امریکی انتظامیہ نے دنیامیں مذہب
اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی جو مہم چھیڑ رکھی ہے۔ وہ
افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ اسلامی حلیہ میں مسلمانوں کو دھشت گرد
قرار دیکر ان کو میڈیا سے مشتہر کرنایہ مذہب اسلام کو بدنام کرنے کی منظم
تحریک ہے۔ ان کے اس عمل سے مسلم دنیا اپنے اوپرایک بڑا حملہ تصور کرتی
ہے۔ان کا اس طور پر وہ لوگ مذہب اسلام و مسلمانوں پر خوف ناک حملہ کرتے ہیں۔
غیرمسلم عالمی رائے عامہ کی خوشنودی کیلئے یہ باور کراتے ہیں کہ وہ مذہب
اسلام پر حملہ آور ہیں۔ان کا تشہیری عمل اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔کہ ان کی
ان حرکتوں سے مسلم دنیا عرصہ دراز سے ایک اضطرابی کیفیت میں مبتلہ ہے۔ان کا
یہ بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے کہ ان کی جانب سے کہ مسلم ملکوں میں کرایہ کے
پُر تشدد احتجاج کی حمایت میں سلسلہ وار اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ دکھ
کی بات یہ ہے کہ جس مسلم ملک پر اقوام متحدہ کی آڑ لیکر قبضہ کیا جاتا ہے۔
ان میں امریکہ کی جہادی فیکٹریاں قائم کی جاتی ہیں۔ جس میں سے القاعدہ ،
طالبان و لشکریہ طیبہ کے عنوان سے اسلامی حلیہ و اسلامی لباس لوگ پید ا کئے
جاتے ہیں۔ ان مکار لوگوں کی تشہیر ایک حکمت عملی کے تحت میڈیا سے کی جاتی
ہے۔جن ملکوں میں تشدد آمیز ، خون ریزی ، بمباری ، لوٹ مار جیسے حالات رونما
ہونے لگتے ہیں۔تو مان لیا جائے کہ وہاں امریکہ کی جہادی فیکٹریا ں قائم
ہوچکی ہیں۔ ان اسلام دشمن جہادی فیکٹریوں کے ذریعہ مسلمانوں کچلنے کا عمل
جاری کیا جاتا ہے۔ مذہبی اسلامی تعلیمات کو مسخ کیا جاتا ہے۔گویا ان کے
ذریعہ ملکوں میں بد امنی منظم طور پر پھیلانے کیلئے کرایہ کے پُرتشد د
احتجاج کی اعلانیہ حمایت کی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں اسلامی شکل وصورت کی نئی
نئی تنظیمیں و ان کے لیڈروں کے نام سلسلہ وار منظر عام پر آنے لگتے ہیں۔ جن
کی پبلیسٹی کا میڈیا سے بندوبست کیا جاتا ہے۔ پھر ایک حکمت عملی کے تحت ان
کو دنیا کےلئے خطرہ بتاکر رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ
شرمناک بات یہ ہے کہ ان دھشت گردوں کے تحفظ کیلئے ڈرون حملوں کا استعمال
کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں امریکی انتظامیہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ ان کی
حکمرانی میں وہاں سلسلہ وار حملے امریکہ کے مخالفین پر ہورہے ہیں۔ اس لئے
کہ پورے افغانستان میں اس نے جہادی فیکٹریا ں قائم کرارکھی ہیں۔ ان کے
ذریعہ وہاں بم دھماکوں کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس کی جانب سے مداخلت و
قبضہ کے عمل سے وہاں بدامنی کو فروغ مل رہا ہے۔ دنیا کے عوام کو یہ پیغام
دیا جاتا ہے۔ کہ افغانستان میں دھشت گردی ، خون ریزی ، بد امنی کے خاتمہ تک
وہ انسانیت کے تحفظ کیلئے کام کرتا رہے گا۔ اب افغانستان میں امریکہ کا
قبضہ دسویں سال میں داخل ہونے جارہا ہے۔ مگر اس کے بوجودوہاں اس کو القاعدہ،
طالبان،لشکر ،طیبہ کے دھشت گرد نظر آتے ہیں۔ یہ سب اس کی مکارانہ حکمت عملی
