12جون محنت کش بچوں کا عالمی دن

مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون۔۔۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
بچپن کی یادوں میں ایک مٹھاس سی ہوتی ہے جو زندگی کے ساتھ ساتھ ایک مٹھا س سی جوڑے رکھتی ہے ،یہ وہ حسیں یادیں ہوتی ہیں جن کیلئے ہر ایک کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہ بچپن کے دن پھر سے لوٹ آئیں جب سوچیں پاکیزہ اور بے لوث ہوا کرتی تھیں ،زندگی کی رفتار کتنی تیز ہو گئی ہے،اب بچوں میں بھی وہ بچپنا نظر نہیں آتا شاید یہ جدید ٹیکنالوجی کی خرابی ہو کمال ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ بچوں کو بچابن کہ ہی رہنا چاہیے۔شادیوں ،بیاہوں اور دیگر تقریبات کی اصل جان یہی بچے ہی ہوتے ہیں جو بھرپور اہتمام کے ذریعے پروگرامات میںشرکت کرتے ہیں ورنہ اب اکثر لوگ تو صرف رسم و رواج کو نبھانے کیلئے پراگرام میں اپنی حاضری لگوانا ہی ضروری سمجھتے ہیں ۔لیکن یہ کیا۔۔۔۔ہوٹلوں ،ورکشاپوں،ڈھابوں،کوٹھیوں،گاڑیوں کے اڈووں،چوکوں و چوراہوں و دیگر مقامات پر یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے ۔۔!کوئی دیکھنے والا نہیں ۔۔سب اندھے و بہرے ہیں جیسے۔۔شاید اپنے گھر میں بچے نظر نہیں آتے۔۔۔نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ،یہاں دیکھنے و سننے والے بھی بے شمار ہیں ،سب کے اپنے گھروں میں بچے بھی ہیں لیکن اگر نہیں ہے تو اب احساس نہیں ہے ،اخلاق نہیں ہے،سب سے بڑھ کر اگر کوئی کمی ہے تو دلوں میں اسلام و مسلمانیت کے درس کی کمی ہے،ذہن محدود کر دیئے گئے ہیں۔ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے کہ پورا معاشرہ انہیں ''چھوٹا'' کہہ کر پکارتا ہے ،ان معصوموں جو بعد میں مجبوریوں و حالات کی مار کی وجہ سے معاشرے پر الگ الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں ،ان میں سے اکثریت معاشرے پر اچھا اثر نہیں چھوڑ پاتے جبکہ کہیں شاذ ہی کوئی مثبت اثر چھوڑتا ہے ۔

