جب میں نے یہ خبر سنی ہے کہ ایک
نا بالغ لڑکی نےاپنے والد کو قتل کر دیا تو میں ششدررہ گیا ؛ اس وجہ سے کہ
وہ اس کو کسی نا محرم کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات استوار کرنے سے روک رہا
تھا . یہ خبر الیکٹرانک میڈیاپر بریکنگ نیوز کی صورت میں چلی اور بڑے
پیمانے پرنشر کی گئی ، پورے ملک کے لئے مزید صدمے کی بات یہ تھی کہ اس لڑکی
نے کس طرح اپنے جرم کا اعتراف کیا اور ایسا لگ رہا ہے اسے اپنے کیے گۓ جرم
پر کوئی پشیمانی نہیں تھی
ایک خیال تھا کہ مسلسل میرے دماغ پر ضرب لگا رہا تھا، کہ ایسا کیا ہوا کہ
جس نے اس لڑکی کو اتنا مشتعل کر دیا کہ وہ اپنے والد کو قتل کرنے کی حد تک
چلی گئی.اصل حقیقت کیا تھی؟ کیا اسکا نا بالغ عشق اس حد تک اندھا ہو گیا کہ
خونی رشتوں کا احترام ہی نا رہا ؟ شاید وہ سوچ رہی ہوگی کہ کوئی جادو ہوجا
یگا جیسا کہ اکثرمشہور بھارتی فلموں میں دیکھا جاتا ہےا ور وہ اپنی راه کی
تمام رکاوٹوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی اور وہ اپنے پریمی کے
ساتھ خوشی سے رہے گی-
اسی طرح، ایک چونکانے والی خبر آئی کہ اسلام آباد میں ایک طبقہ اشرافیہ کے
زیر انتظام چلنے والے اسکول میں ہم جنس پرستوں کے حقوق پر ایک مبا حثے
کااہتمام کر رہا ہے اور میں محو سوچ ہوں کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟کیا طبقہ
اشرافیہ کے زیر انتظام چلنے والے سکول ہماری مذہبی اور اخلاقی اقدار کو
کوئی حیثیت دیتے ہیں یہ یا وہ صرف الٹرا لبرل نظریات کی اندھی تقلید کرنے
پر یقین رکھتے ہیں. وہ ہماری بنیادی مذہبی اور اخلاقی اقدار کی تضحیق کر
رہے ہیں جبکہ ہم صرف خاموش تماشائی اور مجبور محض بن کر تماشا دیکھ رہے ہیں-
چند سال پہلے اپنے کالج کے دنوں کے دوران سیڑھیوں پر بیٹھے ایک بار ایک
دوست جو گہری سوچ میں مگن تھا. میں نے پوچھا "کن سوچوں میں مگن ہو؟ " انہوں
نے کہا کہ 'موجودہ رجحانات اور رویوں کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ
اگر 20 سال کے بعد میری بیٹی کا اگر کوئی چکر چلےتو میں اسے کیسے روک پاؤں
گا " '. یہ سن کر میرے پورے جسم میں سراسیمگی پھیل گئی لیکن حقیقت یہی ہے
ہم موجودہ دور میں اسے حقائق کہ مشاہدہ کر رہے ہیں جن کہ کچ عرصے پہلے تصور
بھی نہیں کیا جاسکتا تھا . گزشتہ عشرے میں ہمارے ملک میں لوگوں کا طرز
زندگی مکمل طور پر بدل گیا ہے. آپ صرف اپنے بچوں کی باتوں ہی پر غور کریں
تو جو زبان وہ استمال کر رہے ہیں اسے سن کر آپ کوصدمہ پہنچے گا.
آئیں ہم الزام لگائیں ایک دوسرے پر. آئیں ہم الزام لگتے ہیں میڈیا پر کہ
اسنے اپنے باپ کی قاتل لڑکی کے ذہن کو پراگندہ کیا . آئیں ہم اپنے تعلیمی
نظا م کوالزام دیں جس کی بنیاد کھوکھلی اخلاقی اقداروں پر ہے. آئیں ہم
الزام دیں ان والدین کو انہوں نے بچوں کی تربیت کہ کما حقہ حق ادا نہیں کیا
.آئیں ہم الزام لگایں اپنے معاشرے پر کہ اس نے اخلاقی اقدار کو فروغ دینے
کا گناہ کیا. آئیں ہم حکومت کو دوش دیتے ہیں ... چلو محض دوش یہ الزامات کی
جنگ کسی مثبت نتیجہ پر نہیں نکلے گی .
