پاکستان میں معاشی بدحالی صرف عوام کا مقدر کیوں؟

اقتصادی سروے 2011-12ء کے مطابق گزشتہ سال معاشی، سروسز صنعتی اور دیگر شعبوں میں اہداف حاصل نہ ہو سکے۔ مہنگائی 10.8فیصد رہی حکومتی قرضے بڑھے،سرمایہ کاری اور معاشی ترقی ہدف سے کم رہی،زرعی شعبے کی پیداوار 3.1 فیصد رہی۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے بتایا کہ خدمات، قومی بچت، کرنٹ اکاؤنٹس اور بجٹ خسارہ کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔طاقتور ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔یعنی دوسرے الفاظ میں وزیر خزانہ نے عوام کو معاشی تباہی کا تسلسل جاری رہنے کی ”نوید“ سنائی ہے اور حکومت عوام کو معاشی بد حالی عطا کرتے ہوئے خود کو یہ کہتے ہوئے بری الذمہ قرار دیتی ہے کہ ” تیری بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں“۔وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے،حکومتی اخراجات دس فیصد کم کئے ہیں۔مہنگائی عالمی مسئلہ ضرور ہے لیکن کرپشن،اقرباءپروری،بدکرداری پاکستان کے مسائل ہیں۔وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایا کہ ملک میں کرپشن اور اقرباءپروری میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

دنیا کا ہر ملک عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی و اختیار کو مقدم ٹھہراتے ہوئے وجود میں آتا ہے اور اکثر ملکوں میں یہی عوامی مفاد ملکی پالیسیوں میں حاوی رہتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں اعلی حکومتی عہدیداران کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی تو دور قاعدے ،ضابطے کی معمولی خلاف ورزی کو بھی درگزر نہیں کیا جاتا۔پاکستان کے قیام میںعوامی فلاحی ریاست کا تصور حاوی رہا۔عوامی فلاح و بہبود کے زریں اصول تو دور ،پاکستان میں عوام کو بے توقیر شے بنا کر رکھ دیا گیاہے۔ کلہن نے اپنی معروف عالم کتاب” راج ترنگنی “ میں مشہور ومقبول کشمیری حکمران للتہ دتیہ کی بتائی گئی کسی بھی معاشرے کی تباہی کی وجوہات بیان کی ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب معاشرہ میں سماجی،معاشی معاملات طبقات کے اندر ہونے لگے تو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ہمارے ملک میں تو ملک کے وسائل سرکاری ،حکومتی،فوجی افسران و اہلکاران کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے مخصوص ہیں،اور اس کا تمام بوجھ عوام پر کسی گدھے کی طرح لاد یا جاتا ہے،اب بوجھ اٹھانے والے گدھے کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں یا اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،گدھوں کی کمی نہیںاورناکارہ ہو جانے والے گدھے کی زندہ ہی کھال اتار لی جاتی ہے۔عام شہری کی ملک میں حالت ایسی ہے کہ جیسے کسی کو کند چھری سے ذبح کیا جائے،عوام کا کرب اس سے کسی طور مختلف نہیں۔ عام شہری تو قیام پاکستان کی جدوجہد کے وقت ”آدھی روٹی آدھا پیاز“ کھاتا تھا اور ساڑھے چھ عشرے گزر جانے کے باوجود اس کی حالت تقریبا ً ویسی ہی ہے۔

یہ سوالات ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں ابھرتے ہیں کہ اگر ملک کی معاشی حالت (جس کی تمام تر ذمہ داری بھی انہی مراعات یافتہ سرکاری،فوجی ،حکومتی افسران و اہلکاران پر عائد ہوتی ہے)اتنی خراب ہے تو اس کا بوجھ اکیلے عوام ہی کیوں اٹھائیں؟ملک کے اکثر محکموں،اداروں میں کام کرنے والے افراد اور عام شہریوں کے معیار زندگی میں زمین و آسمان جتنا فرق کیوں؟ سرکاری ،فوجی اورحکومتی افسران و اہلکاروں کو ہر سال مراعات میں اضافہ کیوں؟ عام شہری اور ان سرکاری تنخواہ داروں کے معیار زندگی میں اتنا فرق کیوں؟سیمی گورنمنٹ،مکمل خود مختار محکموں ،اداروں میں شاہانہ اخراجات و مراعات کیوں؟ان کی زندگی کا معیار کسی یورپی ملک کے شہری سے بہتر کیوں؟خصوصا اس صورتحال میں کہ جب سرکاری و حکومتی سطح کی کرپشن ،اقرباءپروری،بد انتظامی،بد کرداری سے پاکستان کے عام شہری کو حقوق ،اختیارات اور عزت سے محروم کرتے ہوئے ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جا رہا ہے۔ملک کے عوام کی معاشی حالت بد سے بدتر ہو تو پاکستان کے کئی اداروں،محکموں کے افسران و اہلکاران کو شاہانہ طرز زندگی دینے والی مراعات کیوں؟کیا پاکستان سرکاری،فوجی اور حکومتی افسران و اہلکاروں کے معاشی مفادات کو مقدم قرار دینے کے لئے بنا تھا؟اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ پاکستان میں عوام کو سب سے ادنی ،مجبور و بے کس بنا دیا گیا ہے جبکہ بدحال ملک کے سرکاری،حکومتی،فوجی افسران و اہلکاران کسی یورپی ملک کے باشندوں کی طرح کی ’لائف انجوائے‘ کر رہے ہیں۔

