ملک امن و امان کے مسائل سے
مسلسل دوچار ہے کراچی میں ہر روز آٹھ دس معصوم لوگوں کا قتل تو اب کوئی خاص
خبر نہیں رہی بس ایک افسوس زدہ لفظ کے بعد لوگ اس سب کو بھول جاتے ہیں ۔
خیبر پختونخواہ میں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو خبروں میں دو چار منٹ سے زیادہ
وقت حاصل نہیں کر پاتا۔ گلگت بلتستان جیسے پرامن علاقوں سے بھی جب بدامنی
کی خبریں ملیںتو دل دھل جاتا ہے۔ حالات بلوچستان کے بھی کچھ مختلف نہیں ہر
روز کوئی نہ کوئی نا خوشگوار واقعہ اہل وطن کو پریشانی میں مبتلائ کر دیتا
ہے اور یہ پریشانی اس لیے کچھ زیادہ ہوتی ہے کہ یہاں یہ بر بریت ملک کی سا
لمیت کے وہ دشمن کرتے ہیں جوبلوچستان کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرنے سے
انکاری ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ وہ انسانیت کے بھی انکاری ہیں انہیں
پنجابی ، ہزارہ اور اب خیبر پختونخواہ کے پختونوں میں سے کوئی بھی انسان
محسوس نہیں ہوتا اور وہ انہیں یوں کچل کر رکھ دیتے ہیں جیسے وہ کیڑے مکوڑے
ہوں ،بسوں سے اتار اتار کر انہیں بھون دیا جاتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اِس کے
باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان میں ہونے والی غیر انسانی
سرگرمیاں نظر نہیں آتی اور ہر ایسی چیز ایجنسیوں کے کھا تے میں ڈال دی جاتی
ہے۔ سات جولائی کو ایسی ہی ایک ہولناک خبر آئی کہ سوات سے تعلق رکھنے والے
سات کان کنوں کی لاشیں کوئٹہ کے قریب سے ملی ہیں ان کان کنوں کو چھ جولائی
کو اغوا کیا گیا تھا اور اگلے ہی دن ان کی لاشیں ڈگاری میں کوئلے کی کانوں
کے پاس سے ملیں اور بلوچستان لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے نے اس درندگی کی
ذمہ داری قبول کرلی اور ببانگ دہل کی۔ اب کوئی بی ایل اے کے درندوں سے
پوچھے کہ سوات سے سینکڑوں ہزاروں میل دور چل کر صرف روزی رزق کمانے کے لیے
کوئٹہ کے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے پر آمادہ یہ غریب کشمیرخان ، محمد
نواز ، عبدالاحمد، احمداللہ، خان محمد اور محمد اکبر، اور ڈاکٹر اسحاق نے
کتنے بلوچوں کو اغوا کیا یا خدانخواستہ قتل کیا جس کا بدلہ لینے کے لیے
انہیں یوں بیداری سے قتل کیا گیا اور نہ ہی یہ کسی حکومتی ادارے سے وابستہ
تھے اگر ہوتے بھی تو حکومت نے کونسا اِن کے لیے کوئی انتہائی اقدام اٹھا
لینا تھا وہ حکومت جسے اپنے سیاسی مسائل سے فرصت نہیں اور جس کا مقصد حیات
اس وقت صرف اپنا دور حکومت مکمل کر کے تاریخ میں اپنا نام لکھوانا ہو اُسے
غریب مزدوروں کی کیا فکر ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ سوچنا کہ بی ایل اے اس طرح
اپنے مشن کو آگے بڑھانا چاہ رہی تھی کسی طرح قابل قبول نہیں۔ سچ تو یہ ہے
کہ اِس دہشت گرد تنظیم کا مقصد صرف اور صرف دہشت گردی کرکے خوف کی فضا پیدا
کرنا ہے اور یہ بلوچستان کے صرف کچھ سرداروں کی کچھ اولادوں کی اپنی سرداری
قائم رکھنے کی کوشش ہے جو یہ سوچے بغیر درندگی کر رہے ہیں کہ بلوچستان کا
ایک بڑا حصہ پشتون ہے اور بلوچوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے دوسرے صوبوں
میں محفوظ و مامون زندگی گزار رہی ہے کیونکہ پاکستان،بلوچستان اور بلوچی یہ
ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے ۔اس مسئلے کو پیدا کرنے والے اور پھر اس
کو ہوا دینے والے پاکستان کے وہ دشمن ہیں جنہوں نے اس کے وجود کو روزاول سے
تسلیم نہیں کیا اور اب بھی مسلسل اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں لیکن دکھ
اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ہر جرم کو ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال کر ایسے
مجرموں کو کھلی چھٹی دے دیتے ہیں ۔ بلوچستان میں بھی ہم یہی کر رہے ہیں اگر
