گرمیوں کی چھٹیاں آگئیں

گرمیوں کی چھٹیاں آگئیں۔ اسکامطلب بہت سی تفریح اور مزہ ۔ سارے خاندان بھر اوردوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع۔ بچوں کی خوشی کی انتہا ہی نہیں۔

لیکن مائیں کچھ مضطرب نظر آتی ہیں کہ آخر دو ماہ گھر میں بچے وقت کیسے گزاریں گے۔ یعنی بہت سی بے ترتیبی گھر میں خوش آمدید کہنے کو ہے۔ ورنہ عام صورتحال میں تو بچے صبح اسکول جاتے ہیں ۔ اسکول میں پانچ گھنٹے مسلسل اور متواتر نظم و نسق اور قواعدوضوابط کے مطابق گزارنے کے بعد بھی شخصیت پر منظم اثرات باقی رہتے ہیں۔ کچھ بچے دوپہر میں باقاعدگی سے ایک سے دو گھنٹے نیند پوری کرتے ہیں۔ بیدار ہونے کے بعد روزمرہ کے اُمور نبھاتے ہیں۔ ہوم ورک کرنا ٹی وی دیکھنا مدرسے یا ٹیوشن سینٹر کی طرف روانگی معمول کا حصہ ہوتی ہے۔ بچوں کے لئے یہ روٹین اُکتھاہٹ کا سبب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے صبری سے ہفتہ اتوار کی چھٹی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہ نظم و نسق اور باقاعدگی بچوں کے لئے اُکتاہٹ ضرور ہے لیکن مائیں اس روٹین سے کا فی مطمئن نظر آتی ہیں۔

لیکن اب تو دو ماہ بچوں کو گھر میں رہنا ہے۔ ہر ماں پریشان ہے کہ آنے والی بے ترتیبیوں کو عادت نہ بنانے سے کیسے بچاجائے۔
٭ چھٹیوں کو موثر کیسے بنایا جائے۔
٭ کہاں کہاں جانے کا پروگرام بنایا جائے۔
٭ چھٹیوں میں اسکول کی جانب دیے گئے نصابی ہوم ورک کو کیسے اور کس وقت ختم کرایا جائے۔

یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بچوں کی تو چھٹیاں ہو گئی ہیں لیکن والدین کے اوپر ایک اور اہم ذمہ داری آن پڑی کہ کس طرح اپنے بچوں کی چھٹیوں کو موثر بنائیں ۔ کہیں منصوبہ بندی کرتے کرتے ہی مہینہ نہ گزر جائے تو جلدی سے اپنے بچوں کے ساتھ سر جوڑ کے بیٹھ جائےے۔ کاغذ اور قلم ہاتھ میں لیجیے، ترجیحات کی فہرست مرتب کیجیے۔

بے شک آپ بہت مصروف ہیں اور اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالنا مشکل اور بعض صورتحال میں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں دنیا کے بہت سے کام آپ خوش اسلوبی سے کرتے ہیں لوگوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھتے ہیں کسی کی ناخوشگوار بات پر بھی جی حضوری کہہ جاتے ہیں تو ذرا لمحہ بھر کے لئے سوچئے کیا اپنی اولاد کے لئے کچھ وقت نہیں نکالا جا سکتا کیا اُن کی کسی غیر سنجیدہ بات اور لاابالی رویے کو کچھ دیر کے لئے قبول نہیں لیا جاسکتا ۔ بلکل ایسا ممکن ہے۔ یہ دن بچوں کے لئے ہیں۔ زندگی میں کام تو کبھی ختم ہی نہیں ہونے تو اپنے بچوں کی سنیئے وہ کیا چاہتے ہیں۔ چھٹیاں گزارنے کے لئے اُن کے ذہنوں میں کیا منصوبہ بندی بنی ہوئی ہے۔

ہوسکتا ہے وہ کسی ہل اسٹیشن میں جانے کی خواہش کریں اگر آپ اس پہ رضا مند ہیں تو ٹھیک ہے جگہ کا تعین کیجیے۔ کتنے دن گزارنے ہیں اور جانے کے لئے کسی ذرائع آمدورفت کا انتظام کرنا ہے۔ اس پر مباحثہ discussion کیجیے۔

اور اگر آ پ کے لئے کسی صورت ہل اسٹیشن جانا ممکن نہیں تو فوری طور پر اپنا تاثر reactionدکھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ بچوں کو اعتماد میں لیجیے اُنہیں اپنے شہر میں مقامی تفریح گاہوں میں بہت سا وقت گزارنے اور خوب مزہ کرانا کی پیشکش کیجیے۔ سب سے اہم بات کہ آگاہ کیجیے اپنے بچوں کو اپنے مسائل سے متعلق۔ یہ سوچ کہ اس نقطہ کو نظر انداز مت کیجیے کہ یہ تو بچہ ہے یہ کہاں سمجھ پائے گا۔ ایسا نہیں ۔ آپکا بچہ آپکی نظر میں بچہ ہے ورنہ آجکل سات آٹھ سال کا بچہ بھی مسائل کو سمجھنے اور آپ سے دوستی کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔

اگر آپکے بچے کی خواہش ہے کہ وہ کسی ہل اسٹیشن کے بڑے ہوٹل میں رہے یا جہاز کے ذریعے سفر کر کے دوسری جگہ جاتا چاہتا ہے تو اس کی بات سکون سے سننے کے بعد اسے سمجھائیے کہ یہ سب آپکے financial challenge کو بڑھائے گا۔ اپنے بچے کو دھوکے میں مت رکھیے یا جھوٹی تسلی مت دیجیے۔

