سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے
ہوا
محترم قارئین کرام ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر پڑھی مجھے بے حد پسند آئی اور
ارادہ کرلیا کہ اس کو ضرور شیئر کرونگا تاکہ آپ بھی اسکو ملاحظہ فرمائیں
اور لطف اندوز ہوں ۔
آج کے سائنسی دور کے اِرتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر
کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی
اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا
سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو
ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ
دعویٰ عالمِ بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالمِ
بیداری میں کی، اس لئے عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ اب چونکہ
جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و اِدراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس
معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ
قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.
(بنی اسرائيل، 17 : 60)
اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے
لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین اُلجھ گئے۔)
بعض لوگ یہ سمجھتے کہ رویا چونکہ عام طور پر خواب کے معنیٰ میں استعمال کیا
جاتا ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج خواب میں عطا
ہوا۔ درحقیقت یہ مفہوم غلط ہے۔ عربی زبان میں رؤیاء رات کے وقت کھلی آنکھوں
سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں اور دورِ جاہلیت کے کئی عرب شعراء کا کلام بھی
اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں رویاء سے مراد مطلق مشاہدہ ہے۔ اس امر کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا :
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا.
(بنی اسرائيل، 17 : 1)
تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔
چونکہ یہ چیز کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھی لہٰذا اللہ رب العزت نے
اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کیا اور فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.
(بنی اسرائيل، 17 : 1)
(کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا
اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔
کفار و مشرکینِ مکہ کا ردِّ عمل ہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی
معمولی واقعہ تھا اور نہ یہ کوئی خواب ہی بیان ہو رہا تھا۔ اگر یہ خواب
ہوتا تو کفار و مشرکین کا ایسا منکرانہ ردِّ عمل سامنے آتا اور نہ قرآن میں
اس کا ذکر اس اہتمام سے ہوتا۔ الشفاء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ میں قاضی عیاض
رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق کے مطابق ان صحابہ رضی اللہ عنہ و ائمہ کرام
رحمۃ اللہ علیہ کو جسمانی معراج پر ایمان رکھنے والا کہا ہے :
و ذهب معظم السلف و المسلمين إلی أنه إسراء بالجسد و فی اليقظة و هذا هو
الحق وهو قول إبن عباس و جابر و أنس و حذيفة و عمر و أبی هريرة و مالک بن
صعصعة و أبی حبة البدری و ابن مسعود و الضحاک و سعيد بن جبير و قتاده و ابن
المسيب و ابن شهاب و ابن زيد و الحسن و إبراهيم و مسروق و مجاهد و عکرمة و
ابن جريج و هو دليل قول عائشة وهو قول الطبری و ابن حنبل و جماعة عظيمة من
المسلمين وهو قول أکثر المتأخرين من الفقهاء و المحدثين و المتکلمين و
المفسرين.
(الشفاء، 1 : 188)
اسلاف اور مسلمانوں کی اکثریت اسراء کو جسم کے ساتھ بیداری میں ہونے پر
ایمان رکھتی ہے اور یہی سچا قول ہے۔ اس قول میں ابن عباس رضی اللہ عنہ،
جابر رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ، حذیفہ رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ
عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ، ابوحبہ البدری
رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ضحاک رضی اللہ عنہ، سعید بن جبیر
رضی اللہ عنہ، قتادہ ابن المسیب رضی اللہ عنہ، ابن شہاب رضی اللہ عنہ، ابن
زید رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، ابراہیم رضی اللہ عنہ، مسروق، مجاہد
رضی اللہ عنہ، عکرمہ رضی اللہ عنہ، ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شریک ہیں
اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے قول پر دلیل ہے اور یہ قول طبری
رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مسلمانوں کی غالب
اکثریت کا بھی ہے اور متاخرین فقھاء محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی
یہی قول ہے۔
انسان ظاہر و باطن کا پیکرِ دلنشیں ہے۔ داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل
تک کا سفر اَن گِنَت مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں
ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا
عکاس ہے۔ باطن کے پانچ لطائف ہوتے ہیں۔ قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی۔ سفرِ
معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک
جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والی
معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ
سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسمِ اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب
مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
جسمِ اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتبۂ قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات
اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ معراج حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔ اصل
بات یوں ہے کہ اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں :
1۔ اُمُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ جس شخص نے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اللہ جل شانہ کو سر کی آنکھوں سے
دیکھنے کا دعویٰ کیا، اس نے کفر کیا۔ اسکو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس
روایت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عن مسروق، قال : سالت عائشة رضی الله عنه عن هذه الآية التي فيها الروية
فقالت : انا اعلم هذه الامة بهذه، وانا سالت رسول الله صلي الله عليه وآله
وسلم عن ذالک قال : رأيت جبرئيل ثم قالت : من زعم ان محمداً رای ربه فقد
اعظم الکذب علی الله.
مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے آیت رؤیت کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے بارے میں اس امت سے بہتر جانتی ہوں۔
میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ
نے فرمایا میں نے جبرئیل کو دیکھا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے
فرمایا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے۔
1. صحيح لمسلم، کتاب الايمان، رقم : 287
2. صحيح البخاری، کتاب بدأ الخلق، رقم : 3062
3. جامع الترمذی، کتاب التفسير، رقم : 3068، 3278
4. مسند احمد بن حنبل، 6 : 49، 50
5. مسند ابی يعلی، 8 : 304، رقم : 4900
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المعجم الکبیر والاوسط میں حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں :
عن ابن عباس رضي الله عنه قال : راي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ربه
عزوجل مرتين مرة ببصره و مرة بفواده.
1. المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564
2. المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757
3. المواهب اللدنيه، 2 : 37
4. نشر الطيب، 55
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ سرکی آنکھوں سے اور
دوسری مرتبہ دل کی آنکھوں سے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید اور اسکی تفصیل باب رؤیت باری
تعالی میں بیان کی جائے گی۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ انہیں مان لیا جائے کیونکہ سر
کی آنکھیں جب تک مرتبۂ جسم پر رہیں، اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے نورِ ذات
کو نہیں دیکھا جا سکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا تو سر
کی آنکھیں مرتبۂ قلب پر فائز ہو چکی تھیں اور جسم رتبے میں دل سے بدل چکا
تھا یعنی کھلی ہوئی تو سر کی آنکھیں تھیں مگر ان کا دیکھنا ایسا تھا کہ دل
دیکھ رہا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے کہا :
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO
(النجم، 53 : 11)
دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔
یہ دل وہی تو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح قلبِ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی تو وہ مرتبۂ روح پر پہنچ گیا یعنی
دل تو پہلے ہی اللہ رب العزت کی محویت میں غرق تھا جب وہ روح کے مرتبے تک
پہنچا تو فنا ہو گیا۔ پھر روح کو سرّ کا درجہ ملا تو وہ فنائے تام کے درجے
تک پہنچی۔ پھر سر ّخفی اور اَخفیٰ کے مرتبے تک پہنچا تو کبھی ’’دَنٰی‘‘ کے
ذریعے مولا کو دیکھا تو کبھی ’’فَتَدَلّٰی‘‘ کے ذریعے قرب کی انتہائیں نصیب
ہوئیں، آخرکار مشاہدہ اپنے کمال کو پہنچ گیا، جسے قرآن مجید میں یوں بیان
کیا گیا ہے :
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO
(النجم، 53 : 13)
اور (اب) انہوں نے وہ جلوہ دوسری بار دیکھا۔
سفرِ معراج میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر لطیفے کو
قربِ الٰہی نصیب ہوا اور وہ دیدارِ الٰہی کی لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا۔ جب
سب مراحل طے پا گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں کرۂ ارضی
کی طرف لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مولا کے قرب اور اس کے دیدار کی لذتیں سما
چکی تھیں۔
سفرِمعراج اپنے تین مراحل میں
1۔ پہلا مرحلہ
سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے۔ یہ زمینی
سفر ہے۔ یہ چونکہ انسانی دنیا کا حصہ ہے اور ذہنِ انسانی میں اس کی تفہیم
نسبتاً آسانی سے ممکن ہے اس لئے اسے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سفر
کے اَحوال، واقعات اور اس کی حقانیت پر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں۔
2۔ دُوسرا مرحلہ
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ ُالمنتہیٰ تک ہے۔ یہ
کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔ یہ چونکہ مخلوق
کی حدود کے اندر تھا لہٰذا اسے بھی بیان کیا مگر تفصیل سے بیان نہیں کیا
کیونکہ یہ پوری طرح ذہنِ انسانی میں آنے والا نہ تھا۔
3۔ تیسرا مرحلہ
سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی
آگے تک کا ہے۔ چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب
اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا۔
سورۃ ُالنجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کر لیں۔
(اب کسی کو اس سے کیا غرض کہ کیا باتیں کیں) جبکہ اس مقام پر فرمایا :
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ نہیں بتایا
کہ دیکھنے اور سننے والا کون ہے؟ اس سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات
بابرکات بھی ہو سکتی ہے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات
بھی ( یہ معنی علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفسیر روح المعانی میں
بیان کیا ہے) گویا اس کے دو معانی ہو گئے :
1۔ بے شک اس مقام پر فقط اللہ ہی تھا جو پیار بھرے انداز میں اپنے محبوب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑا تکنے والا تھا اور جو اپنے حبیب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی زبان سے اس کی عرضداشت سننے والا تھا۔
2۔ بے شک اس مقام پر فقط حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے جو اپنے رب
تعالیٰ کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے
ارشادات اور پیار بھری باتیں سننے والے تھے۔
یہ وہ مقام تھا جہاں سفرِ محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا جس کا
مخلوق سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا لہٰذا ان کے بتانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے
کہ کبھی وہ سننے والا اور یہ سنانے والا تھا اور کبھی یہ دیکھنے والا اور
وہ دیکھا جانے والا تھا۔
یہ معنیٰ امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کی
حکمت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی زبانِ حکمت سے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی تعریف بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ آپ کا مقام کتنا
بلند ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا حال معلوم ہو سکے۔
عارف الراعی فرماتے ہیں :
و إن قابلتْ لفظة لَنْ تَرَانِيْ
بما کَذَبَ الْفُؤَادُ فهمّت معنی
فموسٰی خرّ مغشياً عليه
و أحمد لم يکن ليزيغ ذهناً
ترجمہ :۔ ’’اگر تو لَن تَرَانِي اور مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى کا
آپس میں مقابلہ کرے تو تیری سمجھ میں آ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ موسیٰ بے
ہوش گئے جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمِ اقدس بھی دنگ نہ ہوئی‘‘
۔
(الصاوی علی الجلالين، 4 : 137)
دو کمانوں کا اِستعارہ
محبت اپنی زبان خود تخلیق کرتی ہے۔ اظہارِ محبت کسی لفظ کا بھی مرہونِ منّت
نہیں ہوتا۔ چشمِ بے تاب سارا حال کہہ دیتی ہے۔ محبت کے تقاضوں میں سے ایک
یہ بھی ہے کہ تعلق اتنا گہرا ہو کہ دو کا ذکر کرنا ہو تو اس طرح کیا جائے
جیسے ایک ہی کا ذکر ہے حتیٰ کہ غیریت کا تصور تک مٹ جائے۔ مثلاً قرآن مجید
میں ارشاد ہوتا ہے : ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی، اب اس آیت میں دو افعال ہیں
مگر کسی ایک کے فاعل کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ اب اس میں مختلف صورتیں ممکن
ہیں :
1. دونوں کا فاعل اللہ ہو : اگر دونوں کا فاعل اللہ ہو تو مفہوم یہ ہو گا
’’پھر اللہ قریب ہوا، پھر اللہ مزید قریب ہوا‘‘ ۔
2. دونوں کا فاعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا جائے : اس صورت
میں معنیٰ یہ ہو گا ’’پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب ہوئے، پھر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید قریب ہوئے‘‘۔
3. دَنٰی کا فاعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور تَدَلّٰی کا فاعل
اللہ رب العزت کو بنایا جائے :
یہ معنی زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلا قرب تو آنے والا خود ہی چاہتا
ہے مگر مخلوق کو محدود ہونے کے سبب سے کسی نہ کسی حد پر رک ہی جانا تھا۔ سو
باقی رہنے والے فاصلے کو مٹانے کے لئے اور قرب کی حدوں کو توڑ دینے کے لئے
اللہ آگے بڑھا کہ جو غیر محدود ہے۔
اس کی تائید امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی ہوتی
ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے پہنچے تو ربِ کائنات نے ارشاد
فرمایا :
قف يا محمد! إن ربک يصلی.
(اليواقيت و الجواهر، 2 : 35)
ٹھہر جاؤ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بیشک تمہارا رب قریب ہوتا ہے۔
صَلّٰی، یُصَلِّيْ کا معنی قریب ہونا صاحبِ ’’الصَّلٰوۃ و البُشر‘‘ نے بھی
لیا ہے۔
اب رہی بات یہ کہ اللہ کس قدر قریب ہوا تو اس کا جواب اس آیت کریمہ سے
بخوبی ملتا ہے۔ فرمایا :
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO
(النجم، 53 : 9)
پھر دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم رہ گیا (جس کی کوئی حد
معلوم نہیں)۔
ایک لطیف نکتے کی وضاحت
دوئی کے مٹانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ توحید و رسالت کا تعلق ایسا ہے کہ
دو کو مانا جائے مگر دونوں میں ایسی دُوئی جو غیریت کا مفہوم رکھتی ہو اُسے
تسلیم نہ کیا جائے۔ گویا جس طرح دو ہونے کا انکار کرنا کفر ہے اس کی طرح
دُوئی کو بدرجۂ غیریت ماننا بھی کفر ہے۔
تمثیل کا ثقافتی پس منظر
جزیرہ نمائے عرب میں ظہورِ اسلام کے وقت اگرچہ کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔
سیاسی اور جغرافیائی وحدت کا تصور عملاً مفقود تھا، تاہم قبائلی رسم و رواج
کی پابندی کی جاتی۔ عربوں کا ایک اپنا مزاج تھا جس نے ان کی ثقافتی اِکائی
کو بڑی حد تک زمانے کی دستبرد سے محفوظ رکھا۔
عربوں کا ایک طریقہ تھا کہ جب دو قبیلے آپس میں ملتے اور معاہدہ کر کے یک
جان دو قالب ہونا چاہتے تو فریقین اپنی کمانوں کو آپس میں بدلتے اور پھر
ملا کر تیر پھینکتے تو یہ تصور کیا جاتا کہ ایک کا پھینکا ہوا تیر دوسرے کا
ہے اور دوسرے کا پھینکا ہوا تیر پہلے کا ہے۔ ایک فریق کی دوستی دوسرے فریق
کی دوستی ہے اور ایک کی دشمنی دوسرے کی دشمنی ہے۔ گویا قاب قوسین کی مثال
دے کر اللہ رب العزت یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں جس نے اللہ سے تعلق جوڑنے
کا ارادہ رکھا اسے چاہئے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ
رحمت سے لپٹ جائے اور جس کسی نے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
(معاذاللہ) بغض رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں (نعوذ باللہ)
تنقیص کی جسارت کی، اللہ نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
معراج بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے۔ یہ معجزہ
براہِ راست اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عظمت، رفعت اور حقیقت کسی بھی فردِ بشر کی سمجھ بوجھ، عقل و خرد اور فہم و
فراست کی پرواز سے بلند اور بہت ہی بلند ہے حتیٰ کہ کسی کے لئے اس کا تصور
بھی ممکن نہیں |