انسان کی تخلیق کی گئی۔ اسے دانش
نورانی عطا کر کے شرف و فضیلت بخشا گیا۔ انسانیت کو ایک جامع رہنمائی کی
ضرورت تھی اس کے لیے انبیا بھیجے گئے۔ انبیا ے کرام نے خالق کائنات کی
معرفت و پہچان کروائی۔ اللہ کی عبادت کی ترغیب دلائی۔ مالک حقیقی کی بارگاہ
میں جبینوں کو خم کروا کر وقارِ انسانیت کو بلند کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے
کہ باطل کو حق کی راہ کھٹکتی رہی ہے اور ابلیسی ذہنیت نے اغواے فکر کا کوئی
لمحہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
انبیائے کرام نے اپنی اپنی قوم کو حق کی تلقین کی اور ہدایت و احکام الٰہی
کے پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔ جس کا لب لباب یہ تھا ”قوانین الٰہی کی
اطاعت پر مائل کرنا“ اس سے سرکشی کرنے والوں کی جماعت ہر دور میں سرگرم رہی
ہے جسے طاغوتی گروہ کہا گیا ہے۔ اقصاے عالم میں دلوں کی دنیا اسلام کی دعوت
سے جب لالہ زار بن گئی تو یہ ہریالی طاغوتی گروہ ”یہود و نصاریٰ“ کو ایک
آنکھ نہ بھائی۔ پہلے پہل تو وہ سب منظم ہو کر اسلام کے مقابل صف آرا ہو گئے
لیکن صداقت کے آگے ٹک نہ سکے پھر سازشوں کا سہارا لیا۔ درپردہ حملہ کیا۔ ان
کی شورش کی کئی سمتیں تھیں: تہذیبی، تمدنی، ثقافتی اور فکری و معاشرتی۔
پچھلی کئی صدیوں سے اسلام دشمن قوتیں پروپیگنڈے کے سہارے اسلام کے سیل رواں
پر بند باندھنا چاہتی ہیں اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ غلط فہمیوں کی تشہیر
کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کیا بلکہ بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی
غلط فہمی میں مبتلا ہو بیٹھے۔ اور آج کے وقت میں اسلام کو شدت پسندی سے
معنون کیا جا رہا ہے۔ اسے دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام دیا جا رہا ۔
ماضی کے ایک یورپی مفکر اور دانش ور جارج برنارڈشا کو بھی اسی طرح کا
مغالطہ تھا۔ 17 اپریل 1935ءکو عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی
رضوی نے جنوبی افریقہ کے مقام ممباسا میں جارج برنارڈشا سے مکالمہ کیا اور
اسلام کے تئیں اس کی غلط فہمیوں کا عقلی و معروضی دلائل سے ازالہ کیا، اس
ملاقات میں برنارڈشانے آپ کی ایک یوم قبل کی دعوتی تقریر کا حوالہ دیتے
ہوئے کہا: ”مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی مصروفیات کے سبب گزشتہ شب آپ کا
لیکچر نہ سن سکا۔ حالاں کہ مجھے آپ کو سننے کا خاصہ اشتیاق تھا۔ آپ نے
”فلسفہ امن“ پر تقریر کی حالاں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کے لیے زیادہ
مناسب یہ تھا کہ آپ ”فلسفہ جنگ“ پر روشنی ڈالتے کیوں کہ اسلام بلا شبہہ
تلوار کی نوک سے پھیلا۔“
علامہ شاہ عبدالعلیم رضوی نے برنارڈشا کو کہا:”اسلام کے بارے میں یہ غلط
فہمی عام ہے۔ کل رات ہی میں نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی تھی اور مجھے یہ
دیکھ کر تعجب ہے وہ داستان جس کا جھوٹ اب بے نقاب ہو چکا ہے آپ جیسے اہل
علم کی زبان پر آئی ہے۔ تاہم مختصراًمیں یہ عرض کرتا ہوں کہ اسلام کے لفظی
معنٰی خود امن کے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا مصدقہ ریکارڈ اپنی پوری صحت کے
ساتھ قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے جوواضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیںکہ
اسلام میں تلوار کا استعمال اس صورت میں جایز ہے جب مسلمان پر حملہ کیا
جائے اور انھیں اپنے دفاع میں تلوار اٹھانی پڑے۔ علاوہ بریں قرآن صاف طور
پر کہتا ہے: لَآ اِکرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَالغَیِّ
”کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہو گئی ہے نیک راہ گم راہی سے“
(سورة البقرة:256؛کنزالایمان)
قرآن کی یہ آیت مذہبی معاملات میں کسی قسم کی طاقت یا دباؤ کے استعمال کو
ممنوع قرار دیتی ہے ....اسلام اپنی تبلیغ کا جو راستہ بتاتا ہے اور جس کی
وجہ سے یہ ساری دنیا میں پھیلا ہے وہ قرآن کی زبان میں یوں ہے: اُدعُ اِلٰی
سَبِیلِ رَبِّکَ بِالحِکمَةِ وَ المَوعِظَةِ الحَسَنَةِ وَجَادِلھُم
بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ”اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی
نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو“ (سورة
النحل:125؛کنزالایمان)
تاریخ اس حقیقت کی شاہدہے کہ 335ءمیں قسطنطین کی بلائی ہوئی ”کونسل آف
نائسس مین“ حضرت عیسیٰ کو قراردیا گیا تھا اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس
عقیدے کو مسلط کرنے کے لیے نہ صرف یورپ بلکہ بیت المقدس میں ہزاروں بے
گناہوں کو قتل کر دیا گیا تھا، جنھوں نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کر دیا
تھا، مگر میں اس کا ذمہ دار مسیحی عیسائیت کو نہیں ٹھہراتا تاہم ان باتوں
کے ذمہ دار چرچ کے وہ نمائندے ہیں جو اپنی طاقت اور بڑائی کے ذریعے ان کے
دل جیتنا چاہتے تھے۔“ (تبرکات عالمی مبلغ اسلام، ص457 تا 459)
برنارڈشا کہتا ہے کہ: ”یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اسلام کے بارے میں
بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور اسے غلط طریقے پر پیش کیا جاتاہے۔“(مرجع
سابق،ص461) ان کلمات کا پہلا پہلو تو مغربی قوتوں کی سازشوں سے تعلق رکھتا
ہے اور دوسرا پہلو ان نام نہاد موحدین سے جو خود کو اسلام کا علم بردار
کہتے ہیں اور دہشت گردی کو بڑھاوا دے کر اسلام کے مخالفین کے قدموں کو
مضبوط کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس طرح وہ جہاد جیسی مقدس اصطلاح کو بھی بد نام
کر رہے ہیں۔ لشکر طیبہ، جیش محمد، حرکت المجاہدین، حزب المجاہدین، حزب
التحریر(HT)، اخوان المسلمین اور اس طرح کی دوسری نام نہاد دہشت گرد
تنظیمیں جس طرح سے اسلام کو پیش کر رہی ہیں وہ سراسر اسلامی تعلیمات کے
منافی طریقے ہیں، در اصل یہ تنظیمیں شعوری اور لا شعوری طور پر اسلام دشمن
قوتوں کے لیے کام کر رہی ہیں، صہیونیت کے دست و بازو کو مضبوط کر رہی ہیں،
انھیں پروپیگنڈے کا موقع فراہم کر رہی ہیں اور میڈیا ان کے کرتوتوں کو
اسلام کے سر تھوپ کر منفی فضا ہم وار کر رہا ہے۔ حالاں کہ ان کے عمل اور
عقائد ہرگزاسلامی نہیں، ان کا رشتہ ¿ فکر شاتمان رسول سے ملتا ہے۔ اسلام
میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں
ملتا کہ انسانیت کاسہاگ مسلمانوںنے لوٹا ہو یا کسی کا خون بلا سبب بہایا
ہو۔ اسلام پوری انسانیت کو حق کی تعلیم دیتا ہے، اور ایسے اسلوب میںجو
سنجیدہ ہے اور عقل اس کی تائید بھی کرتی ہے، امام شرف الدین بوصیری
رحمةاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
لَم یَمتَحِنَّا بِمَا تَعیَی العُقُولُ بِہ
حِرصًا عَلَینَا فَلَم نَرتَب وَلَم نَہِم
ترجمہ: انھوں نے ہماری بھلائی کے پیش نظر ایسے دین اور شریعت سے ہمیں
امتحان میں نہ ڈالا جس کے فہم سے عقلیں عاجز ہوں، یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شک
اور وہم کاشکار نہ ہوئے۔ (کشف بردہ،از مولانا نفیس احمد مصباحی،ص208)
برنارڈشا کی غلط فہمی عالمی مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم رضوی میرٹھی کی
وضاحت سے دور ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کی صداقت اور ہمہ گیریت کا اعتراف
اپنے ایک تاثر میں یوں کرتا ہے: ”دنیا میں مذہب کا دور ختم ہو رہا ہے لیکن
اس زمانہ میں اگر کوئی مذہب برقرار رہ سکتا ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس میں
عبادت سے کہیں زیادہ سیاست اور معاملات پر زور دیا گیا ہے۔ یہی مذہب فطرتِ
انسانی کے لیے سرمایہ سکون بن سکتا ہے۔ میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ اگر
دنیا کا آیندہ کوئی مذہب ہو گا تو وہ اسلام ہو گا کیوں کہ اس میں بنی نوع
انسان کی مکمل طریقہ پر رہ نمائی کی گئی ہے۔“ (فلاح دین دنیا،ص36)
اور ایک دوسرے مقام پر کہتا ہے: Europ in general and England in
particular will in next half a century accept ISLAM or Religion similar
to ISLAM (Islam an Introduction, p3) یعنی ”یورپ بالعموم اورانگلینڈ
بالخصوص آیندہ نصف صدی میں اسلام یا اسلام سے ملتا جلتا مذہب قبول کر لے
گا۔“ اور جس کے جلوے خوب یکھنے میں آرہے ہیں اوردلوں کی دنیا مسخر ہو رہی
ہے۔ تلاش حق کا سفر طے کرنے والے بالآخر اسلام کی منزل سے ہم کنار ہورہے
ہیں اور یہ عمل بہ تدریج جاری ہے۔
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک |