رمضان المبارک کی راتوں میں سے
ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر و برکت والی رات ہے۔ قرآن پاک میں
اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”بے شک
ہم نے اس (قران) کو شب قدر میں اتارا ہے اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے۔ شب
قدر (فضیلت ، و برکت اور اجر وثواب میں ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس (رات)
میں فرشتے اور روح الا مین (جبرائیل ؑ) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے )
ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے۔“ (سورةالقدر)
خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے جو شخص یہ ایک رات
عبادت میںگزاردے گویا اس نے تراسی سال اور چار مہینے سے زیادہ کا عرصہ
عبادت میں گزار دیا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار
مہینے سے کتنے مہینے زیادہ افضل ہے۔ یہ حقیقتاََ اللہ تعالیٰ کا بہت ہی بڑا
انعام ہے کہ اس نے امّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ نعمت بے بہا
مرحمت فرمائی ہے جو پہلی اُمتوں کو نہیں ملی۔
لیلتہ القدر کی فضیلت احادیث نبوی کی روشنی میں :
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا
مہینہ آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”تمہارے اوپر
ایک مہینہ آرہا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس
رات سے محروم رہ گیا گویا ساری خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے
محروم نہیں رہتا وہ شخص جو حقیقتاََ محروم ہی ہے۔ ( ابنی ماجہ ۔ مشکوٰة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم ارشاد فرمایا کہ” جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی
نیت سے (عبادت کے لئے) کھڑا ہو ا اس کے پچھے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے
ہیں“(بخاری ۔مسلم)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ” لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرے
کی طاق راتوں میں تلاش کرو“(بخاری ۔مشکوٰة)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
شب قدر کے بارے میںدریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: شب قدر‘ رمضان کے
آخری عشرے کی طاق راتوں میںہے ۔ یعنی 21، 23 ، 25 ، 27، 29 ، یا رمضان کی
آخری رات میں، جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس رات میں عبادت کرے
اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ اس رات کی علامات یہ ہیں کہ وہ رات
کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی ،
بلکہ معتدل گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے ) چاند کھلا ہوا ہے۔“
نیز اس رات کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس رات کے بعد کی صبح کو آفتاب
بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔ بالکل ایسا ، ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ
چودھویں کا چاند ۔(مسند احمد ۔ بہقی)
اعتکاف کا مقصد بھی دراصل تلاش ِشب قدر ہے ۔ اسی لئے رمضان کے آخری عشرے کا
اعتکاف سنت قرار دیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تک اللہ
تعالیٰ نے اس شب قدر کے تعین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا ، آپ اس کی تلاش کے
لئے پورا رمضان کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جب آگا ہ فرمادیا گیا تو وصال
تک صرف آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے رہے۔
شب قدر کی کچھ نشانیاں احادیث اور صالحین کے تجربات کی روشنی میں یہ ہیں ،
اس مخصوس رات میں فرشتوں کے نزول کی وجہ سے ایک خاس قسم کی سکونیت محسوس
ہوتی ہے ۔ دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔ اس رات زیادہ سردی یا گرمی کا احساس
نہیں ہوتا بلکہ معتدل ہوتی ہے۔ یہ رات کھلی اور روشن ہوتی ہے بہر حال نمازی
کو اس رات میں معمول سے زیادہ راحت حاصل ہوتی ہے اورذہن پر کیف و سرور کی
سی کیفیت چھائی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت رات میں عبادت کی
توفیق عطا فرمائے ۔
دعا ہے ۔یااللہ ہماری تمام عبادات کو قبول فرما۔یا اللہ ہمارے تمام گناہوں
کو معاف فرما اور ہماری تمام پریشانیاں ، بیماریاں دور فرما۔ یااللہ ہمارے
رزق ، مال اور جان کی حفاظت فرما اور ان میں برکت عطا فرما۔ یااللہ ہمیں
تاحیات پنچ وقتہ نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرما اور والدین کا
فرمانبرداربنا ۔ آمین |