ہے۔ جس کا مقصد اپنے ناجائز قبضہ و ناجائز مداخلت کو مذید وسعت دینا ہے۔
کیوںکہ اس کو یہاں سے جانا نہیں ہے تو اس کو یہ سب نظر آتے ہیں۔ اور آتے ہی
رہیں گے۔اس کی یہ دلیل کہ وہ یہاں سے جانا چاہتا ہے۔ مگر انسانیت کے تحفظ
کیلئے اس کی یہاں موجودگی بہت ضروری ہے۔ لیکن مسلم ملکوں میں اب مداخلت کی
جو نئی مہم شروع کی ہے کہ ان ملکوں میں پہلے لوگوں کوکرایہ کے پُر تشدد
احتجاج پر آمادہ کرو پھروہاں امریکہ کے مفا د کیلئے جہادی فیکٹریاں قائم
کردواور ان مسلم ملکوں کو کمزور کرنے کیلئے یہودی مشن کے تحت ان ملکوں کے
حصوں میں آزادی کے پنجرے بنانے کیلئے تحریک چلاﺅ ۔ جس سے وہ ملک کمزور ہوکر
ان کی تحویل میں آجائیں۔ ہندوستان کے حصہ کشمیر اور پاکستان کے حصہ
بلوچستان کے عوام کو کچلنے اور ان کو برباد کرنے کیلئے بھی ایک یہودی مشن
ہے۔ جس پر عملی جامہ پہنانے کیلئے کام چل رہا ہے کہ کشمیر و بلوچستان میں
ان کا ایک مکارانہ نظام قائم ہوجائے؟ کشمیری عوام کو بے دست و پا کرنے
کیلئے کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بناﺅ ، اس میں تمام کشمیریوں کو قید کرو اور
پھر اس آزادی کے پنجرے کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکادو،اب جو کشمیری
ہندوستان کے 26 صوبوں میں آزادی سے گھومتا ہے اس کو کشادہ آزادی حاصل ہے
مگر کشمیر کے آزادی کا پنجرہ بننے کے بعد وہ کشمیر ی صرف کشمیر کی
چاردیواریوں تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گا۔ایسا ہی ایک یہودی مشن امریکی
حکمت عملی کے تحت بلوچستان کیلئے تیار کیا گیا ہے کہ بلوچستان کو آزادی کا
پنجرہ بناﺅ اس میں تمام بلوچیوں کو قیدی بناﺅ اور پھر اس آزادی کے پنجرہ کو
اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکادو،کیونکہ اس وقت بلوچی پورے پاکستان میں
آزادی سے گھومتے ہیں، کہیں بھی آجا سکتے ہیں، اپنے لئے مکانوں کی خریدوفرخت
کرسکتے ہیں۔ آزادی کے بعد وہ صرف بلوچستان کی چاردیواریوں میں قید ہوکر رہ
جائےں گے۔بلوچستان کایہ علاقہ ایک پنجرہ نما آزادی میں تبدیل کردیا جائے گا۔
گویا ان سے کشادہ آزادی چھین لی جائے۔ یہ آزادی نہیں بلکہ بلوچیوں کے خلاف
، مسلمانوں کے خلاف ، مذہب اسلام کے خلاف ایک شرارت ہے ان کو کمزور و
ناتواں کرنے کی ،ترقی کی رفتار میں شامل ہونے والے ملکوں کی آزادی کا مفہوم
یہودی مشن مطابق اس کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر ہی لٹکا کر ہی مکمل ہوتا ہے۔
بڑے ممالک ان ملکوں کو بے دست وپا کرنے کیلئے اپنی فوج اقوام متحدہ کو
سامنے رکھ کر ان ملکوں میں تعینات کردیتے ہیں۔ اور پورے نظام کو اپنے مطابق
ڈھال لیتے ہیں۔ جس سے ان کا آزادی کے پنجرے بنانے کا گمراہ کن عمل پورا
ہوجاتا ہے۔ پنجرہ نما آزادی کے بعد اس علاقہ کو اور وہاں کے عوام کو آزادی
عنوان سے یرغمال بنا لیتے ہیں۔ ان کے جال مین پھنس نے کے بعدپھر ملکوں کے
حصوں کا اس جال میں سے نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔پھر ان علاقوں پر اقوام
متحدہ کی مہر لگا کرپنجرہ نماآزادی کا تصدیق نامہ ان چند لوگوں کو
پٹھوحکمران بنا کران کو دے دیا جاتا ہے۔ اگر بلوچستان کو امریکہ کے تعاون
