مستقبل ہے تو لاالہٰ

غلامی ایک لعنت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کروڑوں غلاموں نے ایک خواب دیکھا اور دیوانوں نے اسے حقیقت بنانے کے لیے تگ وتاز سے پورے ہندوستان میں آزادی کی روح پھونک دی۔ وطنِ عزیز پاکستان کا قیام برّصغیرجنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا دیرینہ خواب تھا۔جس کی تعبیر پینسٹھ برس پہلے شبِ قدر کی مبارک ساعتوں میں بطور انعام عطا ہوئی۔ایک معجزاتی ریاست نعرئہ لاالہ پر وجود میں آگئی ۔ صدیوں کی زبوں حالی ،پستی کے بعد علیحدہ وطن کی جدوجہد کو شرف باریابی بخشا تو ایک کلمہ توحید کی بنیاد پر ۔ مگر شکست خوردہ عناصرکبھی اس کاسہرا ھندو تعصّب کے سر باندھتے تو کبھی جنگِ عظیم دوم میں اتّحادی افواج کی فتح کو کریڈٹ جاتا ،جس کے باعث برّ صغیر سے انگریزوں کو اپنے ملک کی تعمیر نو کے لئے واپس لوٹنا پڑا ، یوں افراتفری میںھندوستان کی تقسیم عمل میں آئی ۔ حالاں کہ مشترکہ جدوجہدِ آزادی میں مسلمان اقلیت کا شاندارکردارتاریخ میں سنہرے حروف سے رقم ہے۔ھندووں کی روباہی ، کینہ اپنی جگہ، گمنام مسلمانوں کی بے شمار قر بانیاںپاکستا ن کی بنیاد بنیں ۔ اور دو سو سالہ دورِ حکومت میں ھندوستان کی کروڑوں کی آبادی کاانتظام سنبھالنے کے لئے محض چار سو انگریز افسران تعینات تھے ۔

اس وقت سے آج تک و طنِ عزیز کے لئے منفی قیاس آرائیوں کاسلسلہ جاری ہے۔سازشوں کا سلسلہ مقامی ہو یا بین الاقوامی کہیں پاکستان ناکام ریاست پر مباحثہ ، کبھی مستقبل پر کتاب future of pakistan تو کبھی ورکشاپ آخر پاکستان مرکزِ نگاہ کیوں ہے ؟؟دنیا کے نقشے پر آزاد ،باج گذار ،نسل پرست ہر طرح کی اقوام موجود ہیں۔ در اصل پاکستان نہ صرف ایک بلند، ارفع نظریہ، کلمہ توحید پر پر قائم ہے بلکہ دنیا کا مستقبل بھی اس سے وابستہ ہے۔ مملکت خداداد کی ناکامی کی آڑ میں حاکمیت الہیہ کو فرسودہ ثابت کرنا تمام لا خدا قوتوں کا ایجنڈا ہے ۔مگر جس طرح پاکستان کا قیام معجزہ تھا اسی طرح اس کی بقا بھی معجزہ ہے ۔ پینسٹھ برسوں سے قیادت سے محروم ، منصوبہ بندی کے بغیر،کروڑوں کی آبادی کا ملک کیوں کر وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ؟؟ معجزہ ہی تو ہے ۔

مشترکہ ورثہ اور ثقافت کا راگ الاپنے والے دانشور وں پر قیامِ پاکستان کو بیک جنبشِ قلم کا لعدم کرنے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ واجب ہے،سر سیّدہوں یا مولانا جوہر ،قومی شاعر اقبال یا قائداعظم سب نے غلامی سے نجات کے لئے ھندومسلم مشترکہ جدّجہد سے آغاز کیا مگراکثریت کے بہیمانہ عزائم کا ادراک ہوتے ہی شدّومد سے مسلمانوں کے جداگانہ تشخّص اور پھر علیحدہ وطن پر یکسو ہوگئے۔صد شکر کہ دور ِغلامی میں بھی صاحبِ بصیرت قائدین نے قوم کو تنہا نہ چھوڑا۔

نوزائیدہ ریاست شدیدخطرات ،مختلف بحران کا شکار رہی۔ قیامِ پاکستان کے آخری لمحوں میں ابن الوقت عناصر نے ہوا کا رخ بھانپ کرجس طرح جوق در جوق تحریک میں شمولیت اختیا ر کی۔اور پھر اقتدار کی بندر بانٹ میں حصّہ وصول کرنے کی جدّوجہد میں جت گئے، کبھی اشتراکیت کبھی سرمایہ داریت کو ملک کے جملہ مسائل حل قرار دیاجاتا۔ سوشلزم کو پاکستان میں علانیہ ر ائج کیا گیا اورناکامی سے دوچارہوا۔بعد ازاں تمام ترقی پسند عناصر سرمایہ داریت کے کیمپ میں جمع ہوئے۔پاکستان کوایک روشن خیا ل ملک کا استعارہ بنادیا۔ مگر اپنے وطن میںغرق آبی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں سرمایہ داریت کا مستقبل سوشلزم سے زیادہ تاریک ہے۔ نو آبادیاتی نظام کی تربیت یافتہ افواج کو دفاعِ مملکت کی ذمہ داری بھلا کر اقتدار کی شراکت داری بہت بھائی۔بار بار نجات دھندہ کے روپ دھار کر مہم جوئی کی ۔مگر پھر بھی مملکت کی بنیاد اسلامی قوانین اور تہذیب ریاست میں صرف رسمی اور نمائشی طور پررواج پاسکے کبھی تصّورِامانت اور احتساب کے ساتھ نافذ نہ کیے گئے۔

آج کا بنگلہ دیش ،سابقہ پاکستان سے جڑی مختصر سی نسل پرست ریاست میانمار میں فاقہ کش مسلم اقلیت کی تباہی بربادی نے وطنِ عزیز کا قیام نہ صرف برحق ثابت کیا بلکہ اسکی قدرو قیمت پہلے سے کہیںبڑھادی ہے ۔ بھکشو،فوج ،مقامی آبادی نے اکثریت کے زعم میں روہینگیاکے مسلمانوں کو بد ترین ظلم و تشدّد ،آبرو ریزی، آتش زنی ، فائرنگ ، تعذیب کانشانہ بنایا ۔یہ بھی عجیب اتّفاق ہے کہ اس دور دراز علاقے جس کا علیحدہ وطن میں شامل ہونے کاکوئی امکان نہیں تھا انتہائی نڈر ہوکرپاکستان کا حصہ بننا چاہا ۔ ان کی خواہش حالیہ مسلم کش فسادات کے بعدکتنی حقیقی ، برمحل نظر آتی ہے۔ اب آسام کے تازہ ہنگامے صد شکر کہ تحریکِ پاکستان کے عظیم رہنماﺅں نے لمحہ بھر کی غلطی سے بچ کے صدیوں کے پچھتاو ے و راثت میں نہ چھوڑے،ورنہ آج خطّہ میں مسلمانوں کا نام بھی نہ ہوتا۔ امن کے پجاری ہوں یا مشترکہ وراثت کے فلسفی ، قیام ِپاکستان کا جواز جھٹلانے کی ہزار کوشش کریں مگر تلخ ترین حقیقت روزِ اوّل کی طرح مجسّم سامنے آجاتی ہے اور تمام خوف ناک اندیشوں کو سچ ثابت کردیتی ہے۔

بزدلی کا کوئی بھی نام دیا جائے،پتھروں کے دور میں رہنے کاخیال، دنیا میں تنہائی کا نام یا کچھ اور بزدلی ہی رہتی ہے۔ وطنِ عزیزکو بزدل ، نا اہل حکم رانوںکے سوا کوئی خطرہ در پیش نہیں ہے ۔ مگر بد قسمتی سے ہمیشہ انتہائی ڈرپوک اور نا اہل قیادت عوام کے سروں پر مسلّط رہی ہے۔ بلا شبہ اپنے مقصد سے روگردانی کی سزا ہمارا مقدر بنی۔ عصبیت کی نشو و نما نے ملک کے دو ٹکڑ ے کر دیے۔اقوامِ عالم میں قائد بننے کے بجائے رسوائیاں سمیٹیں ۔مگر عصبیت کو بیرونی مداخلت کے بل پر مزید کسی کامیابی کا امکان نظر نہیں آرہا ۔ اس منظر نامہ میں جو نقطہ واضح ہے ۔اس ملک کامستقبل اشتراکی ہے نہ خاکی !نہ ہی فحاشی اور بے لگام آزادی یہی وہ پیغام ہے جو رب ذوالجلال کی جانب سے کوتاہیوں کے تسلسل کے باوجود ہرگذرتے لمحہ پختہ ہورہا ہے۔ سیلِ عوام اور امانت دار اور جرات مندرہنما،امن و انصاف کے اصولوں سے مزین معاشرہ ،دنیا میں راست روی کی شاندار مثالیہ تھا تصوّرِ پاکستان اور جلد ہوگا منظرِپاکستان کیوں کہ فیصلہ کن گھڑی ہے اور مہلتِ عمل مختصر ملک کی خود مختاری کا سوداکرنے والے سپہ سالار ہوں یا بدعنوان رشو ت خورحکمران یوم آزادی پرغور کر لیں اس سے پہلے کہ عوام ہر نقش ِکہن کو مٹا ڈالیں،طرزِ نو کو اپنالیں ۔

مگر مایوسیوں کے دھندلکے میں جامعات کے باشعور طلبہ وطالبات نے یوم آزادی باہمی اتّفاق واتحادسے منا کر وطنِ عزیز کے مستقبل کے بارے میںخدشات کو یکسر دور کردیا ہے جو مکّار دشمن اور بدعنوان حکومت شددّومد ، منصوبہ بندی سے پھیلا رہی ہے۔نوجوان ہر قوم کی امید اور مستقبل ہوتے ہیں،اور ہمارے نوجوان اس ملک کی نظریاتی بنیاد سے برگشتہ ہیں نہ مایوس تو پھر کوئی سبب نہیں کہ قوم دل وجان سے آزادی، امید کی نعمتوں پر تشکّر نہ بجالائے۔کسی تائید اور حمایت کے بغیر طلبہ وطالبات کا جوش وخروش ، کلمہ سے وابستگی تقاضہ کرتا ہے کہ محبّ وطن عناصریک جان ویک قالب ہوکر تمام اندرونی و بیرونی سازشوںنیز مایوسی کا منہ توڑ جواب دیں اور وطن کی زمامِ کار تھام لیں کہ ہم سب کا پاکستان ترقّی کی راہ پر گامز ن ہوسکے ۔
Nighat Yasmeen
About the Author: Nighat Yasmeen Read More Articles by Nighat Yasmeen: 8 Articles with 7132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.