عوام سے ان کی کمائی کا غالب حصہ یوٹیلیٹی بلوں کی مد میں واپس لے لیا جاتا ہے اور گراں بلات ادا کرنے کے بعد عوام کی بڑی تعداد روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں رکھتی۔واپڈا لاکھوں ،کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کراتے ہوئے عوام کو کہتا ہے کہ ”بجلی چوروں کی وجہ سے اس کا بوجھ آپ کو اٹھانا پڑتا ہے لہذا شہری بجلی چوروں کی نشاندہی کریں“ ۔واپڈا اپنے اشتہاروں میں یہ بھی بتاتا ہے کہ بجلی کے اربوںروپے کے واجبات نادہندگان کے ذمے بقایا ہیں۔ جبکہ عوام تو یہ دیکھتے ہیں کہ دوسری مہینے بجلی بل جمع نہ کرانے پر واپڈا کے اہلکار بجلی کا میٹر اتارنے پہنچ جاتے ہیں ۔کتنا معصوم ہے واپڈا کہ اسے بجلی چوروں کا علم ہی نہیں،کیسے”عظیم“ لوگ ہیں وہ جو واپڈا کے اربوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں اور ”بیچارہ واپڈا ان کی نشاندہی بھی نہیں کر سکتا۔ہر سال واپڈا کے اربو ں روپے ہڑپ کرنے والے اور بجلی چور یقینا عوام /عام شہری نہیں ہو سکتے ،گھروں میں بجلی چوری کی اتنی تعدا نہیں جتنی بڑی مقدار میں صنعتی،کمرشل شعبوں میں بجلی چوری ہوتی ہے۔یہی حال پاکستان کے اکثر اداروں ،محکموں کا ہے جو ’ریاست کے اندر ریاست ‘ کی طرح اپنی اپنی بادشاہتیں سجائے بیٹھے ہیں۔

ایک اخبار مسلسل عوام کو تلقین کرتا ہے کہ ”روکھی سوکھی کھا ٹھنڈا پانی پی ، غیرت مند قوم کا فرد بن کر جی“۔یعنی اس اخبار کی صحافت عوام کو یہ کہتی ہے کہ سرکاری،حکومتی ،فوجی افسران و اہلکاران کے شاہانہ اخراجات ،شاندار معیار زندگی پورا کرنے کے لئے عوام روکھی سوکھی کھائیں اور ساتھ پانی پی کر دل میں یہ تصور کر لیں کہ انہوں نے ”غیرت مند قوم “ کے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ سرکاری،حکومتی ،فوجی افسران و اہلکاران کی پالیسیوں نے ہی آج پاکستان کو بدحالی کے اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ہر کوئی اس کے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں تبصرے کررہا ہے۔ اس جملے کے خالق کو شاید یہ معلوم نہیں کہ عوام روکھی سوکھی کھانے اور ٹھنڈے پانی سے بھی محروم ہو رہی ہے۔اب معلوم نہیں کہ بدتنظیمی ، بدکرداری پر مبنی معاشی بد حالی کے ذمہ داران کے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کو ہی ”قومی غیرت“ قرار دینے کے لئے اور کون کون سے نعرے تخلیق اور مشتہر کئے جائیں گے۔نظرئیہ پاکستان کا مطلب عوام کو مقدم،باعزت قرار دینا ہے،عوام کو محکوم اور سرکاری تنخواہ داروں کو با عزت و اعلی معیار عطا کرنا نہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699423 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More