حواکی بیٹی کی درد بھری پکار

حواکی بیٹی کی دردبھری پکار
جب میں نے تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کردیکھے کہ کہیں مجھے کوئی ایسا تاریخ ساز جذبہ مل جائے جس کے ذریعے میں آج کے بے حس ،بے مروت ،مفاد پرست مسلمان کو بتاسکوں کہ دیکھوتم ایسے نہ تھے تم ایسے ہوگئے ہو۔تمہاری اصل یہ نہیں ،تمہارے بزرگ ایسے نہ تھے ۔تمہارے سامنے بلکتے مسلمان ،گاجر مولی کی طرح کٹتے کلمہ حق کہنے والے ،ننھے ننھے لاشے ،ماں ،بہن کی عصمت دری،گھروں پر،آبادیوں پرڈرون حملے ،مسلمانوں کے کہ ملک میں مسلمانوں کے مفادات ،احساسات سے اعصاب شکن کھیل ۔اف !میرے مالک!اف !تمہیں کبھی احساس تک نہ ہوا۔مجھے سییر و تواریخ سے ایسے بہت سے سبق آموز ،غیرت کی چمک سے بھرپور واقعات ملے ان میں ایک غیرت مسلم کو بقاء بخشنے والا واقعہ پڑھیے اور کچھ خوفِ خداکرلیجیے!

ایک مسلمان خاتون نے جسے رومیوں نے قید کر لیا تھا..جب اُس وقت کے عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو مدد کے لیے پکارا تو پوری سلطنتِ اسلامی کے ایوان لرز اٹھے۔خلیفہ معتصم نے اُس عورت کی فریادکے جواب میں غیرتِ اسلامی کا کامل مظاہرہ کرتے ہوئے نفیرِ عام کا حکم دیا اور اُس قیدی بہن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بذاتِ خود ایک لشکرِ جرّار کی قیادت کرتا ہواروم کے سب سے مضبوط شہر عموریہ پر حملہ آور ہوا ۔یہاں تک کہ وہ خاتون پوری عزت و احترام کے ساتھ واپس پہنچ گئیں۔رومیوں کو اپنے کیے کاپورا پورا خمیازہ بھگتنا پڑااور ایک مسلمان عورت کی پکار ان کی ذلت وتباہی کاباعث بن گئی۔
ہاں وہ اسلیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا
میری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا
تخیلات کی دنیا غریب ہے لیکن
غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا
عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تیری
بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

دیکھا آپ نے ایک غیورمسلمان نے دشمن بداطور کو بتادیاکہ ہم اپنا تحفظ کرناجانتے ہیں ،ہم اپنی عزت کا پاس رکھنا جانتے ہیں ،ہم اپنی ملت کے محافظ ہیں ،ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن ہمیں عزت و حمیت پر سودا گوراہ نہیں ،یہ گردن کٹ تو سکتی ہے مگر کسی ظالم و جابر کے ظلم و جبر کے آگے جھک نہیں سکتی ۔ان رگوں میں نہایت پاکیزہ خون ہے جو حق کے لیے گردش کرتاہے جب اس کی گردش ،حدت و شدت بڑھ جائے تو پھر برسوں صلیبی جنگیں یاد رکھی جاتی ہیں ،برسوں صلاح الدین ایوبی کے کردار ذہنوں میں نقش رہتے ہیں ،پھر صدیوں ٹیپوکی تلوار کی آہٹ دشمن کی نیندیں حرام کردیتی ہے ،پھر مائیں شجاعت و بہادری ،غیرت و جوانمردی کے کارنامے سن سن کر اپنے بیٹوں کے نام خالد بن ولید، حیدر سلطان ،محمود غزنوی،صلاح الدین رکھنے میں فخرمحسوس کرتی ہیں ،آہ !آج ماؤں نے ایسے جریح جنناہی چھوڑدیے ہیں اور دشمن کے ڈر سے یہ نام رکھنا بھی چھوڑ دیے ۔تو پھر انجام بھی دیکھ لیں کہ آج امریکہ یا برطانیہ کا کتامرجائے تو بات کورٹ کچہری تک چلی جاتی ہے ۔اس شہری پر کیس کردیاجاتاہے ہرجانہ بھرتاہے ۔لیکن دنیابھرمیں میرے مسلمان بھائی بہنوں کا قتل عام ہورہاہے کوئی پوچھنے والانہیں ۔

میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسووں کاش اس ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج میں شامل ہوکر میری بے حسی کا کفارہ بن جائیں لیکن ایسالگتانہیں کیوں کہ میں ظلم کے خلاف بول بھی سکتاہوں ،لکھ بھی سکتاہوں اور وقت آنے پر اسلحہ بھی اُٹھاسکتاہوں تو پھر یہ آنسووں بزدلی کی علامت دکھائی دینے لگے ۔

