میر پور کی مٹی

کہاوت ہے کہ شہزادی نے ایک طوطا پال رکھا تھا جسکی دیکھ بھال کے لیے سات خوبصورت کنیزیں ہمہ وقت دستیاب رہتی ۔ طوطا سونے کے پنجرے میں رہتا اور چاندی کی کٹوری میں پانی پیتا ۔قمیتی بیج اور عمدہ پھل اس کی غذا میں شامل تھے مگر وہ دیگر پالتو طوطوں کی طرح باتیں نہ کرتا اور ہمیشہ اداس رہتا ۔ جب کبھی تنہائی میسر ہوتی وہ ایک ہی فقرا بار بار دھراتا اور کہتا ہائے میرا وطن ۔شہزادی طوطے کی اداسی اور نا شکری پر تنگ آ گئی اور نوکروں کو حکم دیا کہ طوطے کو محل سے باہر پھینک دیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ کہاں جاتا ہے اور اس کا کون سا وطن ہے جس کی یاد اس کے دماغ میں رچ بس گئی ہے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور ایک سدھایا ہوا باز طوطے کے تعاقب کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ شاہی خدام نے دیکھا کہ طوطا صحرا میں موجود ایک پرانے اور اکیلے درخت پر جا بیٹھا اور خوشی کے گیت گانے لگا۔

انسان ہو یا حیوان یا پھر دیگر مخلوق ہر ذی روح کو اپنی مٹی سے پیار ہوتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کو جب کفار مکہ نے ہجرت پر مجبور کر دیا تو آپ ﷺ بار بار شہر مکہ کی طرف پلٹ کر دیکھتے اور فرماتے اے شہر مکہ تیرے مکینوں نے مجھے تجھ سے جدا کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ مصر سے مدائن ہجرت کر گئے اور ربّ تعالیٰ نے مدائن میں ان کے لیے آ سودگی کے سبھی سامان مہیا کر دیے مگر وہ اپنے وطن کی یاد میں اکثر مغموم رہتے ۔ وطن کی اصطلاح انسانی جذ بات اور احساسات کی ترجمان ہے اور وطن کی مٹی اس اصطلاح کی روح ہے۔ جو لوگ وطن سے دور ہوتے ہیں یا پھر کر دیے جاتے ہیں ان سے بہتر وطن کی قدر و قیمت کو ئی نہیں جانتا۔ وہ لوگ جنکا کوئی وطن نہیں ہوتا ان کی کوئی پہچان بھی نہیں ہوتی ۔ انسان کی پہچان اس کی دھرتی سے منسلک ہوتی ہے اسی لیے دھرتی کو دھرتی ماں کہا جا تا ہے۔

دھرتی ما ں اورماں میں فرق یہ ہے کہ ماں کی محبت صرف اپنی اولاد تک محدود ہوتی ہے جبکہ دھرتی ماں ساری مخلوق کو جنم دیتی ہے اور مرنے کے بعد اپنے پیٹ میں رکھ لیتی ہے۔ وہ کسی قوم ، قبیلے اور برادری کی نہیں بلکہ ہر ذی روح کی ماں ہوتی ہے۔ لوگ اس کی مٹی سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر اسی میں آسودہ خاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے وجود پر پھیلے کھیت کھلیان ، پہاڑ ، جنگل ، دریا ، ندی نالے ، چشمے ، نہریں ، باغ ، آبشار اور دیگر آائسائیشیں انسانوں، حیوانوں اور پرندوں کیلیے غذا ،دوا، رہائش اور ذیبائش کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔ دھرتی ماں کبھی اپنے بچوں میں تفریق اور تقسیم نہیں کرتی ۔ وہ مذ ہب ، رنگ و نسل اور ذات پات کا بھی خیا ل نہیں کرتی اور اپنی اولاد کے لیے ہمہ وقت سہولیات فراہم کرتی ہے۔دھرتی کا حسن ہے کہ اس کی مٹی میں کئی رنگ اور کئی خوبصورتیاں ہیں ۔ کئی اقدار اور خاصیتیں ہیں، کئی حسن اور رعنائیاں ہیں جو سب اس کے بچوں کے لیے مختص ہیں۔