سے ایسی منافقانہ آزادی ملی ۔تو پھر وہ پورے پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس
آزادی کے نہیں گھوم سکیں ۔ جس طرح سے اب گھومتے ہیں۔ کیوں کہ امریکہ اس
پنجرہ نما آزادی کے حوالہ سے بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیتا ہے۔ایک تو یہ
مکارانہ نظام ہے۔ مگر دوسرا طریقہ جو ملکوں کو کمزور کرنے کیلئے ایجاد کیا
ہے وہ کرایہ کا پُرتشدد احتجاج ہے۔جس کے ذریعہ حکمرانوںکو اقتدار سے ہٹایا
جاتا ہے۔ان کو ہٹانے کیلئے کرایہ کے پُر تشدداحتجاج پر آمادہ لوگوں کی پوری
مدد کی جاتی ہے۔اس کے بعد مداخلت کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی
اقتدار سے منتقلی و برخاستگی کیلئے اقوام متحدہ کی قیادت کواستعما ل میں
لایا جاتا ہے۔ پھر ان پر اپنی مرضی کے حکمران لاد کر ان ملکوں پر قبضہ کیا
جاتا ہے۔چند ملک ان کے سیکنجہ میں پھنس چکے ہیں۔ جیسے لیبیاء، مصر، تیونس ،
یمن، ودیگر چھوٹے چھوٹے ممالک وغیرہ ان کے حکمرانوں کو کرایہ کے پُر تشدد
احتجاج سے کیسے کچلا گیا یہ سب کے سامنے ہے۔اب ملکِ شام کے حکمرانوں کو
کچلنے کی تیاری چل رہی ہے۔ امریکی حمایت سے جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ اس کے
پیچھے ایک مقصد کارفرما ہے۔ کہ ان ملکوں سے امن سکون چھین لیا جائے۔ یہا ں
بدامنی، خون ریزی، تشددآمیزی، آبروریزی ،لوٹ مار، دنگا فساد کا ماحول تیار
ہو۔ اور اس ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے امریکہ اپنی جہادی فیکٹریا ں قائم
کرتا ہے۔ ان فیکٹریوں سے پھر وہ اپنے مخالفین کو کچلتا ہے۔ ان پر حملہ ہوتے
ہیں، راکٹ برسائے جاتے ہیں، وہاں کے عوام کو تباہ و برباد کرنے کا پورا
بندوبست کردیا جاتا ہے۔ اور ان فیکٹریوں کے تحفظ و دفاع کیلئے ڈرون طیاروں
کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ان کے مقصد میں حائل لوگوں پر دھشت گردی کا
الزام لگاکران پر حملے کروائے جاتے ہیں۔ جو لوگ امریکی جہاد ی فیکٹریوں کی
کھوج بینی کرتے ہیں۔ ان پر ڈرون حملے کروائے جاتے ہیں۔تاکہ ان جہادی
فیکٹریوں کے حقیقت سے کوئی بھی شخص آشنا نہ ہوسکے۔ ان فیکٹریوں کی سیکورٹی
کیلئے صرف تین ملکوںامریکہ ، برطانیہ و فرانس کی فوج پرہی بھروسہ ہوتا
ہے۔باقی ملکوں کے فوجیوں کو ان تک بھٹکنے نہیں دیا جاتا ۔جو غلطی سے ان تک
رسائی کر بھی لیتا ہے۔ تو اس کو بھی ڈرون حملوں کی چپیٹ میں لاکر اس کو سزا
دی جاتی ہے۔ پاکستان کے 24 فوجیوں کا یہ ہی ایک قصورتھاہے کہ وہ مذہب اسلام
کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے چلائی جارہی مہم کو سمجھ چکے تھے۔
اسی لئے انہوںنے امریکہ کی اس جہادی فیکٹری تک رسائی کی۔ اس کی تحقیق کی ۔راز
افشا ہونے کے ڈرسے پریشان امریکی انتظامیہ گھبراہت میں مبتلہ ہوگئی۔ اپنے
گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ان 24 فوجیوںکوڈروں حملوں سے موٹ کے گھاٹ
اتاردیا گیا۔وہ فوجی اسلام کے دفاع تحت کام کررہے تھے۔ کہ ان کو موت کے منہ
میں دھکیل دیا گیا۔ اس لئے وہ تمام فوجی پوری مسلم دنیا کیلئے قابل قدر و
قابل احترام ہیں۔وہ سب کے سب مذہب اسلام کے شہید آعظم ہیں۔کہ شہیدوں نے ان