ہمیں یقینی طور پر اس مسئلے کی 'جڑ' کی شناخت کرنی اور اصلاحی اقدامات کی
ضرورت ہے. میری ناچیز رائے میں، اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی
نسلوں کے لیے کوئی اپنا مثالی کردار نہیں پیش کر سکے. ہمیں اپنا حقیقی
مثالی کردار پیش کرنے کی ضرورت ہے. اور اس مقصد کے لئے ہمیں اپنی اصلی
نظریاتی بنیاد پر کئی سوالوں کے جواب دینے ہونگے . ہمارے ہیرو کون ہیں؟ ہم
کیا بننے کے خواہشمند ہیں؟
بچوں کے ہیرو ، بچے اپنے ہیروز کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ہمیں ہمارے
اپنے حقیقی زندگی کے ہیروز کی ضرورت ہے. یا میں یہ کہوں، ہم ہمارے اپنے
حقیقی زندگی کے ہیروز کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے پاس پہلے سے
ہی اصل ہیروز ہیں ، لیکن ہمارے بچوں کو انکا علم نہیں جیسا کہ ہم میں سے
کئی یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارے ہیرو حضرت خالد بن ولید، حضرت مصعب بن
عمیرہیں یا کسی بالی وڈ / ہالی وڈ کہ کوئی کردار ہے. پاکستان میں تمام لوگ
یقینی طور پر جواب دے گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہمارے ہیرو
ہیں . لیکن حقیقتنا دیکھیں کہ ہم اور ہمارے بچے انکے بارے میں کتنا جانتے
ہیں. کتنا ہم ان کے بارے میں کتنی بات کرتے ہیں . کتنا ہم ان کی پیروی کرنے
کی کوشش کرتے ہیں ؟
ہمارا مسئلہ مزید گہرا ہے. ہم ایک منافقانہ معاشرے میں رہتے ہیں. ہر معاملے
میں ہمارے دہرے تہرے معیار ہیں. ہمارے خود اپنے لیے اور ہماری مستقبل کی
نسل کے لیے مختلف معیار ہیں. ہم صحیح اور غلط کے بارے میں متضاد تصورات کی
الجھن میں ہیں . ہم اپنے بچوں کو شائستہ، مہذب، مذہبی دیکھنا چاہتے ہیں
،لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ مغربی طرز زندگی اپنائیں آزاد
خیال اور خاص طور سے انگریزی بولنے میں مہارت رکھتے ہوں ہیں . شاید غالب نے
ہمارے لیے ہی کہا ہے کہ
رند کے رند رھے، ھاتھ سے جنت نہ گئی
میں بحث کو سمیٹتے ہوئے بس اتنا کہوں گا ، ہم اپنی 'کامیابیوں' کے نظریہ پر
الجھن میں رہے ہیں. ہمیں کامیابی کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے . کیا ایک
کامیاب محبت ایک کامیابی ہے؟ فلموں میں یہ سچ ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی زندگی
میں اسکا آخری نتیجہ کیا ہو سکتا ہے. ایک لڑکی اپنی محبت میں کامیابی کےلئے
اپنے باپ کو قتل کردیتی ہے . کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ؟ کیا اسی
وو سب مل گیا جو وہ چاہتی تھی ؟ کیا اسے کامیاب کہا جا سکتا ہے ؟
آئیں قران کی طرف پلٹیں کامیابی کے معنی کو حاصل کرنے کے لئے ، قرآن کا
کہنا ہے !
اور جو شخص آگ سے دور ہٹا دیا جاتا ہے اور جنت ميں داخل ہے، وہ یقینا
کامیاب ہے "
جب تک ہم اپنے ذہن میں کامیابی کی نئے سرے سے وضاحت نہیں کریں گۓ اور اپنے
بچوں کو دوبارہ نہیں سکھائیں گے تو مسائل میںصرف اضافہ ہو تا جائے گا .
بالی وڈ کے سٹائل کے معاشقے ہمارے نوعمروں اور اور ہمارے بچوں کی زندگیوں
میں اہمیت حاصل کرتے رہیں گے اور LGBT. جیسے مسائل موضو ع بحث رہیں گے
پاکستان کے فیشن زدہ طبقے میں جن کی کوئی اخلاقی اقدار نہیں اور نا ہی وہ
با عِث فخر ہوگی . |