اِعتِکاف کیلئے تمام مساجِد سے
مسجِدُ الْحرام شریف افضل ہے، پھر مسجِدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی
صَاحِِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پھر مسجِداقصٰی شریف (بیتَ الْمُقَدَّس
)پھرایسی جامع مسجِد جس میں پنج وقتہ باجماعت نَمازہوتی ہو۔اگرجامِع مسجِد
میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھراپنے مَحَلّہ کی مسجِد میں اعتِکاف کرناافضل ہے۔
(فتحُ القدیر،ج٢،ص٣٠٨)
جامعِ مسجِدہونااعتِکاف کے لئے شَرط نہیں بلکہ مسجِدِجماعت میں بھی
ہوسکتاہے۔مسجِدِجماعت وہ ہے جس میں امام ومُؤَذِّن مقرَّر ہوں اگرچہِ اس
میں پنج گانہ نَماز نہ ہوتی ہواورآسانی اس میں ہے کہ مُطلَقاً ہرمسجِدمیں
اعتِکاف صحیح ہے۔اگرچِہ وہ مسجدِجماعت نہ ہو۔(رَدُّالمُحتَار،ج٣،ص٤٢٩)
خُصوصاًاِس زمانے میں کہ بعض مسجِدیں ایسی ہیں کہ جن میں نہ امام ہیں نہ
مُؤَذِّن۔ (بہارشریعت ،حصہ٥،ص١٥١)
معتکف اوراحترامِ مسجد
پیارےمُعْتَکِف بھائیو!چُونکہ آپ کو دس ١٠ روز مسجِدہی میں گزار نے ہیں اِس
لئے مناسِب یِہی ہے کہ چند باتیں اِحتِرامِ مسجِدسے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔
دَورانِ اعتِکاف مسجِد کے اندر ضَرورۃًدُنیَوِی بات کرنے کی اجازت ہے لیکن
دِھیمی آوازکے ساتھ اوراحتِرامِ مسجِدکو مَلحُوظ رکھتے ہوئے بات کیجئے۔یہ
نہیں ہوناچاہئے کہ آپ چِلّا کر کسی اسلامی بھائی کوبُلا رہے ہوںاوروہ بھی
آپ کوچِلّاکرجواب دے رہا ہو، ''ابے تبے''اورغُل غَپَاڑے سے مسجِدگونج رہی
ہو۔ یہ انداز ناجائز وگناہ ہے۔ یادرکھئے! مسجِد میں بِلاضَرو ر ت دُنیَوی
بات چیت کی مُعْتَکِف کو بھی اجاز ت نہیں۔
ان کو اللّٰہ سے کچھ کام نہیں
سیِّدُنا حَسَن بصری رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ رَحمت ،شفیعِ
اُمّت،شَہَنشاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کافرمانِ ذی شان ہے :
یَأتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَّکُوْنُ حَدِیْثُھُمْ فِیْ مَسَاجِدِھِمْ
فِیْ اَمْرِ دُنْیَاھُمْ فَلا تُجَالِسُوْھُمْ فَلَیْسَ لِلّٰہِ فِیْھِمْ
حَاجَۃٌ۔
(شُعَب الایمان ،ج٣،ص٨٧،حدیث٢٩٦٢)
ترجَمہ:'لوگوںپرایک زمانہ ایساآئے گاکہ مساجِد میں دُنیاکی باتیں ہوں گی،تم
ان کے ساتھ مت بیٹھوکہ ان کواﷲ(عَزَّوَجَلَّ )سے کچھ کام نہیں۔
اللّٰہ تیری گمشدہ چیز نہ ملائے
حضرتِ سیِّدُناابوہُرَیرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ
راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحبِ مُعطَّر پسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِی الْمَسْجِدِ فَقُوْلُوْا لَا
رَدَّھَا اللّٰہ عَلَیْکَ فَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِہَذا(صحیح
مسلم ،ص٢٨٤،حدیث٥٦٨)
ترجَمہ:جو کسی کو مسجِد میں بآوازِ بلند گمشدہ چیزڈھونڈتے سنیں تووہ
کہیں،''اﷲ عَزَّوَجَلَّ وہ گمشدہ شے تجھے نہ ملائے''۔ کیونکہ مسجِدیں اس
کام کیلئے نہیں بنائی گئیں۔
مسجد میں جوتے تلاش کرتے پھرنا
محترم قارئین کرام!جولوگ اپنے جوتے یاکوئی اور چیزگم ہوجانے پر مسجِد میں
