امریکہ اور پاکستان کے تعلقات
ہمیشہ ہی عجیب و غریب نوعیت کے رہے ہیں بظاہر دونوں طرف سے نعرہ برابری کی
بنیاد کا لگایا جاتا ہے لیکن دراصل امریکہ ہمیشہ اپنی طاقت کے نشے میں مست
نخوت کا مظاہرہ کرتا ہے اور پاکستان کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا
ہے۔ دہشت گردی کے خلاف موجودہ نام نہاد جنگ میں امریکہ پاکستان کو اپنا نان
نیٹو اتحادی کہتا رہا لیکن جب اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور سلالہ چیک پوسٹ
پر امریکی حملے کے بعد پاکستان نے اپنے مفادات کی بات کی تو اُسے یہ بات
شدید طور پر ناگوار گزری اور اس کا لہجہ غیر معمولی طور پر لیکن توقعات کے
عین مطابق بدل گیا بلکہ دھمکی آمیز ہوگیا۔ نیٹو سپلائی کی بندش تو گویا بلی
کی دم پر پائوں رکھنے والی بات تھی اور اس کے بعد امریکہ کو اسامہ کی خبر
دینے والے شکیل آفریدی کی سزا نے بھی امریکہ کو سیخ پاکر دیا اور پاکستان
کے احسانات بھول کر وہ شکیل آفریدی کے احسانات کا بدلہ چکا نے کے لیے میدان
میں آگیا۔ شکیل آفریدی جس نے اپنی قوم اور قبیلے کی سرفروشانہ روایات کے
خلاف غداری کا مکروہ فعل سرانجام دیا اور پختون قوم کا سر جھکادیا ہے
امریکہ کا منظور نظر ہے اور وہ اسے بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔دراصل یہ
ایک شکیل آفریدی کا معاملہ اور مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکہ کے پھیلائے ہوئے
بے شمار ایجنٹوں کا ہے اگر وہ ایک شخص کو استعمال کر رہا تھا تو یقینا اس
نے اس طرح کے ضمیر فروش غداروں کا جال بچھا یا ہوا ہوگا ۔ بدنام زمانہ سی
آئی اے جس کا کام امریکہ کا دفاع کم اور دوسرے ممالک میں عدم توازن اور
بگاڑ پیدا کرنا زیادہ ہے فی الوقت پاکستان اُس کا پسندیدہ ترین شکار ہے اور
یہاں وہ بڑی تند ہی سے مصروف عمل ہے۔ امریکہ شکیل آفریدی کو کھلم کھلا
بچانے کی کوشش کر رہاہے اور اس کی سزا پر اعتراض کر رہا ہے جبکہ خود وہ
امریکہ کے کسی چوک میں پٹاخہ پھاڑنے والے کو بھی غدار اور ملک دشمن قرار دے
کر کئی کئی دہائیوں کی قید کی سزا سناتا ہے۔ اس شخص کی موجودہ سزا اس کے
دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں دی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ وہ
انصار الاسلام کے سربراہ منگل باغ کو مدد اور علاج فراہم کرتا رہا ہے اور
اس کی دہشت گرد کاروائیوں میں اس کا معاون رہا ہے۔ جبکہ اسامہ کے کیس میں
وہ اس سے بڑی سزا کا مستحق ہے غداری کی سزا تینتیس سال قید سے کہیں بڑھ کر
ہونی چاہیے تھی۔ امریکہ کا یہ موقف بھی سراسر غلط ہے کہ ڈاکٹر شکیل نے دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مدد کی ہے اور چونکہ پاکستان اس جنگ میں ہمارا
اتحادی ہے اس لیے اُس نے کوئی غداری نہیں کی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اُسے
پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کا علم تھا تو اس نے اس کی خبر حکومت پاکستان
کو کیوں نہ دی اور امریکہ کو پاکستان کے اندر حملہ کرنے میں اور ہدف تک
پہنچانے میں مدد کیسے فراہم کی ۔کیا امریکہ اپنے خلاف کسی ایسی مخبری کو
امریکہ کے حق میں گردانے گا۔ جبکہ اسی جرم کی پاداش میں اُس نے پاکستان کی
تینتیس ملین ڈالر کی امداد بند کر دی ہے امریکہ کے انہی دوہرے معیاروں نے
اُسے قابل نفرت بنایا ہوا ہے وہ جس قیمت پر ہمیں امداد دیتا ہے وہ تو اس
نقصان کی تلافی بھی نہیں ہے جو ہم اُس کی وجہ سے اٹھا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ
ہمارے ٹی وی چینلز بھی یو ایس ایڈ کے اشتہار بڑی باقاعدگی سے دکھا رہے ہیں
کہ شاید امریکہ کے بارے میں پاکستانیوں کے خیالات بدل جائیں جبکہ یہ تبھی
ممکن ہے جب امریکہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور پاکستان کو اپنا غلام
اور محکوم سمجھنے کی بجائے اسکے عوام کو برابری کی بنیاد پر اپنا دوست
سمجھے۔ دہشت گردی کی جو مصنوعی اور نام نہاد جنگ امریکہ نے بر پا کر رکھی
ہے اس میں ہر ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھنا چھوڑ دے اور تعلقات
پاکستان سے رکھے شکیل آفریدی جیسے غداروں سے نہیں اور یہ بھی نہ ہو کہ جب
اسکی مرضی کے خلاف کوئی کام ہو تو فوراََ پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع
کردے، اس کی خود مختاری کو مذاق سمجھے اور ہر روز ڈرون آکر اسکے شہریوں کو
ہلاک کرے ۔ اگر وہ اپنا وطیرہ بدل دے تو پھر یو ایس ایڈ کے اشتہارات کی
ضرورت ہی نہ پڑے ۔ بلکہ بات امریکہ کے سفارتی آداب کی تعلیم کی بھی ہے تاکہ
اُسے معلوم ہوسکے کہ دوسرے ممالک سے تعلقات کس طرح رکھے جاتے ہیں اور اس کی
سرحدوں کا احترام کس طرح کیا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ امریکہ کی دیدہ
دلیری میں ہمارے حکمرانوں کی شہہ اور خودغرضی بہت بڑا عنصر ہے اور شکیل
آفریدی جیسے ایجنٹوں کے نپنے میں ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کمزوری بھی شامل
ہے کہ ایک نام اور مقام رکھنے کے باوجود ان کی نظر ان لوگوں پر کیوں نہ پڑی
اور کیا اب بھی وہ ایسے تمام لوگوں کی نشاندہی کرنے کے قابل ہیں اگر نہیں
تو انہیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہیے اور ان ملک دشمنوں اور امریکہ بلکہ
کسی بھی دشمن کے کارندوں پر ان کی کڑی نظر ہونی چاہیے ۔ بہر حال پاکستان کو
امریکہ کو سخت الفاظ میں بتا دینا چاہیے کہ شکیل آفریدی چونکہ پاکستانی
شہری ہے لہٰذا اُسے سزا دینے یا نہ دینے کا حق صرف پاکستان کو ہے اور چونکہ
وہ طے شدہ غدار ہے لہٰذا وہ اس سے بھی بڑی سزا کا مستحق ہے جو اُسے دی گئی
ہے۔ |