ٰدھرتی کبھی بانجھ نہیں ہوتی مگر ہماری عقل او ر سوچ کا دائیرہ اتنا محدود ہے کہ برادری ازم کے گن چکر سے آگے ہمیں کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ چند روز قبل جناب مرتضٰے علی کا لس نے میرپور کے سپوت کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور اپنی علمی استعداد اور عقلی قوت سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میر پور کی بانجھ مٹی نے بہت علاج معالجے اور دوا دارو ں کے بعد صرف ایک بچے کو جنم دیاجسکا نام ڈی آئی جی پولیس خالد چوہان ہے۔ جناب کالس نے جنرل سروپ پر چند حروف اس حوالے سے لکھے چونکہ جنرل صاحب نے جناب ڈی آئی جی صاحب کو ڈگری عطا کی تھی ۔ جناب خالد چوہان اب پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور جناب مرتضیٰ علی کا لس کے مطابق وہ چند ایسی خوبیوں کے مالک ہیں جوساری ریاست میں کسی اور میں موجود نہیں ۔ شائد ایسا ہی ہو اور یہ سب فخر کی بات ہے کہ صدیوں بعد میرپور کی بنجر زمین پر علم و عقل کا ایک سائیہ دار درخت پروان چڑھاجسکی ٹھنڈی چھایا اس کی برادری تک محدود ہے۔ فیض خاص ہو یا عام فیض ہی ہوتا ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں جناب چوہان صاحب جب میرپور میں اے ایس پی تھے تو بیچ سڑک کے گاڑی کھڑی کر کے دوسری سمت سے آنے والے کسی دوست سے گپ شپ کرتے رہتے تھے جس سے ٹریفک جام رہتا ۔ پولیس کا کام ٹریفک بحال رکھنا ہے نہ کہ روکنا ۔ سڑکوں پر آنے والے مسافر ہوتے ہیں جن میں بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور بیمار بھی ہوتے ہیں اور کچھ مسافر وں کو تھا نوں ، کچہریوں اور دیگر مقامات پر بر وقت پہنچنا ہوتا ہے۔ اگر پولیس والاہی ٹریفک جام کردے تو بحال کون کریگا۔ بہرحال عوام بیچار ے ہوتے ہیں اور پولیس پٹواری اور کلرک بادشاہ ہوتے ہیں ۔

جناب خالد چوہان کوٹلی میں ایس پی تھے تو انکا انصاف اپنی برادری اور شہر کوٹلی کے حکم تک محدود تھا ۔ شیر کاٹھ کا ہو یا بھوسے کا شیر شیر ہی ہوتا ہے ۔ جناب خالد چوہان اور سابق ڈپٹی کمشنر کوٹلی چوہدری منیر یکساں خوبیوں کے ملک ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ جناب کالس چوہدری منیر جو کہ شاعر بھی ہیں کے لیے الگ کالم باندھنے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ کوٹلی میں تعیناتی کے دوران دونوں اعلیٰ افسراپنی برادری کے ولیمے ، ختنے ، حقیقے ، جنازے ، چوتھے اور چالیسویں باقائدگی سے ایٹنڈ کرتے اور ثواب کماتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ جب اتنے بڑے اور عالم و عاقل افسران اپنی برادری کا ہر سطح پر خیال رکھیںگے تو دیگر برادریوں کو احتیاط کا پیغام خود بخود مل جائے گا۔

جناب خالد چوہان کی خوبیاں پڑ ھ کر افسوس ہو ا کہ اتنے ذ ھین و فطین شخص کو پی ایس سی نہیں بلکہ سی ایس پی افسر ہونا چاہیے تھا تاکہ پاکستا ن کی سطح پر وہ اپنے جو ہر دکھلاتے اور عالمی سطح پر کوئی کارنامہ انجام دیتے۔

ذہانت اور قابلیت ربّ کی عنائت ہوتی ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی فیلڈ میں ذھین ضرورہوتا ہے۔ اصل چیز ذھانت نہیں ہوتی بلکہ اسکا استعمال ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ذھین ہو اور اسکی ذھانت سے مخلوق کوکوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو تو ایسی ذھانت بیکار اور مضر ہوتی ہے۔بدقسمتی سے پولیس اصلاح اور فلاح کے بجائے جبر و استبداد کا محکمہ ہے اور جب تک پولیس افسربد اخلاق ، بد مزاج ، متکبر اور جابرا نہ ہوا سکا ٹہکہ نہیں جمتا۔ آج ہمارے معاشرے میں جتنی بُرائیاں ہیں اسکا منبع اور مخزن پولیس اور پٹواری ہے۔ پولیس برائی اور قانون شکنی روکنے کے بجائے برائی پھیلانے اور قانون شکنی کی ترغیب دینے پر معمور رہتی ہے۔ ہم جناب خالد چوہان کے لیے دعا گو ہیں کہ وہ اپنی برادری سمجھ کر ان کی دعائیں لیں ۔

