ہندوستان میں اس سال آزادی کا
۶۶واں جشن منایا جارہا ہے ۔ ہم اس لئے بھی خوش ہیں کہ گزشتہ اولمپک کی
بنسبت ہمارے تمغوں کی تعداد ۳ سے بڑھکر ۶ یعنی دوگنی ہوگئی ہے گویا سکسر کی
ہٹ ٹرک ہوگئی اور ایسا ہمارے ملک میں نافذ جمہوری نظام کے باعث ہوا ہے ۔لیکن
کیا یہ بات باعثِ شرم نہیں ہے کہ ۱۲۰ کروڈ کی آبادی والا یہ عظیم ملک ایک
بھی سونے کا تمغہ حاصل نہ کر سکا جبکہ براعظم افریقہ کا ایک پسماندہ ملک
ایتھوپیاجس کی فی فرد اوسط آمدنی ہندوستان کے ۱۳۰۰ کے مقابلہ ۳۰۰ ڈالرہے
اور آبادی ہندوستان سے پندرہ گنا کم یعنی صرف آٹھ کروڈ ہے ۷ تمغے حاصل
کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان سات میں سے تین طلائی تمغے بھی ہیں ۔ اگر کسی
کامیابی کا کریڈٹ اس ملک میں رائج نظام حکومت کو دیا جاسکتا ہے تو اس کی
ناکامی کا ذمہ دار بھی وہی نظامِ سلطنت ہوگا ورنہ تو یہ کوئی انصاف نہ ہوا
کہ ہم صرف اپنی فتوحات پر بغلیں بجائیں اور شکست سے آنکھیں چرائیں ۔
دل کے بہلانے کو ہم ہندوستانی یہ ضرور کہتے ہیں کہ دنیا کا سب سے زیادہ
سونا زیورات کی شکل میں ہمارے ہی ملک کے اندرموجود ہے اس لئے ہمیں سونے کے
تمغوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے لیکن یہ بات اس لئے بھی غلط ہے کہ اگر
سونے میں دلچسپی نہیں ہے تو اس قدر سونا جمع کرکے رکھنے کی ضرورت ہی کیوں
پیش آتی ہے ؟ حقیقت تویہ ہے کہ سونے کے زیور اورطلائی تمغوں میں ایک
بنیادی فرق یہ ہے کہ زیور بازار سے خریدے جاتےہیں اور تمغوں کو میدان میں
جیتنا پڑتا ہے ۔ یہی فرق ناقص و خالص آزادی میں ہے کہ ایک بازار میں نیلام
ہوتی ہے دوسری کو بڑے جتن حاصل کیا جاتا ہے ۔
آزادی کوئی ایسی شہ نہیں ہے جسے ناپا یا تولہ جاسکے اس لئے اسے سمجھنے
کیلئے ضروری ہے کہ انسان غلامی کا مفہوم سمجھ جائے آزادی کا مطلب ازخود اس
کی سمجھ میں آجائیگا ۔قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑکا قصہ بڑی تفصیل سے
بیان ہوا ہے ۔اس جلیل القدر نبی کی بعثت اس وقت ہوئی جبکہ ان کی قوم بنی
اسرائیل کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا ۔سورۂ شعراء میں اس واقعہ کا بیان
کچھ یوں ہے ’’اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے موسٰی (علیہ السلام)
کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ، (یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا
وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے‘‘۔ یہ حکم حضرت موسیٰ ؑ کو ایک ایسے وقت میں دیا
گیا جب وہ ایک طویل جلا وطنی کی زندگی گزار کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بے
یارو مدد گار مدین سے واپس لوٹ رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے بارگاہِ خدا وندی
میں اپنی مجبوری وناسپاسی کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’ اے رب! میں ڈرتا ہوں
کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے، اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ
ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی
طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون
بن جائے)، اور ان کا میرے اوپر (قبطی کو مار ڈالنے کا) ایک الزام بھی ہے سو
میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے‘‘۔
موسی ٰکلیم اللہؑ کی دلگدازعرضداشت کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ہرگز
نہیں، پس تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ (ہر بات)
سننے والے ہیں، پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو: ہم سارے جہانوں کے
پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں، (ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل
کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے‘‘ ۔ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لیجانے
کا مطالبہ دراصل ان کی آزادی کا تازیانہ تھا ۔اس کے جواب میں فرعون نے ایک
تو یہ کیا کہ پہلے اپنے احسان گنائے اور پھر احساسِ جرم کا شکار کر کے
ڈرانے دھمکانے کو کوشش کی ۔ آج بھی عوام کو اپنا غلام بنانے کیلئے یہی دو
حربے آزمائے جاتے ہیں۔
انتخابات کے دوران کیا ہوتا ہے؟عوام کو احسانات یاد دلائے جاتے ہیں۔ان سے
کہا جاتا ہے کہ ہم انگریزی سامراج سے جنگ کی ۔ ہم نے تمہیں آزادی دلائی
۔ہم نے تمہیں تحفظ فراہم کیا ۔ ہمارے دم سے تم امن و سلامتی کی زندگی گزار
رہے ہو۔تمہاری ساری خوشحالی کا سبب ہماری عنایات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن
محض ان غیر حقیقی احسانات کے اعادہ پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اسی کے
ساتھ کبھی اپنے آپ سے تو کبھی مخالفین سے بلواسطہ اور بلا واسطہ خوفزدہ
بھی کیا جاتا ہے ۔ پسِ پردہ سازش کرکے فرقہ وارانہ فسادات کروائے جاتے ہیں
اور پھر مظلوموں کے آنسو پونچھے جانے کا ناٹک کیا جاتا ہے ۔ صدر مملکت
اقلیتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وزیر اعظم وجوہات کا
پتہ لگانے کی یقین دہانی کراتے ہیں ۔اس قدر عظیم سانحہ جس میں ۷۷ لوگ جان
بحق ہوگئے اور ۴ لاکھ بے گھر کی وجوہات کا تک اگر وزیر اعظم کو ایک ماہ بعد
تک پتہ نہ ہو توانہیں لال قلعہ پر یوم آزادی کے پرچم کشائی اور بلندباگ
دعووں کا کوئی حق نہیں ہے ۔حکومت کے ذریعہ ایک طرف کسانوں کو خودکشی پر
مجبور کرنے والے سودی نظام کو فروغ دیا جاتا ہے اور پھر ان کی بازآبادکاری
کیلئے سرکاری خزانہ سے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اس منافقت کے علاوہ
وعدوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی ہماری انتخابی سیاست کی اہم ترین شناخت ہے
جنہیں اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لئے کہ وعدہ کرنے والے سیاسی رہنما
اوررائے دہندگان دونوں جانتے ہیں کہ ان کو شاذو نادر ہی پورا کیا جائیگا ۔
فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو مخاطب کرکے جوکہا تھا وہ یوں تھا:’’ کیا ہم نے
تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے
کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے، اور (پھر) تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا
جو تم نے کیا تھا (یعنی ایک قبطی کو قتل کر دیا) اور تم ناشکر گزاروں میں
سے ہو (ہماری پرورش اور احسانات کو بھول گئے ہو)‘‘۔اس طرح کی صورتحال میں
ایک حریت پسند رہنما کوکیا موقف اختیار کرنا چاہئے اور کس جرأتمندی کے
ساتھ اس کا اظہار کرنا چاہئے اس کی مثال حضرتِ موسٰی علیہ السلام کے جواب
میں ہے انہوں نے فرمایا: ’’جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا
ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)، پھر میں (اس وقت) تمہارے
(دائرہ اختیار) سے نکل گیا جب میں تمہارے (ارادوں) سے خوفزدہ ہوا پھر میرے
رب نے مجھے حکمِ (نبوت) بخشا اور (بالآخر) مجھے رسولوں میں شامل فرما دیا،
اور کیا وہ (کوئی) بھلائی ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے (اس کا سبب
بھی یہ تھا) کہ تو نے (میری پوری قوم) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا‘‘۔
حضرت موسیٰ ؑ نے بات کا رخ پھر آزادی و غلامی کی جانب موڑ دیا اور ببانگِ
دہل فرعون کے سامنے اعلان کیا کہ تمہارے دربار میں میری پرورش یہ کوئی
پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ مجبوری تھی۔ اگر بنی اسرائیل کو غلام نہ بنایا
گیا ہوتا اور ان کے لڑکوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری نہ ہوتا تو کیوں میری
ماں مجھے ایک ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں بہاتی؟گویا اس پرورش کیلئے
فرعون کا جبر اور بنی اسرائیل کی غلامی سزاوار ہے نیز قبطی کت قتل کیلئے
موسی ؑ کو ذمہ دارٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسے تقسیم ہند کیلئے مسلمانوں کو
قصور وار کہنا۔ کوئی ان وجوہات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتا جن میں جناح
جیسے سیکولر رہنما نے الگ ہونے کا فیصلہ اور ان لوگوں کو موردِ الزام نہیں
ٹھہراتا جنہوں وہ صورتحال پیدا کی اگر جسونت سنگھ ایسا کرنے کی کوشش کرتے
ہیں ت وان کے اپنے پرائے سب دشمن بن جاتے ہیں ۔ قبطی کا قتل اس لئےہوا وہ
کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص پروہ ظلم وزیادتی کررہا تھا جن کو زمین میں
فرعون کے حکم سے غلام بنا کر رکھا گیا تھا ۔ان کو مساوات و عدل جیسے بنیادی
حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا ۔ان کے اوپر مظالم کرنے والے قبطیوں کی کوئی
سرزنش حکومت یا عدالت کی جانب سے نہیں ہوتی تھی۔ قرآنِ عظیم میں اس کی
تصدیق اس انداز میں کی گئی ہے کہ ’’بیشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا
اور اس کے لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو کمزور دیکھتا ، ان
کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا بیشک وہ فسادی تھا
‘‘۔
اہل ایمان کے ساتھ دنیا کی مختلف نام نہاد جمہوریتوں مثلاً امریکہ،
فرانس،اسرائیل ،ہندوستان اور برما میں یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے
۔غلامی کا کوئی لیبل نہیں ہوتا کہ غلام قوم پر چسپاں کر دیا جائے بلکہ
حکمرانوں کا کسی ایک طبقہ کے تئیں اختیار کیا جانے والا ایک خاص رویہ مثلاً
بنیادی حقوق سے محرومی یا امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ جس سے تمام لوگوں کو پتہ
چل جاتا ہے کہ کون غلام ہے اور کون آقا ؟ انگریز اپنے سامراج کے اندر رہنے
بسنے والے آزاد لوگوں کو برطانوی شہری اور غلام قوم کے باشندوں کو سبجیکٹ
بائی برتھ یعنی پیدائشی ماتحت یا غلام لکھتے تھے جس سے اسے پتہ چل جاتا تھا
کہ وہ کون ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے ؟وہ اپنے خاص باغوں بلکہ ریل گاڑی کے
فرسٹ کلاس میں تختی لگا دیتے تھے کہ ہندوستانیوں اور کتوں کاداخلہ ممنوع
ہے۔
آج کل کسی کے پاسپورٹ پر لکھا تو نہیں جاتا لیکن غلامانہ سلوک بہر حال کیا
جاتا ہے اسی لئے جیل کی چہار دیواری کے قتیل صدیقی کو جو دہشت گرد ہلاک کر
دیتے ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اسی شہر پونے میں ہونے والے
دھماکوں کیلئےقتیل کے قاتلوں کے بجائے قتیل کے رشتہ داروں پر شک کیا جاتا
ہے ۔دیانند پاٹل جس کے ہاتھوں میں بم پھٹ گیا اس کے سیکڑوں ہندو دوستوں کو
چھوڑ کر دو مسلم دوستوں کی تلاش میں پولس سیکڑوں میل کاسفر کر کے اس کے
آبائی وطن پہنچ جاتی ہے ۔ممبئی میں مسلمانوں کے جلوس پر گولی چلانے کے
بعدپولس مرنے والوں کے قتل کا لزام مظاہرین پر جڑ دیتی ہے۔تیسری دنیا کے
ملک ہندوستان ہی میں سب ہوتا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق
کا سرخیل کہنے امریکہ میں ایک ایرانی خاتون شہر زاد کو محض اس لئے گرفتار
