کی جائے اِن پر کبھی غصہ نہ کیا جائے کیوں کہ ماں بہن بیوی اور بیٹی کے روپ میں عورت کا دل بہت نرم اور نازک ہوتاہے یہ ہماری ذراسی سے ناراضگی اور غصے سے چکناچور بھی ہوجاتاہے اِن رشتوں کے روپ میں عورت بدمعاشوں اور ذیلوں سے بھی محبت کرنے والی خداکے بعد ایک ایسی ہستی ہے جو معاشرے سے دھتکارے اور بھٹکارے ہوؤں سے بھی محبت کرتی ہے سقراط کے نزدیک مردآنکھ ہے تو عورت اِس کی بینائی مرد پھو ل ہے تو عورت اِس کی خوشبوہے کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ عورت ایک ایساپھول ہے جو اپنی خوشبو سے مرد کے چمنستان کو مہکادیتی ہے جبکہ سیموئیل کا کہناہے کہ عورت کے محبت بھرے دل سے اچھی کائنات کی کوئی شے نہیں ہے عورت کی عظمت سے متعلق ایرانیوں میں ایک کہاوت صدیوں سے بڑی مشہورہے وہ یہ کہ عورت کا پیار اِس چشمے کی مانندہوتاہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔عورت کی شان وعظمت سے متعلق ہم نے اُوپری سطور میں جنتی بھی خوبیاں بیان کیں ہیں اِن میں اکثر اُن مشہور ومعروف اشخاص کے قول ہیں جو مسلم تو نہیں تھے مگر اِن کے نزدیک عورت کا احترام اور تقدس ضرور تھا ۔

یہاں ہم نے اپنے اُن اسلامی اقوال کو تحریر خود سے نہیں کیاہے جو ہم اپنی کتابوں میں پڑھتے اور اپنے مذہبی اجتماعات میں سُنتے چلے آرہے ہیں مگر ہم اِنہیں اپنی عملی زندگیوں میں اپنانے سے قاصر ہیں کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اہلِ دانش حضرات جذباتی اور کتابی باتیں بیان کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے ہمیں یقین ہے کہ آج اگر ہم اپنے اہلِ دانش کی باتوں پر حقیقی معنوں میں اپنے دین کے مطابق عمل کررہے ہوتے تو شاید ہم اپنے معاشرے میں ماں بہن بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں کے روپ میں موجودہ عورت کی عظمت وقارکاخیال ضروررکھتے اور اِس کی یوں بے قدری ہرگز نہ کرتے جیسے ہم آج کررہے ہیں یوں ہم نے اپنی اِس تحریر میں دنیا کے اُن اشخاص کے اقوال دانستہ طور پر شامل کئے ہیں اور اگلی سطور میں مزید شامل کریں گے جو مسلم تو نہیں مگراُنہوں نے بھی ہماری دینی کتابوں کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذکرنے کے بعد ایک مقام پر پہنچ کر عورت کا احترام نہ صرف خود پر لازم سمجھتے رہے بلکہ اپنے خوبصورت اقوال سے رہتی دنیا تک یہ نصیحت اور سبق ضرور دے گئے کہ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے ظاہر اور باطن پھول ہیں اِن میں سب زیادہ خوبصورت اور نازک پھول عورت ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اُنہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیاکہ دنیا کی تمام خوشیاں عورت سے ہیں اگر یہ نہ ہوتی تودنیا ایک اُجڑے دیارکے مانندہوتی اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ یہ معاشرے کے اُن ظالم مردوں جو باپ، بھائی ، شوہراور بیٹے کی شکل میں دنیا کے اِس حسین پھول عورت پر ظلم کرتے ہیں اُن کو بھی سختی سے یہ سمجھاگئے ہیں کہ سُنوسُنواور کان کھول کر سُن لو کہ عورت مرد کی غلام نہیں ہے اِس پر اپنے مفادات کے خاطر کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی دولت پر قابض ہونے کے لئے ظلم نہ کرنااور اِسے قتل کرنے کے بہانے تلاش نہ کرنایہ تمہاری نہ تو دشمن ہے اور نہ تمہاری غلام بلکہ یہ تو تمہاری نسلوں کے لئے وہ کھیتی ہے جہاں سے تمہاری نسلیں پروان چڑہتی ہیں اور چڑہتی رہیں گیںاور تمہاری اِن ہی عورتوں سے تمہاری قوم کو بہادر سپوت میسر آئیں گے جن سے تم دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کروگے اِس لئے عورت تمہاری سچی ہمدرد، اچھی رفیق اور تمہارے سائے سے زیادہ قریب تر تمہاری ساتھی ہے جو تم سے اپنے ایثار و محبت کے نیک جذبوں کی وجہ سے کبھی بھی تمہاراساتھ نہیں چھوڑسکتی وفا اور اُلفت جیسے انمول خزینے اِس کی ہر سانس اور اِس کے خون کے ایک ایک قطرے کی شکل میں اِس کے وجود میں گردش کرتے ہیں بس تمہارا اِس کے ساتھ مخلوص اور دیانتدار ہوناشرط ہے تم اپنے نفس کے ہاتھوں اِسے دھوکہ تو دے سکتے ہو مگر یہ اِس کے باوجود بھی تم پر اپنا سب کچھ نچھاوڑ کرنے پر آمادہ رہتی ہے مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ کہناپڑرہا ہے کہ آج ہم مردوں نے اپنی مردانگی کا سارازورکئی مقدس رشتوں میں موجود رہنے والی معاشرے کی عورت پر یوں چھاڑنا شروع کردیا ہے کہ جیسے یہ ہماری غلام ہے اِس کی حیثیت ہماری جنسی تسکین پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے جبکہ مردوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ آج جس عورت پر یہ اپنی مردانگی کا لبادہ اوڑھ کر ظلم کررہے ہیں اور اِس کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں یہی عورت تو ہے جو اِن کو جنم دیتی ہے اور اِن کی مردانگی کے اِن میں رنگ بھرتی ہے مردوں کو سوچناچاہئے کہ آج اگر عورت نہیں ہوتی تو کیا یہ پیداہوتے اور اپنی مردانگی کا زور کس پر چلاتے...؟تو بس مرد کی مردانگی ختم ہوجانی چاہئے ہے عورت کے سامنے جس روپ نے اِسے جناہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 894161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.