اسلام علم وعمل کا دین ہے۔ ہمارے
پیارے نبیﷺ پرپہلی وحی کے پہلے الفاظ ہی علم کے متعلق ہیں۔
اِقرَا بِاسمِ رَبِّّکَ الَّذِی خَلَقَ۔
قرآن پاک میں ایک اورجگہ ارشاد ہے ۔"وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو
علم نہیں رکھتے دونوں برابر نہیں ہوسکتے" اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں کہ علم
تو اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔
تعلیم ایک ایسی بنیا د ہے ۔ جو کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی اور سلامتی کی
ضامن ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس ریاست اور معاشرے نے علم کی ترویج کو اپنا
مقصد بنایا۔اُس نے ہمیشہ ہرمیدان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ علم نے ہمیشہ
معاشرے اور قوم کو نئی توانائی بخشی ہے۔ چین کے ماﺅ نے تعلیم کو پہلی ترجیح
دی اور گزشتہ دو دہائیوں میں چین نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں جو ترقی کی ہے
دُنیا میں اس کی مثال نہیںملتی۔چین کی ترقی کا راز تعلیم، سائنس اور
ٹیکنالوجی کی تعلیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ جیسی پاور بھی چین کی
قدرکرنے اورہرمعاملے میںچین کو اہمیت دینے پر مجبور ہے اورپوری دُنیا چین
کی اُبھرتی ہو ئی طاقت کی معترف ہے۔
روزِ اول سے ہماری بدقسمتی رہی ہے اور 65سال گزر جانے کے باوجودتعلیم کبھی
بھی ہماری قومی ترجیحات میں جگہ نہ پا سکی۔ بلکہ اس بے قدراور بے وقعت
وزارت تعلیم کا قلمدان کبھی بھی کسی کا پسندیدہ نہیں رہا۔ ہمارے علمی ادارے
، یونیورسٹیاں علمی اور تحقیقی میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دینے سے
محروم ہوچُکی ہیں۔ پاکستان آج بھی ،جہاں سکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم سے
محروم ہیں دُنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تعلیم وتدریس کی یہ حالت من حیث
القوم ہم سب کے لئے "شرم اور غیرت"کا باعث ہے۔
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب ِنشاط انگیز ہے ساقی!
قرآن علم کا سرچشمہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کو جب یہ علم وحی کے ذریعہ عطا ہوا
تو آپ نے اس کے ایک ایک حرف پر عمل کرکے دکھایا ۔ اسی لئے قرآن حکیم نے کہا
ہے کہ۔ آپ ﷺ مومنوں کے لئے نمونہ ہیں۔
صرف مدرسہ کالج اور یونیورسٹی آنے جانے سے علم حاصل نہیں ہوتا یا صرف
تعلیمی ڈگریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سندیں حاصل کرکے لوگ ملکی حالت
بہتر نہیں بنا سکتے۔ اس کے لئے ذوق اورلگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم اور عمل
میں اگر فرق ہو تو یہ ایک طرح کی منافقت ہے۔ علم سکھاتا ہے اللہ سے ڈرو۔
علم مزاج میں انکساری اور بُردباری پیدا کرتا ہے۔
امریکہ کے سابق صدر کیلوِن کُولج نے کہا تھا۔ "ذہین و عقل مند ہونا زندگی
میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ جوعلم آپ حاصل کریں ا
س کا عملی استعمال کریں"
علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے۔ حضرت عکرمہؓ فرماتے ہیں کہ__نیت ہمیشہ
نیک رکھو ! دکھاوا یا ریا کاری نیت میں داخل نہیں ہوتی۔ جس کی نیت نیک ہوگی
اُس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔ علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اورعمل کو بہتر
بناتا ہے۔
جوصاحب ِ علم ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہے۔پیغمبروں کی ذمہ
داریاں اس لئے زیادہ ہوتی تھیں ۔ کہ انھیں علم دیا گیا تھا۔ کوئی پیغمبر
ایسا نہیں جس نے اپنے علم پرعمل کر کے نہ دکھلایا ہو۔ اس لئے علم حاصل کرو
تواُس پر عمل کرو۔ اگر علم حاصل کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو ایسے علم کا
کیا فائدہ؟
مقدور ہو تو "تم"سے میں پوچھوں کہ اے لئیم
تم نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے ؟
انسان کا اصلی زیور مال و دولت کی بجائے علم ،عمل اور اعلیٰ کردار ہے۔
قانون ضابطے اور اصول عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم یا تو
اصول ضابطے ہی ایسے بنائیں گے جو ہمارے اغراض ومقاصدپورے کریں یا پھربنے
بنائے ضابطوں میں ردوبدل کی کوشش کریں گے۔ تاکہ اپنا مطلب نکال لیں۔ اسی
خود غرضی کے سبب بُری اور گھٹیا تعلیم دے کر ایک پُوری نسل کو تباہ کردیا
ہے۔
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے
جب قوم اور معاشرہ بے ضابطگیوں پراُترآئے ۔ ترقی کا معیاردولت و ثروت بن
جائے ۔علم وعمل زندگیوں سے نکل جائے تو ذلت اور رسوائی اُس قوم اور معاشرہ
کا مقدر بن جاتی ہے۔ پھر کوئی بھی اُس قوم کے نوجوانوں کو دولت کا لالچ دے
کراور معمولی سی برین واشنگ کرکے اُنہیں تخریب کا ری پر اُکسا سکتاہے۔یہی
وجہ ہے کہ آج پوراپاکستان انتہا پسندوں اور تخریب کاروں کی محفوظ اور"
پسندیدہ شکار گا ہ " بن چکا ہے۔
یہ فکر کر کہ اس آسودگی کے ڈھوک میں
تیر ی خُودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہو گا
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
جو روح غم سے بھی اُکتا گئی تو کیا ہو گا
پروفیسر ٹائن بی نے کہا تھا۔" قوموں کی تباہی اور زوال میں سب سے پہلے ان
کے ادارے تباہ ہوتے ہیں۔انتظامی اور علمی ادارے ختم ہونے سے اس معاشرے کی
روح نکل جاتی ہے۔ پھرجسد ِخاکی کو بھربھرا ہوکر ڈھیرہوتے دیرنہیں لگتی۔ "
دُنیا کی ہردولت چلتی پھرتی چھاﺅں ہے۔ مگر علم کی دولت وہ دولت ہے جونہ کم
ہوتی ہے نہ چوری ہوتی ہے۔ اس لئے اولاد کے واسطے بینک بیلنس،بنگلہ، کوٹھی
اور موٹریں نہ چھوڑئیے بلکہ علم وہُنر کی دولت چھوڑئیے ۔
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر -جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان سمیت پُورے
عالمِ اسلام میں امن سکون عطاءفرما
اللَّھُمَّ الرحَم اُمَّةَ مُحمَّدِِرَحمَةََعَامَة ً ۔ اللَّھُمَّ اَصلِح
اُمَّةَ محمدِِ
آمین ثم آمین یارب العالمین۔ |