از قلم:حافظ وقاری مولانا محمد
شاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)ممبئی،انڈیا
کتبِ احادیث میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر حضور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ و سلم کے فرمودہ خطبے کی تفصیل بھی ملتی ہے جس کا ترجمہ ہم تحریر کرتے
ہیں:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، فرمایا: اے
لوگو! ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے اس میں ایک رات
ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے دن کے روزوں کو
فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ
تعالیٰ کا قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں
فرض ادا کیااورجس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس
نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔یہ صبر کا مہینہ ہے
اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے
میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے
اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے
اور اس کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے کہ اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی
نہیں آتی۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول( صلی اللہ تعالیٰ علیک و
سلم) ! ہم میں سے ہر ایک میں یہ طاقت کہاں کہ روزہ دار کو سیر کر کے کھلائے۔
اس پر آپ نے فرمایا یہ ثواب تو اللہ اسے بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور یا
ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ پلا دے۔ جس نے کسی روزہ دار کو افطاری کے
وقت پانی پلایا اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) میرے حوضِ کوثر سے اسے وہ پانی
پلائے گا جس کے بعد دخولِ جنت تک پیاس نہیں لگے گی۔(مشکوٰة شریف: ص173،174)
رمضان المبارک کے جلوہ فگن ہونے سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کے حصول
کی دعا کرتے رہتے۔ امام طبرانی کی اوسط اور مسند بزار میں ہے کہ جیسے ہی
رجب کا چاند طلوع ہوتا توآپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے ”اَللّٰہُمَّ
بَارِک لَنَا فِی رَجَبٍ وَ شَعبَانَ وَ بَلِّغنَا رَمَضَانَ“ اے اللہ!
ہمارے لیے رجب و شعبان با برکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔جب رمضان
المبارک شروع ہوجاتا توآپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں مخصوص دعا کیا
کرتے”اَللّٰہُمَّ سَلِّمنِی مِن رَمَضَانَ وَ سَلِّم رَمَضَانَ لِی وَ
سَلِّمہُ مِنِّی“ اے اللہ عزوجل! مجھے رمضان کے لیے سلامتی عطا فرما اور
میرے لیے رمضان (کے اول و آخر کو بادل و غیرہ سے) محفوظ فرما اور مجھے اس
میں اپنی نافرمانی سے محفوظ فرما۔
جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو غمخوارِ اُمت
شفیعِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک
باد دیتے۔صحابہ کو مبارک باد اور ان پر اس کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ
رمضان المبارک کو خوش آمدید فرماتے۔ کنز العمال اور مجمع الزوائد میں ہے،
آپ فرماتے ”اَتَاکُم رَمَضَانُ سَیِّدُ الشُّہُورِ فَمَرحَباً وَّ اَہلاً“
لوگو! تمہارے پاس رمضان تمام مہینوں کا سردار آگیا ہم اسے خوش آمدید کہتے
ہیں۔
جس دن رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان کا آخری دن
ہوتا تو آپ مسجدِ نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرما کر خطبہ ارشاد فرماتے جس
میں رمضان المبارک کے فضائل و وظائف اور اہمیت کو اجاگر فرماتے تاکہ اس کے
شب و روز سے خوب فائدہ اٹھایا جائے، اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور اس
کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جانا جائے۔ مسنون ہے کہ 29شعبان المعظم کو بعد
نمازِ مغرب چاند دیکھا جائے۔چاند نظر آجائے تو دوسرے دن سے روزہ رکھا جائے
اور اگر نظر نہ آئے تو دوسرے دن پھر چاند دیکھیں۔ چاند نظر آجائے تو یہ دعا
پڑھیں ”اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُمَّ اَہِلَّہ عَلَینَا بِالاَمنِ وَ
الاِیمَانِ وَ السَّلاَمَةِ وَ الاِسلاَمِ وَ التَّوفِیقِ لِمَا تُحِبُّ وَ
تَرضٰی رَبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہُ“ اللہ اکبر، اے اللہ! ہم پر یہ چاند امن
و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ گزار اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جو
تجھ کو پسند ہو اور جس پر تو راضی ہو میرا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔ رمضان
المبارک کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے راقم کی کتاب ”ماہ رمضان کیسے
گزاریں ؟“ ملاحظہ فرمائیں ۔ |