آذاد کشمیر پولیس کے دو افسروں میں سابق ضلع میرپور کے گاﺅں پنجیڑی کے ایس پی راجہ ممتاز خان تھے اور بعد میں راجہ فہیم عباسی جنکا تعلق ضلع باغ سے ہے۔ فہیم عباسی میرپور میں ایس پی تعینات ہوئے تو سیاستدانوں کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا شروع کر دیا۔ الیکشن سے پہلے چوہدری نور حسین نے فہیم عباسی کو وارنگ دی کہ ان کا بیٹا وزیر اعظم بن گیا تو تمہاری ساری تڑ نکال دونگا۔چوہدری صاحب روائتی سیاستدان ہیں اور اپنی برادری کا خیال رکھتے ہیں ۔ ریکارڈ دیکھا جائے تو آذاد کشمیر میں برادری ازم کی بنیاد چوہدری نور حسین اور بھمبھر کے چوہدری صوبت نے رکھی اور اسی بنیاد پر اپنی سیاست کی عمارت بھی قائم کی۔ چوہدری صوبت کا مقابلہ بھمبھر کے جاگیر دار راجہ ذوالقرنین اور چوہدری نورحسین کا ٹاکرہ ان کے پڑ وسی ذیلدار راجہ صفدر سے تھا ۔ چوہدری صوبت اور راجہ ذوالقرنین کے درمیان سیاسی چپقلش تو رہی مگر کوئی خونی حادثہ نہ ہوا۔ راجہ صفدر اور چوہدری نور حسین کی دشمنی وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہو تی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ذیلدار راجہ صفدر نے میر پور چوک میں چوہدری صاحب پر اپنی ڈبل بیرل سے ڈ بل فائیر کردیا ۔ چوہدری صاحب شدید زخمی ہوئے مگر اﷲنے ان کی جان بحالی ۔ برادری ازم اپنی جگہ مگر اس کے باوجود چوہدری نورحسین اور ان کے بھائی چوہدری خادم کئی خوبیوں کے بھی مالک تھے۔جٹ راجپوت دشمنی کے باوجود دونوں جانب سے بہوبیٹیوں کے احترام اور حفاظت کو جز ایمان سمجھا جاتا رہا اور کبھی کسی بداخلاقی اور برائی کی شکائت نہ ہوئی ۔ دوسری جانب شیر کوٹلی نے ہمیشہ گیدڑ اور گدھ پن کا مظاہرہ کیا اور مخالفین کی بہو بیٹیوں کو بھی معاف نہ کیا اور اپنی برادری کے پولیس والوں کی مدد سے بچیوں اور بوڑھی عورتوں کو اٹھوا کر تھانوں میں بند کروایا۔

اسقدر گھناﺅنی حرکات اور انتہائی سطح کی اخلاقی گراوٹ کے باوجود ی یہ شخص اپنے آپ کو بھٹو کا شیدائی بےنظیر کا سپاہی اور آصف علی زرداری کا بھائی کہتا ہے۔ جناب بھٹو اور محترمہ بےنظیر تواب اس دنیا میں نہیں رہے مگر جناب آصف علی زرداری کو اسطرف توجہ دینا چاہیے کہ ان کا بھائی ہونے کے دعویدار کی اخلاقی اقدار کیا ہیں ۔ جناب چوہدری نور حسین نے ڈی آئی جی فہیم عباسی کی تڑنکالنے کی بات تو کی تھی مگر دونوں جانب سے مردانگی ، جرات اور اصولوں کی پاسداری کا مظاہرہ کیا گیا ۔ شائد چوہدری نورحسین نے یہ با ت غصے میں کہہ د ی مگر جب انکابیٹا وزیر اعظم آذاد کشمیر بن گیا تو کوٹلی کی طرح کا کوئی ایکشن فہیم عباسی کے خلاف نہ ہوا۔ دوسری جانب فہیم عباسی نے بھی اپنی تڑ قائم رکھی اور سلطان محمود چوہدری کی وزارت عظمیٰ کے دوران طویل رخصت پر چلے گے اور جب تک سلطانی حکومت رہی عباسی صاحب چھٹیوں کے مزے لیتے رہے۔چوہدری نور حسین ، چوہدری خادم اور چوہدری اعظم سیاسی اخلاقیات اور ذاتی کردار کے حوالے سے بھی منفرد تھے مگر ان کے جانشین بیرسٹر سلطان محمود نے اپنی سلیٹ کبھی صاف نہ رکھی ۔ شراب ، شباب اور کرپشن کے حوالے سے ان پر کتابیں ، کالم اور مضامین لکھے گئے مگر موصوف نے کبھی اخلاقیات کو اہمیت نہ دی۔ بیرسٹر صاحب کی وزارت اعظمیٰ کے دوران ان پر ہر وزیر اور مشیر محمدشاہ رنگیلا تھا اور رنگ رلیاں منانا ان کے فرائض میں شامل رہا۔ کسی مغربی محقق نے لکھا ہے کہ کشمیر کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے۔جسکا صحن یہی علاقہ ہے جسے ہم کھڑی کہتے ہیں ۔ کھڑی کی ایک منفرد تاریخ ہے جسکا احوال پڑھے بغیر کشمیر کے تاریخی حقائق سمجھنا مشکل ہے۔ علاقہ کی مشہور شخصیات میں سر فہرست برصغیر کی مشہور روحانی شخصیت حضرت پیر شاہ غازی ؒ اور ان کے مرید خاص حضرت میاں محمد بخشؒ رومی کشمیر اور عارف کھڑی ہیں ۔ جناب مرتضیٰ کالس ان دو عظیم ہستیوں کا ذکر کرنا کیوں بھول گئے ؟اور اپنی ساری توانائیاں جناب خالد چوہان پر خرچ کر بیٹھے اس کا جواب وہ خود ہی دے سکتے ہیں ۔ جنا ب پیر شاہ غازی سرکار ؒاور جناب میاں محمد بخش ؒ کا تعلق بھی گجر برادری سے ہے اور غالباً ان کی گوت چیچی ہے۔ چیچیاں چیچی گجروں کی بستی کانام اور آج بھی گجر قبیلہ یہاں آباد ہے۔ سابق حکومتی وزیر اور ایم ایل اے جناب چوہدری رخسار کا تعلق بھی اسی علاقہ اور قبیلہ سے ہے۔ چوہدری صاحب کی بیگم محترمہ اوینا رخسار علاقہ کی واحد خاتون سیاستدان ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز بیرسٹر خاندان کو چیلج کرتے ہوئے کیا۔ گو کہ وہ اس بار الیکشن نہیں جیت پائیں مگر آیئندہ انکا مستقبل روشن ہے۔ اوینا رخسار دلیر ، باہمت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور امید ہے کہ وہ میدان سیاست میں کامیابیاں حاصل کرینگیں ۔ کھڑی کا علاقہ مردم خیز اور زرخیز ہے۔ راجہ خضر اقبال کی تصنیف "علاقہ کھڑی تہذیب و ثقافت کے تناظر میں``ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔ جناب چوہدری نور حسین ، چوہدری خادم ، بیرسٹر سلطان ، میجر ریٹائیرڈ چوہدری ارشد ، چوہدری اعظم کے علاوہ جنرل نظامی، کرنل راجہ ایوب آف گورسیاں ، راجہ سلطان زمرد سابق ڈی آئی جی پولیس ، جنرل راجہ سروپ ، راجہ ظفر معروف ، راجہ شبیر کیانی ، چوہدری رخسار ، محترمہ اوینا رخسار ، راجہ نوید اختر گوگا، چوہدری یونس آڑوی اور بے شمار نام ایسے ہیں جو سیاسی ، سماجی ،علمی اور ادبی میدانوں میں سرگرم عمل ہیں۔

میرپور شہر کا رخ کریں تو شہر میں داخلے سے پہلے جھلا بھائی کا دربار دیکھتے ہی گاڑیوں کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں ۔ موجودہ میرپور شہر جسے نیومیرپور کہنا چاہیے کا پرانا نام بلا گالہ تھا۔ میرپور کی مٹی میں جھلا بھائی ؒ کے علاوہ قطب العارفین حضرت پیر سید محمد نیک عالم شاہ ؒ اور تحریک آذادی کشمیر کے نامور لیڈر اور مجاہد جناب راجہ اکبر ؒ آسودہ خاک ہیں ۔میرپور کی اہم شخصیات کی فہرست طویل ہے جسے رقم کرنا دشوار ہے۔ علاقہ کلری ، پنجیڑی اور کسگمہ جو اب ضلع بھمبھر کا حصہ ہیں پہلے ضلع میرپور ہی میں شمار کئے جاتے تھے ۔ کسگمہ سابق صدر راجہ ذوالقرنین کاگاﺅں ہے جنکے والد متحدہ ھندوستان میں لاہور کے کمشنر اور دادا جنرل راجہ فرمان علی خان ڈوگرہ دور میں ریاست کے چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ کلری کے جنرل راجہ اکبر خان ، بریگیڈئیر غوث محمد راجہ کے علاوہ ان تین گاﺅں کے درجنوں آفیسرز کا تعلق فوج اور سول بیوروکریسی سے رہا ہے۔ سابقہ تحصیل بھمبھر ضلع میرپور کے سپوتوں میں جنرل عبدالرحمان ، جنرل نصیر احمد اور چوہدری صوبت کے صاحبزادگان میں سابق سپیکر چوہدری انوار اور میجر جنرل اکرام کمانڈر نادرن ایریا شامل ہیں ، بھمبھر ہی کے بریگیڈیئر شیر محمد چوہدری ستارہ جرات اور گاﺅں پونہ کے حوالدار نور عالم شہید ستارہ جرات (لیپا ہیرو)قابل قدر اور قابل ذکر شخصیات میں شامل ہیں۔ میرپور کی اہم شخصیات کاذکر ہو اور لکھنے والا بریگیڈیئر راجہ دلاور ، بریگیڈیئر اسلم (لیپا ہیرو)جنرل چیمہ مرحوم، مصنف کشمیر یات جناب غلام محمد میر ، جناب ممتاز ہاشمی ، عبدالخاق انصاری ،چوہدری یوسف، بریگیڈیئر جبار بھٹی ، کرنل راجہ عدالت خان ، میجر عباس ، چاچا علی محمد ایڈووکیٹ ، پیر عتیق الرحمان ، پیر ثاقب اقبال شامی، غازی الہی بخش، مفتی عبدالحکیم ،بشارت شہید ، حنیف شہید ، کیپٹن سرفراز مرحوم، جسٹس تاج ، موجودہ چیف جسٹس جناب خان اعظم ،جسٹس عبدالمجید ملک ، جسٹس شیر زمان چوہدری ، جسٹس ریاض اختر چوہدری ، سید زمان شاہ صاحب ، جناب پیر علی جان شاہ صاحب، ارشد غازی ، بیگم ناھید ، ڈاکٹر ریاض اور دیگر اہم شخصیات کو کیسے بھول سکتا ہے۔ میرپو ر کی مٹی کبھی بانجھ نہ تھی اور نہ ہی ہے۔ اس دھرتی نے سینکڑوں غازی ، مجاھد ، عالم ، محقق، ولی ، درویش ، عابد ، زاھد ، قانون دان، سیاستدان جرنیل اور دلیر سپاہی پیدا کئے ہیں ۔جنکا نام تاریخ کے صفحات پر نہ سہی مگر دل کی گہرایوں میں محفوظ ہے۔

دکھ کی بات ہے کہ میرپور کی دھرتی پر کچھ ایسے لوگ بوجھ بنے ہیں جو سیاست کو خدمت کے بجائے کاروبار سمجھتے ہیں اور جن کا دین و ایمان کرپشن اور برادری ازم ہے۔ ایسے لوگ نہ تو اہم ہیں اور نہ ہی قابل ذکر۔ ایسے لوگ چاہے کسی بھی عہدے یا رتبے پر فائز ہوں یا قارون کے خزانوں کے حقدار ہوں وہ کبھی بھی قابل عزت و احترام نہیں ہو سکتے ۔ بقول کرنل اشفاق کے ``میں نے زندگی چھوٹے عہدوں پر بڑے لوگ اور بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ فائز دیکھے ہیں ، ہماری بدقسمتی کہ آج بڑے بڑے عہدوں پر فایئز ہیں ۔ اخلاقیات ، اقدار اور روایات کی جگہ برادری ازم ، کرپشن اور لاقانویت لے لی ہے۔ تہذیب و ثقافت کی جگہ ٹن کلچر کو پروان چڑھایا گیا ہے اورشرافت کو جیالے پن میں بدل دیا گیا۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100664 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.