کے کالے کارناموں کی پوری خبر حاصل کی۔مگر اس سے پہلے وہ ان جہادی فیکٹریوں
کو عام کرتے اس سے قبل ہی ان 24 فوجیوں کا کام تمام کردیاگیا۔ان کے قتل کئے
جانے کے عمل سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ شرارت دانشہ کی گئی ہے۔ایسی لئے
امریکی انتظامیہ ابھی تک اس پر معذرت خواہی کیلئے آمادہ نہیں۔اس طر ز پر
ڈروں حملوں سے ان کو شہید کیا گیا۔وہ فوجی مرے نہیں بلکہ اسلام کے اصل
سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔ اور اب وہ شہید آعظم ہیں۔ ان کی شہادت پر پوری مسلم
دنیا ان کی یاد میں ماتم کدہ ہے۔ ۔ انہوں نے اپنی اس شہادت سے امریکہ کے
مکارانہ مہم کی پول کھول کے رکھ دی ہے۔ ان کوپاکستان کے نہیں بلکہ عالم
اسلام و مسلمانوںکے عظیم شہید آعظم ہی علی الاعلان کہا جاسکتا ہے۔ فی الوقت
مذہب اسلام کی نسبت پرایک قلم کار کو حکومتی سطح پراجازت دی جائے تو ان
اسلام کے خاطرشہید ہونے والے شہیدوں کی آرام گاہ پر جاکر فاتحہ خوانی کا
شرف حاصل ہوسکتا ہے۔
مسلمانوں کیلئے یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ کہ افغانستان ، پاکستان و پوری مسلم
دنیا میں مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میںتبدیل کرنے کیلئے جہادی فیکٹریاں
قائم کردی گئیں ہیں۔ اور کی جارہی ہیں۔ جس میں مسلم مذہبی حلیہ میں حملہ
آور بن کرسچے مذہبی مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی ٹرینگ دی جاتی ہے۔ کشمیر اور
بلوچستان کیلئے امریکہ کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ یہاں بھی جلد سے جلد
مداخلت کرکے قبضہ کرے جس سے یہاں بھی امریکہ کی جہادی فیکٹریوں کاقیام جلد
عمل میں آسکے۔جس سے اس خطہ سے جو اسلامی تعلیمات امریکہ پہنچتی ہے۔جس سے
متاثر ہوکر امریکی عوام مسلمان ہوتے ہیں۔ اس پر روک لگ سکے۔حالانکہ ان کی
جانب سے مداخلت و قبضہ کی آڑ میں مذہب اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کیلئے
تعلیمی اداروں کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ لیکن یہ بات خوشی کی ہے کہ کشمیر و
بلوچستان میں مذہب اسلام کے تحفظ کیلئے ایک نئی بیدار ی آئی ہے اور اس بات
کے پابند ہوگئے ہیں کہ ہمیں پنجرہ نما آزادی نہیں چاہئے بلکہ ہمیں مذہب
اسلام کا تحفظ عزیز ہے۔ اس عوامی بیداری سے اس خطہ سے امریکی انتظامیہ کے
پیر اکھڑنے لگے ہیں۔ اسی لئے ہی پاکستان کے شمشی ائیرویز کو قابض امریکی
فوج سے خالی کرانے کا مرحلہ بڑی خاموشی سے عبور ہوگیا۔اس لئے اس خطہ کے
عوام میں اب ایک سیاسی بیدار آچکی ہے۔کہ مسلمانوں اور مذہب اسلام پردشمن
اسلامی شکل ،صورت و لباس میں ملبوس ہوکرحملہ آور ہے۔جہادی فیکٹریاں اس خطہ
میں قائم کرکے ان میں دھشت گرد پیدا کرکے اس خطہ کے عوام و حکمرانوں کو ہی
آنکھیں دیکھا رہا ہے۔؟؟
بہرحال مذہب اسلام کے حقیقی تحفظ کو لیکرجو جذبہ بلوچی و کشمیری عوام میں
ابھرا ہے۔ کہ وہ اس خطہ میں آزادی کے پنجرے بنانے و امریکہ کی جہادی
فیکٹریاں قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب
میں القاعدہ ، طالبان ، لشکرطیبہ و جماعت دعوة کے حوالہ سے تبدیل کرنے والی
