رمضان کا د یوانہ(فضائل رمضان)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
محترم قارئین کرام!ماہِ رَمَضانُ المُبارَ ک میں نیکیوں کا اَجْر بَہُت بڑھ جاتا ہے لہٰذا کوشِش کرکے زیادہ سے زیادہ نیکیاں اِس ماہ میں جَمْع کرلینی چاہئیں۔چُنا نچِہ حضرت ِ سیِّدُنا ابراہیم نَخْعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ''ماہِ رَمَضان میں ایک دن کا روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزوں سے افضل ہے او رماہ ِرَمَضان میں ایک مرتبہ تسبیح کرنا(یعنی سبحٰن اللّٰہ کہنا) اس ماہ کے علاوہ ایک ہزار مرتبہ تسبیح کرنے( یعنی سبحٰنَ اللّٰہ)کہنے سے افضل ہے اور ماہِ رَمَضان میں ایک رَکْعَت پڑھنا غیر رَمَضان کی ایک ہزار رَکْعَتو ں سے افضل ہے۔
(اَلدُّرُّ المَنْثُور،ج١،ص٤٥٤)

رمضان میں ذکر کی فضیلت
امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ انور، مدینے کے تاجور، نبیوں کے سروَر ، محبوبِ ربِّ اکبر ،سیِّدہ آمِنہ کے دِلبرصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمانِ رَحمت نِشان ہے :
''ذَاکِرُ اللّٰہِ فِیْ رَمَضَانَ یُغْفَرُ لَہ، وَسَائِلُ اللّٰہِ فِیْہِ لَایَخِیْبُ ''
(شُعَبُ الْایمان، ج٣،ص ٣١١، حدیث ٣٦٢٧)
(ترجَمہ :رَمَضان میں ذکراللہ عزوجل کرنے والے کو بخش دیا جاتاہے اور اِس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا محروم نہیں رہتا۔)

بِالفرض دُعاء کی قَبولیّت کا اَثر ظاہِر نہ ہو تب بھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لانا چاہئے۔ ہماری بھلائی کس بات میں ہے اِ س کویقینا اللہ عزوجل ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ہمیں ہر حال میںپاک پروردگار کا شکر گزار بندہ بن کر رَہنا چاہئے۔ وہ بیٹا دے تب بھی اُس کا شکر ، بیٹی دے تب بھی شکر، دونوں دے تب بھی شکر اور نہ دے تب بھی شکر، ہر حال میں شکر شکر اور شکرہی ادا کرنا چاہئے۔
(پارہ ٢٥ سورۃُ الشُّورٰی کی آیت نمبر،٤٩اور ٥٠ )میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَا یَشَآء ُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآء ُ اِنَاثًا وَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآء ُ الذُّکُوْرَ0 اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَا ثًا ج وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآء ُ عَقِیْمًا ط اِنَّہ، عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ 0
( پ ٢٥ ،الشوریٰ ٤٩، ٥٠)
ترجَمہء کنزالایمان: اللہ ہی کیلئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اوربیٹیاںاور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے ۔

صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولٰینا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں،وہ مالِک ہے اپنی نِعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کر ے جسے جوچاہے دے۔ انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورَتیں پائی جاتی ہیں۔حضرتِ سیِّدُنا لُوط عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامو حضرتِ سیِّدُنا شُعَیبعَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف بیٹیاں تھیںکوئی بیٹا نہ تھا اور حضرتِ سیِّدُناابرہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف فرزند تھے کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیِّدُالانبیاء حبیبِ خدا مُحمَّدِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحِبزادیاں اور حضرت سیِّدُنا یحیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے کوئی اولاد ہی نہیں۔
(خزائن العرفان ،ص ٧٧٧)

رمضان کا د یوانہ:
مُحمَّدنامی ایک آدمی سارا سال نَما زنہ پڑھتا تھا۔ جب رمَضَان شریف کا مُتَبَرّک مہینہ آتا تو وہ پاک صاف کپڑے پہنتا اورپانچوں وَقت پابندی کے ساتھ نَماز پڑھتا اور سالِ گُزَشتہ کی قَضاء نَمازیں بھی ادا کرتا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا، تُو ایسا کیوںکرتا ہے؟اُس نے جواب دیا یہ مہینہ َرحمت ،بَرَکت ، توبہ اورمغفِرت کا ہے،شاید اللّٰہ تعالیٰ مجھے میرے اِسی عمل کے سبب بَخش دے۔ جب اُس کا انتقِال ہوگیا تو کسی نے اُسے خواب میں دیکھا تو پُوچھا ،مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا مُعاملہ کیا؟اُس نے جواب دیا، ''میرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے اِحتِرامِ رَمَضَان شریف بجا لانے کے سبب بَخش دیا۔ (دُرَّۃُ النَّاصِحِےن، ص٨)

اللہ عزوجل بے نیاز ہے
محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے ؟خُدا ئے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ ماہِ رَمَضَان کے قَدْر دان پر کس دَرَجہ مہربان ہے کہ سال کے باقی مہینے چھوڑ کر صِرْف ماہ ِرَمَضَان میں عبادت کرنے والے کی مغفِرت فرمادی۔اِس حِکایت سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اب تو (معَاذ َاﷲ عَزَّوَجَلَّ )ساراسال نَمازوںکی چُھٹّی ہوگئی ! صِرف رَمَضَانُ المُبارَکمیں روزہ نَماز کرلیا کریںگے اور سیدھے جنّت میں چلے جائیں گے۔ پیارے بھائیو!دراصل بخشنا یا عذاب کرنایہ سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔اگر چاہے تو کسی مسلمان کو بظاہِر چھوٹے سے نیک عمل پر ہی اپنے فضل سے بخش دے اور اگر چاہے تو بڑی بڑی نیکیوں کے باوُجُود کسی کو محض ایک چھوٹے سے گُناہ پر اپنے عدل سے پکڑلے۔(پارہ ٣ سُورۃُ البقرہ کی آیت نمبر ٢٨٤ )میں ارشاد ِ ربِّ بے نیاز ہے:
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشآء ُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشآئُط ( پ٣ ،البقرہ ٢٨٤)
ترجَمہء کنزالایمان: تو جسے چاہے گا(اپنے فضل سے اہلِ ایمان کو) بخشے گا اور جسے چاہے گا ( اپنے عدل سے) سزا دے گا۔
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شُمار جرم
دیتا ہوں واسِطہ تجھے شاہِ حِجاز کا ؐ
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371108 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.