ربّ کعبہ کی قسم !مجھ سے مسلمانوں کہ یہ حالات دیکھے نہیں جاتے ۔کیاآپ بھی میری طرح فقط رونے دھونے پر اکتفاء کریں گئے یا دنیاکوبتلادیں گئے کہ ہم متوالے ہیں ،ہم دل والے ہیں ، اے کمین گاہوں سے نکلنے والو!جس زندگی کی تم حفاظت کرتے ہو۔ہم مسلمان اس زندگی کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ہم نہتے ضرور ہیں ،ہم غیرمستحکم ضرور ہیں لیکن ہمارے اعصاب اتنے مضبوط ہیں کہ تمہاری جدید تکینیک دھری کی دھری رہ جائیں گیں ۔

محترم قارئین :میں دست بدست آپ کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ کچھ کیجیے ۔ورنہ ۔۔۔۔انجام کے لیے تیار رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تبصرہ توکردیتے ہیں عملی اقدام کون کرے گا؟میں علماء کرام کی خدمت میں بھی عرض کرتاہوں کہ وہ اپنے مواعظ ،اپنی تقاریرمیں جذبہ اسلام ،غیرت اسلام ،جرت اسلام کو شامل فرمائیں ۔کتنے دکھ کی بات ہے ۔کشمیر ،فلسطین ،برما،چیچنیا،بوسنیا،افغانستان میں کیاہورہاہے ؟کیا ہم اس لیے خاموش ہیں کہ ان مرنے والوں میں نہ تو میراماں جایا بھائی ،نہ میری بہن ،نہ میراباپ ،نہ میراکزن ،نہ میری ماں ،نہ میرادوست شامل ہے ۔بھلا پھر روئیں بھی تو کیسے روئیں ،غم کاوہ پیمانہ ہی نہیں ،دل میں دکھ کی اتنی شدت ہی پیدا نہیں ہوئی ۔

یاد رکھیے !محمد بن قاسم رحمۃ اللہ تعالی علیہ بھی اپنی خالہ کی بیٹی ،اپنے ماموں کی بیٹی کو بچانے کے لیے نہیں آئے تھے وہ بھی حوا کی بیٹی ،وہ بھی آدم کی بیٹی ،وہ بھی نبی کریم ؐ کی امّت کی بیٹی کو بچانے آئے تھے ۔

سوچیے گاضرور!!ہرکسی کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے ۔کسی کی سوچ یہ کہ اتحاد بین المسلمین قائم کرکے ان مظالم کا سدباب کیا جائے (اس میں سب سے مرکزی کردار احکام بالا کاہے )۔کسی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ فوج کشی کرکے دشمن کو بہ وبالا کردیا جائے (کیونکہ ہم فوج کو اپنا نجات دہندہ جانتے ہیں)۔۔کسی کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہاں جاکر جہاد کیاجائے (جیسا کہ گذشتہ سے پیوستہ ہوتا چلاآرہاہے افغانستان کی مثال)۔کسی کی سوچ یہ ہوتی ہے اس ملک اس خطہ کے مسلمان یکجاہوکر حملہ آور ہوں (ایساتو ہوتا ہی ہے)۔کسی کے ذہن کی تختی پر یہ عبارت کند ہ ہوجاتی ہے کہ جو مسلمانوں پر ظلم کررہاہے وہ جہاں ملے ،جس ملک میں ملے ،بچہ ہویاجوان ،مرد ہویاعورت مارڈالو(یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور اسلامی پیغام سے متصادم )۔کسی کی سوچ کامرکز دیگر سے انتہائی مختلف کہ ان دشمنوں کا سوشل بائیکاٹ کیاجائے ان کی مصنوعات کا استعمال چھوڑدینا(یہ ایک مہذب احتجاج شمار کیاجاتاہے)۔کوئی لکھ کر،کوئی بول کرالغرض ہرکوئی اپنے حصّہ کاکام کرنے کا خواہاں ہے ۔لیکن آپ کیاسوچ رہے ہیں ؟یہ سب یاان کے علاوہ ؟جو سوچ رہیں وہ درست ہواور اس کے ثمرات دیرپاہوں ۔تو پھر کردکھائیے اپنے عمل سے وہ سب جس کی آپ سے توقع کی جارہی ہے ۔

فقط مفروضوں پر یقین چھوڑ دیجیے ۔کچھ کرنے کا معمول بنائیں ۔ہم پوری دنیا کو بتادیں گئے کہ ہم مسلمان بڑے ہمدرد لوگ ہیں ۔ہم پیار کرنے والے ہیں ۔ہم محبتوں کی خوشبو عام کرنے والے ہیں ۔ہم پرامن ہیں ہمیں پرامن رہنے دیاجائے ۔کہیں ایسانہ ہوکہ تمہارے اعصاب شکن رویے تمہیں یادماضی بنادیں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544624 views i am scholar.serve the humainbeing... View More