ہر کوشیش کو ناکام بنایا جائے گا۔ اب اس خطہ کی ایک ہی آواز ہے۔ کہ امریکہ
اس خطہ میں اپنی مداخلت و قبضہ کرنے کی حرکتوں سے باز آئے۔ اور مذہب اسلام
کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کی مہم اور اپنے ارادے کو فوری طور پر ترک
کردے۔ اور یہاں سے چپ چاپ چلاجائے جس سے اس خطہ میں امن و سکون کی راہ
آسانی سے ہموار ہوسکے۔
فی الوقت ایک بات غور طلب ہے کہ ملک شام کی بشاراسد حکومت کو کچل نے کیلئے
ان خلاف بارک اوبامہ کا حمایت یافتہ کرایہ کا پُرتشدداحتجاج جاری ہے۔ ان کی
حکومت کے خاتمہ کے بعد سرزمین شام پر مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں
تبدیل کرنے کیلئے وہاں امریکہ کی جہادی فیکٹریوں کا قیام عمل میں آئے گا؟؟۔
اسی لئے امریکہ کے نمائندہ بن کر کوفی عنان وہاں کی مخصوص جگہوں کا معائنہ
کرنے کیلئے باربار چکر لگاکر اس کی رپوٹ اوبامہ کو ہی مل رہی ہے۔ مسلمانوں
و مذہب اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی ان کی مہم بڑی شباب پر
ہے۔کیونکہ اوبامہ نے کرایہ کے پُرتشدد احتجاج کی مدد کرکے اسلام و مسلمانوں
کو ایک سال کے قلیل عرصہ میں اتنا نقصان پہنچاچکے ہیں۔جتنا نقصان بش کی
پارٹی کے ماضی کے بیس سالوں میں نہیں پہنچاہے۔ یعنی اوبامہ کا ایک سال اور
بش پارٹی کے بیس برابر ہیں۔ اگر وہ مذید اقتدار میں رہے توکچھ بعید نہیں کہ
وہ آگے کیا کریں۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مسلم حکمرانوں کے سامنے پہلے
دوستی کا ہاتھ بڑھاتے و ملاتے ہیں اور پھر پیچھے سے اس کی کمر میں خنجر
گھونپتے کا معرکہ عبور کرتے ہیں۔ کرایہ کے پُر تشد د احتجاج سے ان کا مقصد
دنیا سے مسلمانوں اور مذہب اسلام کو ختم کرنا ہے۔اور مسلم ملکوں کے مسلم
مذہبی تعلیمی اداروں میں صرف اور صر ف امریکہ کی جہادی فیکٹریاں ہی قائم
کرنے کا منصوبہ مرتب کیا جارہا ہے۔ ؟؟ اس کام کیلئے اقوام متحدہ کی مد د لی
جارہی ہے کہ اقوام متحدہ کاامن فوجی اس کے اس کام میںاعانت کرنے میں مہارت
رکھتا ہے اس دستہ میںخصوصی طور پر امریکہ ، برطانیہ و فرانس کے فوجی زیادہ
تعداد میں شریک ہوتے اور پھر ان ملکوں میں مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں
تبدیل کرنے والے عربی دان لبنانی یہودی جواسلامی حلیہ ، ومسلم شکل و صورت
میں القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ حوالہ سے وجود میں ہیں اورمذیدامریکی
نمائندے وجود میں آکر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وہ تیار کردہ دھشت
گرد مذہب اسلام کو مٹانے میں اپنا موثر کردار ادا کرتے ہیں اورکرتے رہیں
گے؟؟جن اسلامی حلیہ لبا س لوگوںکی امریکہ اپنی میڈیا سے پبلسٹی کرتا ہے وہ
مسلمان نہیں ہوتے بلکہ وہ اسلام و مسلمانوں پر حملہ آور اس کے نمائندے ہوتے
ہیں۔یہ ایک خاص پہنچان ہے ان کو پہنچانے کی۔ لہذا ۔ مذہب اسلام کے دفاع و
تحفظ میں اب مسلمانوں میں ایک نئی بیداری کی ضرورت ہے۔ اب اسلام و مسلمانوں
پر حملہ کرنے والی اسلامی حلیہ میں شکلوں کو پہنچاننا بھی بہت ضروری ہے۔ جن
کوامریکہ کی جہادی فیکٹریوں سے تیارکیا گیا ہے۔ اور تیار کیا جارہا ہے؟؟؟ |