کر لیا جاتا ہے کہ اس کے سابق شوہر محمد سیف نے اندھیرے میں استعمال کئے
جانے والی عینک آسٹریا سے ایران برآمد کئے تھے ۔ جڑواں بچوں کی یہ ماں
پانچ سال جیل میں گزارنے کے بعد ابھی حال میں رہا ہوتی ہے ۔ اسے کہتے ہیں
غلامی کا سلوک جو دنیا کی سب بڑی جمہوریت میں روا رکھا جاتا ۔مگر ظلم کی یہ
چکی ہمیشہ نہیں چلتی جب مشیت کا فیصلہ نافذہوتا ہے تو بازی الٹ جاتی ہے اور
جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا کر رکھا گیا تھا انہیں رہنمائی کے مصبی پر
فائز کر دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کی بابت ارشادربانی ہے ‘‘اور ہم
چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان
کے ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں’’
حقیقی اسلامی آزادی کا اگرمصنوعی جمہوری آزادی سے موازنہ کیا جائے تو پتہ
چلتا ہے کہ مؤخر الذکر عوام کو بولنے کا حق تودیتی ہے لیکن حکمران کیلئے
ان کی بات ان سنی کردینے کا حق بھی بحال رکھتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ فصیح محمود کے اہل خانہ در بدر ٹھوکریں کھاتے تھک جاتے ہیں مگر نہ حکومت
کی کان پر جوں رینگتی ہے اور نہ عدالت فریادرسی کرتی ہے۔ انا ٹیم چیختے
چیختے تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے لیکن کوئی اس کے مطالبے پر کان نہیں دھرتا
بابا رام دیوکوایک حد تک چیخنےچلاّنے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر انہیں
گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔اس کے برعکس اسلام کی آزادی میں
خلیفۂ وقت عمر بن خطاب ؓ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر میں غلطی کروں تو تم
کیا کروگے ۔ ایک بدو بھرے مجمع میں جواب دیتا ہے کہ ہم تمہیں اس تلوار سے
درست کردیں گے اس پر وہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں جب تک
اس جیسے لوگ ہمارے بیچ ہوں گے ہم راہِ راست پر رہیں گے اور یہ صرف کہنے
سننےکی بات نہیں ہوتی بلکہ جب ایک بڑھیا مہر کی تحدید کے مسئلہ میں علی
الاعلان یہ اعتراض کرتی ہے کہ اے عمرؓ جس چیز کو اللہ نے حرام نہیں کیا اس
پر پابندی لگانے والے تم کون ہوتے ہو؟ تو حضرت عمر ؓ اپنی رائے سے سب کے
سامنے رجوع فرماتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ اس بڑھیا نے سچ کہا اور عمر نے
غلطی کی ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کاخلافت کےمنصب کو سنبھالتے ہی اعلان فرما نا کہ
اگر تم مجھے کسی معاملے میں خلاف ِ شریعت پاؤ تو میری اطاعت نہ کرنا ۔اسی
حقیقی آزادی کا مظہر ہے جس میں صاحب ِ اقتدار عوام کو اپنی اتباع کا پابند
نہیں بناتا بلکہ اس کے برخلاف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنے کی تلقین
کرتا ۔ اسلامی تصور آزادی میں معیارِ حق حکمران کی مرضی نہیں بلکہ کتاب و
سنت ہے اور عام آدمی کی طرح صاحبِ اقتدار بھی اس کا پابند ہوتا ہے ۔ غیر
اسلامی نظامہائے سیاست میں حکمراں مختلف قسم کا جواز فراہم کرکے اپنی مرضی
کو معیارِ حق بنا کر عوام پر اسے چلانے لگتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ایسا کرنے
کا مجھے موروثی حق ہے، کوئی اپنی نسلی برتری کو قائم رکھنے کیلئے اسے جائز
قرار دیتا ہے ، کسی کے نزدیک ایسا کرنا قومی و ملکی مفاد میں ہوتا ہے تو
کوئی اپنے آپ کو جمہور کا نمائندہ بناکر اس حق کو حاصل کر لیتا ہے اور
اپنی من مانی کرتا ہے لیکن صرف اور صرف اسلامی نظام ایسے ہر جواز سے مبراّ
ہے جس سے حکمرانوں کی مرضی معیار حق بن جائے اور یہی حقیقی آزادی کی سب سے
بڑی ضمانت ہے ۔