یہ بھی tryکیجیے کہ جس طرح شادی بیاہ تہوار کے لئے آپ پہلے سے ہی بجٹ بنالیتے ہیں اسی طرح بچوں کی چھٹیوں کے لئے بھی بجٹ کا کچھ حصہ رکھ لیا جائے تاکہ آخر میں آپ کا بچہ اس حوالے سے کچھ غلط محسوس نہ کرے کہ گھر کے سارے اُمور ہی انجام دیئے جا رہے ہیں۔ اُس کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا۔

اپنے بچے کی سنیئے ۔ ہمیشہ اپنے آپ کو اس کی سننے کے لئے تیار رکھیئے ۔ اُن کی سنئے وہ کیا چاہتے ہیں۔ اپنی چھٹیوں کے حوالے سے ہو سکتا ہے وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اُنہیں کھل کر اظہار کرنے دیجیے اگر آپ انہیں آزادی نہیں دے سکتے تو غیر محسوس طریقے سے اپنے آپ کو بھی ان کے پروگرام کا حصہ بنا لیجیے یا اس پروگرام سے زیا دہ بہتر پروگرام کی پیشکش کر دیجیے۔

انفرادی اختلاف کی بڑی خلیج ہر جگہ موجود ہے۔ ضروری نہیں کہ آپکا بچہ ہے تو ہر حال میں سمجھے گا یا آپ اس کی بات فوراً قبول کریں گے پر ہاں مباحثہ سب سے زیادہ اہم ہے اس سے بیچ کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔

ان سب کے ساتھ ساتھ اسکول کی جانب سے دیے گئے نصابی کاموں پر بھی نظر رکھیئے اب کراچی میں بہت سے تعلیمی ادارے اپنے سال کا آغاز اگست سے کرتے ہیں ایسے اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کا کام نہیں دیا جاتا جبکہ وہ ادارے جہاں ماہ اپریل سے تعلیمی سال شروع ہوتا ہے میں باقاعدگی سے ہوم ورک دیا جاتا ہے تاکہ بچے اپنے کورس کی کتابوں سے کہیں دور نہ ہوجائیں۔

اکثر گھرانوں میں چھٹیوں کا سارا کام آخری دس دن میں ایک ساتھ ہی مکمل کروالیا جاتا ہے۔ جو کہ درست نہیں۔ اس طرح آپکا بچہ اسٹریس میں آسکتا ہے۔ چاہے ہل اسٹیشن کا رخ کیا جائے مقامی تفریح گاہوں کا یا پھر نانی دادی کے گھر پہ رہنے کا پروگرام ہو کم از کم آدھا گھنٹہ تدریسی کتب اور آدھا گھنٹہ مذہبی تعلیم کے لئے مخصوص کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ اس سلسلے میں ٹائم شیڈول بنانے کے بعد اس کی پابندی کا خاص خیال رکھیں۔ ہوم ورک کا ٹائم سیٹ کرنے کے لئے بچے کی مشاورت کے بعد وقت کا تعین کرنے سے اس کی شخصیت میں اعتماد بھی بڑھے گا اور پڑھائی میں دلچسپی بھی پیدا ہوگی۔ اگر چھٹیوں کی خوشی میں کسی صورت بھی بچہ ہوم ورک کے لئے تیار نہیں ہو پا رہا تو کھیل ہی کھیل میں اسے سبق یاد کروادیں ۔ اس طرح وہ written workجلد ختم کر لے گا۔

تعلیم کو صرف پڑھنے تک محدود رکھنا زیادتی ہے۔ تعلیم سے مراد صرف کتابی تعلیم نہیں کیونکہ تعلیم میں انسان کی ہر وہ بات موجود ہے جو وہ اپنے گرد و پیش سے سیکھتا ہے شامل ہے۔

چھٹیوں کا یہ وقت اپنے بچے کو بہت کچھ سیکھانے اور خود سیکھنے کے لئے بہت ہی خاص ہے۔اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالئے ۔ وقت کو بانٹئے تھوڑا تھوڑا ہر کام روز کی بنیادوں پر نمٹاتے جائیے۔ بچوں کی چھٹیوں کی منصوبہ بندی کو اپنے agendaکا حصہ بنائیے او ر یاد رکھیئے۔ اپنے بہت ضروری اور کم ضروری کاموں کی فہرست بنا لیجیے۔ یعنی اگر کوئی کام بہت ضروری نہیں تو آگے پیچھے دھکیلئے اور بہت ضروری کام نمٹانا ہے تو اسے بچوں کو بتائیے ، اپنی منصوبہ بندی میں اسے بھی شامل کریں تاکہ وہ ناراض نہ ہوں۔

زندگی کا ہر لمحہ آپکی گرفت میں ہونا چاہیے۔ یہ تو ایک طرح کا پزل ہوتا ہے اسے آپ نے حل کرنا ہے اور خود اپنے لئے کار آمد اور مفید بنانا ہے وقت کو اس لئے سرمایا کہا جاتا ہے لیکن اسے خرچ کرنے کا کوئی بہترین مصرف بھی آپ ہی کو تلاش کرنا ہے۔ اور یہ وقت صرف اور صرف آپ کے بچوں کا ہے۔ زندگی مشکل صحیح لیکن وقت سے پہلے ان معصوم ذہنوں پر اس کے اثرات نہ پڑنے پائیں۔ انہیں تتلیاں پکڑنے دیجئے تاکہ کل کوئی معصوم خواہش چھبن نہ بن پائے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283140 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.