کوئی بندہ ذاتی دشمنی کے باعث بھی مار ڈالا جائے تو اسے کسی سرکاری ایجنسی
کے نام قتل کے طور پر درج کر دیا جاتا ہے اور یوں اصل قاتل دندناتے پھرتے
ہیں ۔اب جبکہ بی ایل اے نے اس غیر انسانی واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے
توکیا بلوچستان کے لاپتہ افراد کے کچھ اور ذمہ داروں کا تعین بھی ضروری
نہیں ہے۔ ایک ای میل میں بلوچستان کے ایک صاحب نے نام لے کر کچھ ایسے لوگوں
اور تنظیموں کی نشاندہی کی جو اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ حکومت وقت
، فوج ایف سی اور فرنٹیر کانسٹبلری سمیت تمام ذمہ دار اداروں کو بلوچستان
کے حالات کا احساس کرنا ہوگا اور اس کا حل نکالنا ہوگا صرف ایک دوسرے کو
الزام دینے سے معاملات حل نہیں ہونگے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس انتہائی
درست طور پر لاپتہ افراد کے معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اس بات سے
کسی کو اختلاف نہیں کہ اِن افراد کو مل جانا چاہیے لیکن اِن میں جو مجرم
ہیں انہیں سیاسی سمجھ کر چھوڑ دینا بالکل بھی قرین انصاف نہیں اور پھر جو
مجرم ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جانی چاہیئے کیونکہ ملکی سا لمیت کے خلاف
کام کرنے والے کبھی بے گناہ نہیں ہو سکتے چاہے وہ جس انداز میں بھی اس میں
ملوث ہوں، لہٰذا بی ایل اے کے دہشت گردوں کو چھوڑ دینا ملک اور اس کے عوام
کے ساتھ زیادتی ہے اور جس بے با کانہ انداز میں وہ بلوچستان میں ہونے والی
دہشت گردی کو قبول کر رہے ہیں اس کے بعد کسی رعایت کی گنجائش ہو ہی نہیں ہو
سکتی ۔آخر ان چھ مزدوروں اور ایک ڈاکٹر کو کس گناہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ
بنایا گیا جو اپنے بیوی بچوں کا یا اپنے ماں باپ کا پیٹ پالنے کے لیے اپنوں
سے دور کوئلے کی کان کے اس آلودہ ترین ماحول میں مزدوری پر مجبور تھے جہاں
سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے یاکیا یہ کسی ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے
اور یا یہ لوگ اس کان پر قبضہ کرنے آئے تھے ۔ اگر اِن الزامات میں سے بفرض
محال کوئی ثابت ہو بھی جائے تو کیا بی ایل اے اس کی سزا دینے کی مجاز ہے یا
اس کی سزا دینا عدالت کا کام تھا۔
بلوچستان کے حالات ہمیں جو عندیے دے رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی
ضرورت ہے۔ حیرت ہے کہ اِن دہشت گردوں کے خلاف اب تک محب وطن بلوچوں اور
پختونوں کو متحد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی یا ان کی وہ حوصلہ افزائی
کیوں نہیں کی جارہی جو کہ کی جانی چاہیے صرف حالات کی خرابی کا رونارویا
جارہا ہے یا معافی مانگی جارہی ہے جبکہ ضرورت عملی اقدامات کی ہے اور ہر
قصور وار کی تلاش بھی ضروری ہے اور یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آخر وہ کون سی
قوتیں ہیں جو حالات کو خراب سے خراب تر کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے بلوچستان کی
اہمیت کے پیش نظر بیرونی قوتیں بھی یہاں مکمل طور پر سر گرم عمل ہیں تو یہ
بھی دیکھنا ہوگا کہ اِن کے آپس میں تعلقات کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے ۔
بلوچستان اس وقت حساس ترین ایشوہے اور اس کی حساسیت کے مطابق اس کو اہمیت
دینا اور پھر اس کو حل کرنا ہماری پہلی تر جیح ہونی چاہیے ورنہ وقت اور
تاریخ قوم اور ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔صاحبانِ اقتدارو عدالت! اِن
غریب مزدوروں کا خون بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی دوسرے پاکستانی کا لہٰذا
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں!کہ یہ قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ |