این۔ جی ۔اوز اور پاکستان

دنیا میں کہیں بھی دیکھا جائے اگر کوئی بھی ادارہ جوابدہی کی ذمہ داری سے عاری ہو یا اس سے جواب طلب نہ کیا جاتا ہو تو ان کی کار کردگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر ادارے پرائیویٹ چلائے جائیں تو اس سے بر آمد ہونے والے نتائج کافی حد تک بہتر ہوں گے۔مغرب میں اس کا اطلاق تعلیم سے لیکر زندگی کے ہر شعبہ میں کیا جاتا ہے اور اس کی بدولت ان کی حالت بھی کافی مستحکم نظر آتی ہے۔بہت دیر سے مگر اس کا اطلاق آخر کار ایشیا میں بھی کیا گیا۔صنعت اور تعلیم کے علاوہ کئی ذمہ دار ادارے اس کی لپیٹ میں آئے۔اور اس کا نتیجہ ہر بار حکومت کے ماتحت کام کرنے والوں سے کافی بہتر برآمد ہوا۔میڈیا میں بھی ایسا ہی ہوا۔پھر آہستہ آہستہ ملک میں این۔ جی۔ اوز کا ایک جال بُنا گیا۔جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے بڑھتا ہی چلا گیا۔اب اس کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ ملک کے ہر کونے کوچے میں یہاں تک کہ ہر ایک یونین کونسل میں بھی تین چار این ۔جی۔ اوز کے دفتر قائم ہیں۔جن کو چلانے کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔جس کا بیشتر حصہ ملک کے باہر سے موصول ہوتا ہے۔جن ممالک سے اس مد میں زیادہ پیسہ وصول ہوتا ہے ان میں امریکہ، برطانیہ،ڈنمارک الغرض یورپی ممالک سرِ فہرست ہیں۔اگر پاکستان کی موجودہ حال کا جائزہ لیا جائے تو ایک ایٹمی طاقت مسلمان ملک جس کی ابتداءاسلام کے نام پر ہوئی۔اور اس کو اندرونی اور بیرونی خطرات خطرناک حد تک لاحق ہو گئے ہیں۔ اور ملک کی تمام تر سرحدیں محفوظ نہ ہیں ایک طرف سرحدوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔اور دوسری طرف ملک میں بگڑے ہوئے حالات بھی سنوارنے ہیں۔ان تمام تر فرائض سے بری ذمہ ہماری حکومت اپنے دال پانی کے چکر میں مصروف نظر آتی ہے۔عراق اور شام کی صورت حال انتہائی خراب کرنے میں یورپی ممالک کا کائی مد مقابل نہ ہے اور انہوں نے ےہ گھناﺅنا جرم تن تنہا ہی سرانجام دیا ہے۔جس میں ان کی استعمال کی گئی پالیسی یعنی ان کا لائحہ عمل سمجھنا ہمارے ملک کے تمام تر ذمہ داران کے لیے ایک انتہائی نا گزیر اس لیے بھی ہے کہ ملک می جاری ہر ایک کام میں یورپ کا اہم کردار ہے۔ کبھی تو پیسہ ابن کا آتا ہے۔چاہے بڑی بڑی خیراتی پالیسیساں ہونے یا پھر فلاح کے نام پر چلنے والے ملک کا نام بدنام کرنے والے ادارے۔اور اگر پیسہ نہ آئے تو کام کرنے کا طریقہ اور مقاصد ان سے پوچھ کر طے ہوتے ہیں۔اس لیے اس بات کو مد نظر رکھنا انتہائی اہم ہے کہ جہاں بھی یورپی ممالک نے اپنا سکہ منوانا چاہا وہاں سب سے پہلے اپنے چند اافراد کسی اور مقصد کے لیے داخل کیے پھر خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کی۔ اس کے بعد حالات قابو کرنے کے بہانے یا اس ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے غرض سے اس میں براہ راست داخل ہوئے اور اس ملک کا نقشہ و تقدیر تک بدل کر رکھ دیا۔بر صغیر پاک و ہند کا تابناک ماضی اس کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے۔عراق شا م اور ایسے ہی لیبیا جیسے کئی ممالک ہماری آنکھوں کے سامنے آکر ان کی حکمت عملی اور منافقانہ سوچ کی دلیل دیتے ہیں۔مگر ان تمام سر گرمیوں سے غافل ہماری حکومت نے نہ جانے کیوں غیر ملکی این ۔جی ۔اوز کو ملک کے ہر کونے میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔جو پیسہ اور کام کرنے کا منصوبہ باہر سے موصول کرتی ہیں۔ملک کے اندرونی معاملات تک میں دخل اندازی کرنے والی یہ این۔ جی ۔اوز ہماری عدالتوں ہمارے مذہب اور یہاں تک کہ ہماری شرم اور حیا اور ہمارے درمیان حائل ہو کر ہمارا ان سے فاصلہ بڑھانے میں اپنا پورا کردار ادا کر رہی ہیں۔گستاخ رسول کے مجرم کو سزا کے خلاف جب یہ ادارے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کا محض پیسہ استعمال ہوتا ہے ان کے اشاروں پر ناچنے والے اور ناچنے والیاں ہمارے ہی ملک کی مٹی سے پیدا ہوئے ہمارے ہی لوگ ہوتے ہیں۔مگر چند پیسوں کے عوض اپنا ضمیر کرائے پر دیکر یہ لوگ عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔ایسی این ۔جی۔ اوز کا مقصد محض ملک کے باشندوں کو حکومت مخالف سرگرمییوں میں شامل کرنا اور ان کے اندر ملک اور قوم کے خلاف بغاوت پیدا کرنا ہے۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں۔اب ان کا اگلا حدف ملک کا ایٹمی اثاثہ ہے ۔جس تک رسائی کے لیے ان کی انرجی اور پیسہ آج تک استعمال ہوتا آیا ہے۔یہ پیسے صرف ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ہی ادا نہ کیے گئے بلکہ کئی بااثر افراد کو خاموش رہنے کی قیمت کے طور پر بھی ادا کیے گئے۔ملک میں ہونے والے فسادات میں ان کا ایک اہم کردار لازمی شامل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارا وہ میڈیا جس کے پاس اب وسائل بھی ہیں اور ان کو آزادی بھی ہے ۔جو یہ تو دکھا سکتے ہیں کہ کب صدر اوباما کی تقریر کے دوران چوہا سامنے آگیا ۔اجمل قصابجو نہ جانے پاکستانی تھا بھی سہی یا نہیں۔ اس کا گھر تک دکھا سکتے ہیں۔انڈیا کا کوئی بھی اداکار مر جائے تو اس کی فلموں کی نمائش کرنے والا اور وزیراعلیٰ کی ڈیوٹی پر معمور اہلکار کو سوتے ہوئے دکھانے والا میڈیا اگر یہ سب کر سکتا تو یہ کیوں نہیں بتا سکتے کہ آج تک کسی گستاخ رسول کو موت کی سزاکیوں نہ دی جا سکی ۔اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ملک میں ہونے والے دنگے فسادات کے پیچھے این۔ جی۔ اوز کا کتنا ہاتھ ہے ۔یہ سب شائد وہ کبھی کر بھی نہ سکیں جس کی وجہ محض ان این ۔جی ۔اوز کے کروڑوں روپے کے اشتہارات ہیں جو ان اخباروں اور ان ٹی وی چینلز پر چلنے ہوتے ہیں۔اور وہ خفیہ ہاتھ ہیں جو ان اداروں کو ٹیکسوں سے بچا کر رکھتے ہیں ۔اور اپنے جاری کردا لائحہ عمل پر ان کو کام کرواتے ہیں۔ملک کے ہر کونے میں ہونے والے این جی اوز کے سروے اور ان کی خلاف اسلام کاروئی کو اگر جلد از جلد نہ روکا گیا تو پھر ہمیں اس وقت ہوش آئے گا جب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پیسے کی لالچ ہم سے ہمارا چھت ہماری آزادی او عزت آبرو تک نہ چھین لے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47569 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More