رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ و
دوسرا جمعة المبارک:
رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی دعا جو دوسرے عشرے کے اختتام تک روزہ داروں
اور نمازیوں کے زبان زدِ عام ہے : اَستَغفِرُاللّٰہَ رَبّیِ مِن کُلِّ ذَنبٍ
وَّاَتُوبُ اِلَیہِ o ترجمہ: میں اللہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں
جو میرا رب ہے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اسی لیئے جنابِ من ! ہر مسلمان اپنے اپنے حصے کی نیکی اور رمضان میں زیادہ
سے زیادہ عبادات کرنے اور نیکیاں سمیٹنے میں ، اور روزہ رکھنے میں مگن ہے
کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ:
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ‘ دوسرے
عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا۔جس کو حق تعالیٰ شانہُ بادلوں
سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں
اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا ‘ گو (کسی مصلحت سے ) کچھ
دیر ہو جائے۔
ایک اور جگہ حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
” جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ” باب الریان “ کہا جاتا ہے،
اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی
اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ
بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے، اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا
کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑیں گے، ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے
داخلہ نہیں ہو سکے گا ‘ جب روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو
یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا ‘ پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔“
(سبحان اللہ)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
” جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا (یعنی رات
کو تراویح پڑھیں ) اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ (بخاری و
مسلم)
رمضان المبارک کے فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ اور مسلمان مرد و
عورت، بچے بوڑھے ، جوان سب ہی عبادات میں مصروف ہیں۔ اب چونکہ رمضان
المبارک کے دوسرے عشرے کا دوسرا جمعہ بھی گزر چکا ہے۔ مگر دوسرے جمعے کے
روداد کو قلم کے حوالے کیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔دوسرے عشرے کے دوسرے جمعے
میں نمازیوں اور فرزندانِ توحید کا ایک سیلاب امڈ پڑا اور راجدھانی
(دارالخلافہ) اسلام آباد کے فیصل مسجد کا ذکر ہو یا لاہور کے بادشاہی مسجد
کا، ذکر ہو کراچی کے مسجدِ طوبیٰ کا یا میمن مسجد کا، غرض کہ ملک کے طول و
عرض میں بڑی اور علاقائی مساجد میں نمازیوں اور فرزندانِ توحید کا ایک
سیلابِ رواں تھا جو اُمڈ آیا تھا اپنے پرور دگار کو راضی کرنے کیلئے، اپنے
گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے، ہر َسر، سَر بسجود نظرآ رہا تھا ۔ اوریہ
سب کچھ ایک روح پرور منظرکا سماں پیش کر رہا تھا۔ کاش کہ سارے مسلمانوں کو
اللہ تبارک و تعالیٰ پورے سال ایسے ہی عبادات اور نماز پڑھنے کی توفیق دے
دے۔(آمین)
نماز میں آئمہ و خطباءنے روزے کی فضیلت و اہمیت اور زکوٰة کی فرضیت اس کے
نکالنے پر ثواب نہ نکالنے پر عذاب اور وعیدیں بیان فرمائیں۔ اپنے خطبات میں
رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں غرباءو فقراءاور مساکین کی امداد کرنے پر
کافی زور دیا گیااور بتایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو
جو غرباءو فقراءکا رمضان شریف میں خیال کرتے ہیں انہیں روزہ افطار کراتے
ہیں ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے ہیں ، مساکین کی ہر طرح سے مدد کرنے،
اپنا دوست رکھتا ہے۔ جن لوگوں کو انواع اقسام کی نعمتیں میسر نہیں ہیں
انہیں اپنے عیش و عشرت کے سامان میں شریک کر لیں اور ان کی غربت و افلاس کو
اپنی بھوک و پیاس میں شامل کر لیں تو خدا تعالیٰ ایسے بندوں کو اجرِ عظیم
سے نوازتا ہے۔اس مہینہ کو صبر کا مہینہ کہا جاتا ہے اور صبر کا ثواب جنت
بتایا گیا ہے۔ یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے اس میں مومن کا رزق بڑھا
دیا جاتا ہے۔ روزہ عملی شکر کی بہترین مثال ہے۔ دن بھر بھوک و پیاس سے اللہ
کی نعمتوں کا انسان خلوصِ دل سے اعتراف کرتا ہے اور اس کے دل میں شکرِ
الٰہی بجا لانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ روزوں کے باعث باہمی اتفاق و اتحاد
کا جذبہ بھی ہر طرف نظر آتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ ایک نفل کا ثواب فرض کے
برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہے اس لیئے اس
مہینے میں جتنا ہو سکے غریبوں و مسکینوں اور یتیموں کی مدد کریں ۔
رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ ہمارے سرو پر
سایہ فگن ہے، بلا شبہ ماہِ رمضان کی فضیلتیں اور اس کی عظمتیں بہت زیادہ
ہوتی ہیں۔ رمضان شریف میں معمولی کارِ خیر میں ڈھیروں ثواب ملتے ہیں اس لئے
امتِ مسلمہ کے اندر بھی نیکیوں کا جذبہ بے حد بڑھ جاتا ہے۔اسی وجہ سے اکثر
فرزندانِ اسلام اپنی زکوٰة اور فطرے رمضان المبارک غرباءو مساکین میں تقسیم
کرتے ہیںاور ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے کیونکہ نماز و روزہ کی طرح زکوٰة بھی
اسلام کا ایک بنیادی رکن تصور کیا جاتا ہے۔اس کی فرضیت کا منکر یقینا کافر
ہوگا۔اور ادائیگی میں تاخیر کرنے والا فاسق کہلائے گا۔ زکوٰة دینے سے مالوں
کی صفائی ہو جاتی ہے اور اس میں بے انتہا برکت ہوتی ہے۔ نبی ¿ اکرم حضرت
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانِ پاک ہے: ” زکوٰة دے کر اپنے
مالوں کو مضبوط قلعوں میں کر لو“ (ابو داﺅد، بہارِ شریعت)
جس مال کی زکوٰہ نہیں نکالی جاتی ہے اس میں بے برکتی ہی ہوتی ہے اور دوسرے
ذرائع سے مال کہیں نہ کہیں تلف اور برباد ہو جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ
دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سارے لوگ زکوٰة کی رقم غیر مستحقین یا غیر مستحق
اداروں میں دے دیتے ہیں اس طور پر ان کی زکوٰة ادا نہیں ہوتی۔ زکوٰة و فطرہ
کی رقم صرف انہیں کو دیں جن سے آپ بخبوی واقف ہوں۔ پڑوسیوں اور رشتہ داروں
میں اگر کوئی مستحق زکوٰة ہے تو دوسروں پر اس کو ترجیح دیں، بعض لوگ حاجت
مند ہوتے ہیں مگر زکوٰة و فطرہ لینے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں انہیں عیدی
کہہ کر بھی زکوٰة کی رقم دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نیکی کا سلسلہ جاری و ساری
رہنا چاہیئے۔
کہتے ہیں کہ جب نیکی کی جائے تو دایاں فرشتہ لکھتا ہے ، اور جب بُرائی کی
جائے تو بایاں فرشتہ لکھتا ہے۔ لیکن میں یہاں ذکر کرتا چلوں جو شاید بہت کم
لوگوں کے علم میں ہے اور آج کے نوجوانوں کیلئے جو بے راہ روی کے شکار ہیں
ان کیلئے بہت سود مند بھی۔ وہ یہ کہ کہ کیا آپ کو ایسا ”عمل “ معلوم ہے ،
کہ جس کے کرنے سے دونوں فرشتے حرکت میں آجاتے ہیں؟
وہ عمل ہے : ” درود شریف “ کا کثرت سے پرھنا، درود شریف پڑھنے والے کے لئے
دایاں فرشتہ دس نیکیاں لکھتا ہے، اور بایاں فرشتہ دس گناہ مٹاتا ہے۔ اور
اللہ تبارک و تعالیٰ دس درجات بلند فرماتا ہے۔ سبحان اللہ
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے کی ہمت عطا
فرمائے۔ رمضان المبارک کے روزوں کا احترام و ادب کا تقاضا ہے کہ نہ صرف
روزہ رکھا جائے بلکہ ہر اس کام سے بچا جائے جو رخنہ اندازی کا باعث ہو۔ ایک
ماہ میں 450گھنٹے بظاہر بھوک، پیاس اور شہوت وگیرہ پر قابو پانے تک محدود
نظر آتا ہے لیکن اس کا حلقہ بہت وسیع و عریض ہے ضرورت تو اس کی بھی ہے کہ
بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی انسان بھلائی کرے، برائی سے بچے اور اپنی جذبات
و خواہشات کو حدود کے اندر رکھے ۔ اللہ رب العزت ہم سب کو رمضان اور اس کے
بعد بھی نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثم آمین) |