شور کرتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں ان کو بیان کردہ حدیث ِ مبارک سے درس حاصل
کرنا چاہئے ۔معلوم ہواکہ ہراُس کام سے مسجدکو بچانا ضَروری ہے جس سے
مسجِدکاتقدُّس پامال ہوتاہو۔دُنیوی باتیں،ہنسی مذاق اوراسی طرح کی لَغویات
کیلئے مسجِدیں نہیں بنائی گئیں بلکہ مسجدیں تو عبادتِ الہٰی، کیلئے بنائی
گئی ہیں۔مسجِد میں بُلند آوازسے گفتگو کرنے کو صَحابہء کرام علیہم الرضوان
کتناناپسندکرتے ہیں اس کااس روایت سے اندازہ لگائیے۔ چُنانچِہ
تو تمہیں سزا دیتا
حضرتِ سیِّدُناسَائِب بن یزیدرضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، میں مسجِد میں
کھڑاہوا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری ۔میں نے دیکھاتووہ حضرتِ سیِّدُنا
امیرُالْمُؤمِنین عمرفاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہُ تھے،اُنھوں نے مجھ سے
(اشارہ کرکے) فرمایا:''ان دوشخصوں کومیرے پاس لاؤ!''میں ان دونوں کولے آیا
حضرت سیِّدُناعمررضی اﷲتعالیٰ عنہ نے اُن سے اِسْتِفْسار فرمایا،''تم کہاں
سے تَعَلُّق رکھتے ہو؟ عرض کی،''طائف سے۔'' فرمایا ، ''اگرتم مدینہ منوَّرہ
کے رہنے والے ہوتے (کیونکہ وہ مسجِدکے آداب بخوبی جانتے ہیں ) تو میں تمہیں
ضَرور سزا دیتا (کیونکہ) تم رسولُ اﷲعَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی مسجِد میں اپنی آوازیں بُلند کرتے ہو! (صحیح
بخاری،ج١،ص١٧٨،حدیث٤٧٠)
مباح کلام نیکیوں کو کھا جاتا ہے
حضرتِ سیِّدُنامُلّاعلی قاری علیہ َرحمۃُاللہ الباری، مُحَقِّق عَلَی
الْاِطْلاقشیخ ابن ھُمام علیہ رحمۃُ اﷲ السّلام کے حوالے سے نَقْل فرماتے
ہیں،
''اَلْکَلَامُ الْمُبَاحُ فِی الْمَسْجِد
ِ مَکْرُوْہٌ یَاکُلُ الْحَسَنَاتِ''
(مرقاۃالمفاتیح ،ج٢،ص٤٤٩)
(ترجَمہ)''مسجِدمیںمُباح(یعنی جائز) بات کرنا مکروہِ(تحریمی)ہے اور نیکیو ں
کو کھاجاتا ہے۔''
سَیِّدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکارِ والا
تبار، بِاِذْنِ پروَردگار دو ٢جہاں کے مالِک ومختار، شَہَنْشاہِ اَبرار
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
اَلضَّحْکُ فِی الْمَسْجِد ظُلُمَۃٌ فیِ الْقَبْرِ
(الجامِعُ الصَّغیر،٣٢٢،حدیث٥٢٣١)
ترجَمہ:''مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔''
قبر میں اندھیرا
محترم قارئین کرام! مذکورہ بالا رِوایات کوباربارپڑھئے اوراﷲ عَزَّوَجَلَّ
کے خوف سے لرزئیے!کہیں ایسانہ ہوکہ مسجِدمیں داخِل تو ہوئے ثواب کمانے مگر
خوب ہَنس بَول کرنیکیاں بربادکرکے باہَرنکلے کہ مسجِدمیں دُنیاکی جائز بات
بھی نیکیوں کوکھاجاتی ہے ۔ لہٰذا مسجِد میں پُرسُکون اورخاموش رہئے۔ بیان
بھی کریں اس میں توسنجیدَگی کے ساتھ کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے لوگوں کو
ہنسی آئے۔نہ خودہنسئے نہ لوگوں کوہنسنے دیجئے کہ مسجِدمیں ہنسنا قَبْرمیں
اندھیرا لاتا ہے۔ ہاں ضَرورتاًمسکرانامنع نہیں۔مسجِد کے اِحتِرام کا ذِہن
بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کا معمول بنائیے ۔
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم و عنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |