گزشتہ سال سے کہیں زیادہ اس سال
رمضان المبارک میں بہت بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے منصوبے تیار کئے گئے ہیں
جن کی بروقت اطلاع پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسیوں اور انتظامیوں کے علم
میں آچکی ہیں اس سلسلے میں ہماری قابل ترین ایجنسیوں کے سربراہاں و افسران
نے حکمت عملی بھی بنالی ہیں ان میں محکمہ پولیس ، پاکستان رینجرز، سینٹرل
انٹیلی جینس اتھارٹی، فیڈرل انٹیلی جینس اتھارٹی، پاکستان کوسٹ گارڈ،
انٹیلی جینس بیورو، ملٹری انٹیلی جینس و دیگر دفاعی خفیہ ایجنسیاں شامل ہیں
۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ انٹیلی جینس کی قابلیت
میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی
تمام انٹیلی جینس ایجنسیاں دنیا بھر میں قابل و ماہر سمجھی اور دیکھی جاتی
ہیں تو پاکستان میں آئے روز کیوں دہشت گردی کاعمل رہتا ہے اور کیونکر یہ
دہشت گردی پر قابو نہیں پاتے۔۔۔۔؟ ؟ آج کے کالم میںاس بات کو واضع کرنے کی
کوشش کرونگا۔وہ کون سے محرکات و اسباب ہیں جن کی بنیاد پر ہماری ایجنسیاں
بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں مگر کر نہیں سکتی۔۔۔۔ آخر کیوں؟؟ موجودہ دور حکومت
عوامی مینڈیٹ سے حاصل ہوئی ہے جس میں نمائندگان انتخابات کے عمل کو پار
کرتے ہوئے آئے ہیں اور ایوان میں بیٹھ کر انہیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں!!
موجودہ حکومت نے چار سال مکمل کرلیئے لیکن ان چار سالوں میں جمہوری اقدار و
اخلاقی ضوابط کس قدر پورے کیئے اسے بھی اس کالم سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
درحقیقت پاکستان کی سلامتی کی بات کی جائے تو جمہوری اقدار و اخلاقیات کو
نر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی بھی ریاست کے نظام کی بہتری کیلئے
بہتر و اعلیٰ سطح پر جمہوری معاملات طے کیئے جاتے ہیں ۔ ان چار سالوں میں
سربراہان مملکت نے محاذ آرائی کے میدان میں اپنے اپنے خیمے گاڑھے ہوئے تھے
اسی میدان میں حذب اختلاف کے خیمے بھی بندھے تھے ۔ حیرت و تعجب کے مناظر
بھی دیکھنے میں آئے کہ سپریم کورٹ نے مسلسل ازخود نوٹس سے اپنی ساگھ پر برا
ثر ڈالا کیونکہ پاکستان بھر کی عدلیہ کو کردار عوام الناس کے سامنے ہے ،
سیشن کورٹ، سول کورٹ، ہائی کورٹ ان کورٹوں کا اگر چیف جسٹس غور سے مطالعہ
کرلیں اور سچائی و ایمانداری کی بنیاد پر دیکھیں تو شائد تمام جسٹس شرم سے
پانی پانی ہوجائیں گے کیونکہ یہاں نہ انصاف ہے اور نہ عدل !! یہ مقام ہے
لوٹ و گھسوٹ ، رشوت و اقربہ پروری، سفارش و دباﺅ، اثر و رسوخ سب کچھ تو
یہاں موجود ہوتا ہے اگر نہیں ہوتا تو وہ بے قصور لوگوں کو انصاف، غریب
لوگوں پر سچائی کے ساتھ فیصلہ!! پیشکار ہو یا کلرک، منشی ہو یا نائب جج ،
سب ہی نے اپنے اپنے نرخ سجائے ہوئے ہیں یہاں قانون کے رکھوالے بھی قانون کو
لونڈی بناکر پیش کرتے ہیں ۔ جب عدلیہ سے منسلک افراد ہی اس مقدس مقام پر
ظلم و ستم ، بے انصافی کا عمل زور و شور سے قائم و دائم رکھیں گے تو کس طرح
حکومتوں کے خلاف از خود نوٹس لے سکتے ہیں اگر ایوان ان کے معاملات کے بارے
میں دریافت کریں تو یہ جہوریت کو کمزور کرنے کیلئے عزت نفس کا دعوہ پیش
کرتے ہیں کبھی خود بھی انہوں نے سوچا ہے کہ ان کے اعمال کی جانب رواں دواں
ہیں ۔ یاد رکھیں جس ریاست کی عدالت اثر و رسوخ اور رشوت کے عوض بکتی ہیں
وہاں عدلیہ ہمیشہ رسوا رہتی ہیں۔ دہشت گردی کا عمل بھی کمزور عدلیہ کی
بنیاد پر ہوتا ہے جس ریاست میں عدالتیں مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے افعال صاف
و اعلیٰ ہوتے ہیں وہاں کی عدالتوں کا نا صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ ان کے
فصلوں کو ایمان کی حد تک محسوس کیا جاتا ہے سب سے پہلے چیف جسٹس افتخار
احمد چوہدری کو چاہیئے کہ وہ پاکستان کی تمام عدالتوں کو صحیح اور درست سمت
کی جانب رواں دواں کریں اور تمام ستداویزات کے عمل کو مکمل کمپیوٹرائز کرکے
آسان بنائیں خاص کر سائل کیلئے اپنے حصول انصاف کو انتہائی موثر اور دیرپا
اور آسان بنائیں تاکہ کوئی بھی طاقتور ہو یا با اختیار کسی بھی طرح قانون
کو ذاتی مفاد میں نہ لاسکے اور سب کے سب قانون کی زد میں رہ سکے تاکہ قانون
کا احترام بڑھے اور انصاف غریب کی دہلیز تک پہنچے۔ دوسری جانب سیاستدانوں
کو ملک سے وفا اپنانی چایئے تاکہ ملک پاکستان دنیا مین عزت و احترام کے
ساتھ ترقی کی منازل کو پاسکے۔ بیوروکریٹس نوکری پیشہ ہوتے ہیں اور وہ عوام
لاناس کے ٹیکس سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں ان کے ذہنوں کو شفاف بنانے کی ضرورت
ہے تاکہ رشوت کا زہر ان کے جسموں سے خارج ہوسکے اور خاص کر وہ ادارے جو
ریوینیو میں شمار ہوتے ہیں ان پر سخت سے سخت کڑی نظر رکھی جائے تاکہ ملکی
خذانے میں عوام الناس کا ٹیکس مکمل پہنچ سکے۔ماہ صیام قریب تر ہے اس ماہ
مبارک کی ساعتوں کی برکت اور رحمت کا ملک پاکستان اور عوام الناس کیلئے
بہتر اقدام سے حاصل کیا جائے ۔ پتھاریدار سے لیکر آڑتیوں پر سختی کی جائے
تاکہ ناجائز منافہ کی دوڑ میں منہگائی کا پہاذ نہ کھڑا کرسکیں اس کے ساتھ
وہ کمپنیاں جو بین الاقوامی اشیاءدرآمد کرتی ہیں ان کے نرخوں پر توجہ رکھی
جائے کیونکہ ان چار سالوں میں سب سے زیادہ ان ہی کمپنیوں نے انتہا سے زیادہ
نرخ بڑھائے ہیں ، دورھ، دہی، گھی، آٹا ، چاول ، دالیں اور پھلوں کو قبل
رمضان نرخوں کو کم کرکے پابند بنایا جائے ۔ شائد حکومت وہ کو آخری لمحہ میں
خیال ہی آجائے یہ حقیقت بھی ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت یہی ہوگی کیونکہ اس
ملک کا ووٹنگ نظام انتہائی بے سود اور ناکارہ ہے یہاں ووٹ نہیں نوٹ سے
منتخب کیا جاتا ہے ،تمام گاﺅں ، دیہات میں وڈیروں اور جاگیرداروں ،
چوہدریوں کا حکم چلتا ہے غریب کسان ہو یا مزدور ان طاقت ور کے سامنے سر
نہیں اٹھا سکتا اور اگر کہیں ایسا نظر آتا ہے تو وہاں بیلٹ بکس اٹھا لیئے
جاتے ہیں اور اوتات میں خوب ٹھپے لگائے جاتے ہیں اگر کمپیوٹرائز نظام
اسکینگ کے ساتھ ہو جس مین انگوٹھے کے ساتھ آنکھ کی اسکینگ شامل ہو تو قطعی
نہیں کوئی بھی ایک غلط ووٹ اندراج ہوسکے گا مانا یہ مرحلہ کٹھن ہے مگر نا
ممکن نہیں ملکی بہتری کیلئے اس نظام کو لازماً رائج کرنا پڑیگا بصورت ہم
عوام اپنی نصیب کو روتے رہیں گے اس نظام سے تمام تر حالات اور معاملات درست
ہوتے چلے جائیں گے اور ہماری آئندہ نسل آزاد ، باعزت، خود مختار ہمیشہ رہے
گی۔ بحرحال اس ماہ صیام میں عوام الناس کو بے جا گھروں سے باہر نہیں نکلنا
چاہیے اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنے محلہ، علاقہ، آبادی پر خاص نظر رکھنی
ہوگی اور انجان لوگوں کی آمد پر ہوشیار رہنا ہوگا تاکہ کسی بھی دہشت گرد کو
دہشتگردی کرنے کا موقع میسر نہ آسکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناظر رہے آمین۔۔۔۔۔!! |