یہی وہ جذبۂ حریت ہے جو محمد مورسی سے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد یہ
اعلان کرواتا ہے کہ ویسے تو سبھی کے حقوق برابر ہیں لیکن مجھ پر تو ذمہ
داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں یعنی تم تو میری بات سے صرف ِ نظر کرنے کا حق
رکھتے ہو لیکن میں سربراہ کی حیثیت سے ایسا نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ اسلام
کی نظر میں حکمران قوم کا خادم ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے بلکہ اپنی رعایا
کیلئے جوابدہ ہوتا ہے اوریہی حقیقی آزادی کا وہ سرچشمہ ہے جس سے مصنوعی
آزادی کے سارے نظریات یکسر محروم ہیں ۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
دیگرنظامہائے سیاست میں حکمراں طاقتور اور رعایا کو کمزور بنا دیا گیا اس
کے برعکس اسلام میں قائد کو کمزور کردیا گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اسلام
میں چونکہ الوہیت اور ملوکیت اللہ رب العزت کیلئے ہے اس لئے اس کے آگے سب
کے سب بے بس ہیں لیکن آپس میں وہ ایک دوسرے کے برابر ہیں ۔ سب مل کر اسی
ایک خالق و مالک کی طاعت کرتے ہیں اسی کی بندگی بجالاتے ہیں اسی کی خوشنودی
چاہتے ہیں اور باہم ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔
اس نظامِ فکر کے ثمرات کو مصر کے اندر رونما ہونے والے حالیہ واقعات میں
دیکھا جاسکتا ہے ۔ اللہ کی رضاجوئی کی خاطر کام کرنے والا صاحبِ اقتدار صدر
اپنے انجام سے بے پرواہ ہوکر عوام کے مفاد میں بے دھڑک انقلابی فیصلے کرتا
چلا جاتا ہے ۔دستور کی ان ترمیمات کو جنہیں آخری وقت میں عوام کے نمائندے
کے پر کترنے کیلئے منظور کیا گیا تھا بیک جنبش مسترد کردیتا ہے ۔ اسی کے
ساتھ فوجیوں کی ایک ایک کر کے بڑی حکمت کے ساتھ چھٹی کر دیتا ہے ۔ اس فوجی
کونسل کا عملاً خاتمہ کردیاجاتا ہے جو ایک کٹھ پتلی صدر بنا کر بلاواسطہ
حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی ۔اگر ڈاکٹر محمد مورسی کو اپنے اقتدار کو
محفوظ رکھنے کی فکر ہوتی تو وہ ایسے جرأتمندانہ اقدامات کرنے کا خطرہ وہ
کبھی بھی مول نہیں لیتے دنیا پرستوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ یاتو وہ اپنے
جیسے انسانوں کو ڈراتے ہیں یا ان سے ڈرے سہمے رہتے ہیں لیکن جنھیں کرسی سے
زیادہ مقصد عزیز ہوتا ہے وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اوروہی اس طرح کے
دلیرا نہ اقدامات کرنے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
مملکت خدادا د پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سیکولر نظریات کے حامل
عوامی رہنما گزشتہ بارہا کوشش کے باوجود فوجی تسلط کا خاتمہ کرنے کی کوشش
کرنے میں ناکام رہےہیں حالانکہ انہیں بارہا اس کا موقع ملا لیکن فوج کے
خلاف بلند بانگ دعویٰ کر کے اقتدار میں آنے والے جمہوری نمائندوں نے
اقتدار سنبھالتے ہی اپنی کرسی کی خاطر فوج سے مصالحت کر لی اورگزشتہ ساٹھ
سالوں میں جس فوجی بالا دستی کا خاتمہ پاکستان میں نہیں ہوسکا اسے ایک
اسلام پسند رہنما نے مصر کے اندر ساٹھ دن سے کم کے عرصے میں کر دیا حالانکہ
مصر کی فوجی حکومت پاکستان سے زیادہ طویل اور مضبوط تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ
اگر رہنما خودنفس کا بندہ اور کرسی کا غلام ہوتو وہ بھلا اپنی عوام کو
حقیقی آزادی سے کیونکر روشناس کر سکتا ہے ؟ عوام تو صحیح معنوں میں آزادی
سے اسی وقت سرفراز ہوتے ہیں جب ان کا حکمراں ہر طرح کی غلامی سے آزاد اور
صرف رب کائنات کا بندہ اور غلام ہو ۔ایسا باطل ادیان کی ناقص آزادی میں
نہیں بلکہ صرف اورصرف اسلام کی خالص آزادی میں ممکن ہے ۔ |