دنیا بھر کی طرح 12جون کو وطن عزیز میں بھی محنت کشوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،پورے ملک میں مختلف این جی اوز،کالجز ،سکولز،یونیورسٹیز،سول سوسائیٹی و سماجی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقریبات کااہتمام کیاجاتا ہے تا کہ محنت کش بچوں کہ مسائل کوحکومت و دیگر ذمہ داران تک موثر طریقے سے پہنچایا جا سکے ، ایک بین الاقوامی ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 10لاکھ بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دنیا بھر کے مسائل کے حل کیلئے کو ششیں کرنے کی دعوےدار اقوام متحدہ کے چائلڈ لیبر کے خلاف چارٹرڈ پر 182 ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں ،پاکستان میں غربت ،بے روزگاری و مہنگائی نے غریب بچوں سے اسکولوں کو اتنا دور کر دیا ہے کہ ان کیلئے تعلیم ایک خواب ہی بن کر رہ گئی ہے ،ان مسائل کے بڑھنے میں حکومتوں کی نااہلی اپنی جگہ لیکن پرائیویٹ سیکٹر نے جہاں معیاری تعلیم کو فروغ دیا وہاں تعلیم کو اس قدر مہنگا کر دیا کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولادوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں وہاں غریب خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں یا تعلیم کی پیچھے دوڑ لگائیں ۔۔!ان معصوم بچوں سے بوٹ پالش کے کام سے لے کر ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ،گاڑیوں کی کنڈیکٹری،بھٹہ خانوں،سی این جی اور پٹرول پمپوںپر گاڑیوں کے شیشے صاف کروانے سمیت دیگر بہت سے ایسے کام 50یا 100روپے کی دیہاڑی میں کروائے جاتے ہیں جن سے ان کی عزت نفس پر بھی برا اثر پڑتا ہے ،اخلاقیات میں بھی فرق پرٹا ہے اور ان کی کارکردی بھی متاثر ہوتی ہے ۔چائلڈ لیبر کے قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے سزا نہیں سنائی گئی ۔یہاں یہ سوال ا ±ٹھتا ہے کہ کیا ایسے قانون کو آئین سے ختم ہی نہیں ہو جانا چاہیے جس پر کبھی عمل ہوا بھی نہیں۔۔۔؟مالکان اور والدین کی بچوں سے جبری مشقت معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے لیکن اس کا کبھی سد باب نہیں کیا گیا ،آخر اس معاملے میں بھی کیا یہی انتظار کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری لاپتہ افراد کی کیس کی طرح سو موٹو ایکشن لیں گے۔۔!کیا وہ ملکی و غیر ملکی این جی اوز جو بچوں کی صحت و فلاح وبہبود پر سالانہ لاکھوں ڈالر پر اپنے ملازمین پر خرچ کرتی ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فائل ورک سے باہر نکلیں اور عملاً کام کریں ،انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جو دعوے کرتی ہیں کہہم پاکساتن و آزاد کشمیر کی ہر یونین کونسل میں اپنا وجود رکھتی ہیں اور ملکی و غیر ملکی امداد ہڑپ کر جاتی ہیں لیکن یہ تنظیمیں کسی معاملے میں بھی ایکٹو نظر کیوں نہیں آتی ۔۔۔!شاید انہوں نے بھی یہاں اپنا بزنس بنا رکھا ہے،مارکیٹنگ کا اصول اپنا کر لوگوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کا نام استعمال کر کہ لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ غریب والدین اپنے بچوں کوکوٹھیوںہوٹلوں،فیکٹریوںاور دیگر مقامات پر چھوڑ جاتے ہیں اور مہینہ کے آخر میں مالکان سے وصولی کرنے آ جاتے ہین انہیں اپنی الاد سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی بلکہ پیسے کی بھوک ان کیلئے سب کچھ بن جاتی ہے ،کچھ کیسسز ایسے بھی سامنے آتے ہین کہ کسی حادثے میں بچے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں اور معاشرے کی ٹھوکریں ان کا مقدر بن جاتی ہیں ،کچھ ماہ قبل ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا ،شیخ زید ہسپتال راولاکوٹ میں ایک نوجوان کے بارے میں مجھے اطلاع دی گئی کہ وہ مظلوم ہے اس کی دادرسی نہیں کی جارہی اور ہے بھی غیر مقامی ،میں نے ساتھیوں کے ہمراہ اس سے ملاقات کی ،معلومات لیں اور میڈیا میں لے گئے ، بچے کے بیان کے مطابق 2005 ءمیں قیامت خیز زلزلہ میں مظفر آباد سے شاہد کاظمی راولاکوٹ پہنچا،راولاکوٹ کے ایک مقامی بااثر آدمی گھر لے گیا اس سے محنت مزدری کروائی ،مناسب کھانا پینا نا دیا گیا جبکہ اس سے مشقت کے کام لیے گئے بچہ بیمار ہوا تو اس کو چیک اپ کیلئے خود نا لایا گیا،ہسپتال میں بچے کو اعلاج کیلئے کوئی مددر گار نہ تو ہسپتال عملے میں سے کسی خدا ترس نے اعلاج میں مدد دی ،معاملہ میڈیا میں آیا تو لوگ بہت سے لوگ حرکت میں گئے ،متعلقہ بااثر لوگ میری تلاش میں نکل آئے ،دھمکیوں کے پیغامات مجھ تک پہنچائے گئے لیکن تب تک شاید کافی دیر ہو چکی تھی کیونکہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دیگر بہت سے لوگ میدان میں آچکے تھے ۔آزاد کشمیر کے ریاست اخبارات نے اس بچے کی ستوری کو کاص کوریج دی، لیکن آکری اطلاعات تک بچہ ابھی انصاف کی تلاش میں ہے، ایک سوال اور اٹھتا ہے کہ معاملہ میڈیا میں بھی عروج پکڑ گیا لیکن یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے میں بھی بااثر لوگوں کو دیکھ کر کیوں خاموش ہیں ۔۔!اس طرح کے واقعات ہر دوسے دن میڈیا میں سامنے آرہے ہیں لیکن یہ معاملات کنٹرول میں نہیں آرہے شاید قوم و اس کے محافظ ہی نہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خواب کرگوش کے مزے لے کر سو رہی ہیں ۔

دوران سروے دیکھنے میں آیا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے تنگ ہو کر بھاگ نکلتے ہیں،یہ بچے آوارہ لڑکوں کے ساتھ مل کر چھوٹے موٹے جرائم میں مبتلاءو جاتے ہیں ،سگریٹ کے منشیات کی طرف نکل جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ کچھ بچے گداگری کے دھندے میں پھنس جاتے ہیں ،بچوں سے محنت مشقت بھی لی جاتی ہے لیکن انہیں معقول اجرت نہیں دی جاتی گھریلو ملازمین کے حو الے سے ہمارے قانون میں کوئی حدود تک نہیں رکھی گئی ہیں ،یہی بچے جب بڑے گھروں سے کچھ لے کر نکل جاتے ہیں تو ایک اسکینڈل کی صورت اختیار کر جاتے ہیں،چائلڈ لیبر کی وجہ سے چوریوں و دیگر جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ درست ہے کہ ملک کے اندر مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہوتا ہے لیکن یہ بھی جائز نہیں ہے یہاں معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم ،صحت اور خوراک کیلئے ان کے والدین کی سپورٹ کی جائے ،والدین کو ترغیب دی جائے کہ وہ صرف اولادیں پیدا کرنے پر زور نہ دیں بلکہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان کی تعلیم پر توجہ دی جائے تا کہ کل جب یہی بچے بڑے ہوں تو انہیں اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے شرمندگی نہیں اپنی محنت پر فخر ہو ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59248 views Columnist/Writer.. View More