وطن ماں سے عظیم تر ہے

کیا تُم ماں کی مذمت سن سکتے ہو ؟ وطن ماں سے عظیم تر ہے کہ ماں نہ ہو تو وطن کی ہر ماں ہماری ماں بن سکتی ہے۔لیکن وطن نہ ہوتو دنیا بھر کی مائیں اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔آن اور جان کا یقینی تحفظ ہر وقت وطن کے تحفظ کی خاطر آن اور جان قربان کرنے کےلئے تیار رہنے میں ہے۔محترم حاوی اعظم کے یہ الفاظ میری رگوں میں سنسنی پیدا کرتے چلے گئے ۔کتنی سچائی ہے کہ وطن کی اہمیت ، ماں کی قدر سے زیادہ ہے ۔ ضروری نہیں کہ اس اظہار سے ہر کس و ناکس کو اتفاق بھی ہو ، لیکن مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کیونکہ اس سوچ کو اگر ہم اپنا لیں تو کروڑوں انجانے ، جانے بن جاتے ہیں،ماں تو اپنی اولاد سے یکساں محبت کرتی ہے ، اولاد اس کی آنکھوں کا نور ہوتی ہے ، اُس کے دل کا ٹکڑا ہوتی ہے ، اس کی تکلیف پر درد سے خود تڑ پ اٹھتی ہے ۔اولاد غم زدہ ہوتو اپنے کلیجے سے لگا لیتی ہے ، اولاد نا فرمان بھی ہو تو بھی اس کی آغوش پیار کے لمس و گداز کے احساس سے موجزن ہوتی ہے۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن ، اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ماں مینارِالفت ہو ، لیکن اُس کی نافرمان اولاد مسلسل اس کی نافرمانی کرکے ایسے دنیا میں رسوا کرتی پھرے۔

بابائے قوم قائد اعظم نے 14 ِ فروری 1948 ئ کو سبی دربار میں تقریر میں فرمایا:۔
"میرے پیش ِ نظر ہمیشہ اسلامی ڈیمو کریسی کا اصول رہا ہے ۔ یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا راز اِن سنہرے اصولوں کے اتباع میں ہے جنہیں ہمارے مقنن اعظم حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں عطا فرمایا ۔ لہذا ہمیں اپنی ڈیمو کریسی کی بنیاد حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھنی چاہیے ۔"(تقاریر گورنر جنرل صفحہ نمبر۶۵)۔اور من الحیث القوم حقیقی بنیاد کیاہے اس کا اظہار قائد اعظم نے ۷ ِ اپریل 1948 ئ کو گورنمنٹ ہاﺅس پشاور میں ایک قبائلی جرگہ کے ساتھ گفتگو کے دوران فرمایا؛۔
"ہم مسلمان ، ایک خدا ، ایک کتاب (قرآن مجید) اور ایک رسول ﷺپر ایمان رکھتے ہیں ، اس لئے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے صف بستہ کھڑے ہونا ہوگا۔"
عین ممکن ہے وہی بات ہو تیرے دل میں
جس کے اظہار نے ڈالا ہے مجھے مشکل میں

جب پاکستان کے لئے مسلمانوں نے ایک قوم بن کر وطن حاصل کیا تو یہ خطہ اراضی پاکستانیوں کی ماں کہلائی ، لیکن جو غیر مسلم پاکستان میں رہ گئے ، وطن ِ پاکستان اُن کی بھی ماں بن گئی ، اور جو مسلمان ہندوستان رہ گئے و ہ "ماں تجھے سلام ، بندے ماترم " کہہ کر اپنے خطے کو مادر ِ وطن کہنے لگے۔ہم فخر سے قوم کو ماں کی آواز سناتے ہیں کہ"میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لئے" اور ماں کو ہم کہتے ہیں " یہ پُتر ہتا ں تے نئیں وِکدے " ۔لیکن ہم اپنی ماں کی حفاظت نہیں کرسکے ،1965ئ میں ہم سب ایک ماں کےلئے یکجا ہوئے، اختلافات ختم کئے ، لیکن جنگ کو جاری رکھنا خاکی وردی والوں کے بس سے باہر ہوتی جا رہی تھی ، امریکی مداخلت کے ذریعے جنگ 65 ئ رکوائی گئی ، ہم نے اس جنگ کو فتح کا نام دے دیا ، حالاں کہ یہ حقیقت آشکارہ ہوچکی ہے کہ پاکستان کے پاس سترہ دن سے زیادہ لڑنے کی سکت نہیں تھی ، یہی وجہ تھی کہ پھر ہماری مائیں الگ الگ ہو گئیں،مشرقی پاکستان ، کے عوام کی ماں ، بنگلہ دیش ہوگئی۔مغربی پاکستان ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے نئی ماں بن گئی ۔

اگر پاکستان کے پاس لڑنے کی سکت ہوتی تو چند سالوں بعد لڑی جانے الی جنگ میں 90ہزارفوجی قیدی نہ بنتے ،وطن کا ایک حصہ نظریہ پاکستان کو دریائے بنگال میں برد نہ کرتا سیاچن پر بھارت کاقبضہ نہ ہوتا،9/11کے بعد امریکہ کی دہمکی پر گھٹنے ٹیکنے کے بجائے کہتا کہ سالوں سال سے جنگ لڑنے والی افغان قوم سے ہم طاقت ور ہیں ، ہم ایٹمی طاقت ہیں، اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں ، اسلامی بلاک کا حصہ ہیں ، ہم سترہ دن تو کیا ، سترہ سال ، بلکہ ستر سال تک لڑنے کو تیار ہیں، گھاس کھائیں گے لیکن یٹم بم بنائیں گے کہ پر فریب نعرے دے کر ایک ماں کو زخمی زخمی کردیا۔اب پاکستان کے ہر صوبے سے اپنی دھرتی ماں کو الگ کرنے کی صدائیں آنا شروع ہوچکی ہیں،لسانی ماں، فرقہ وارانہ ماں اورصوبائی دھرتی ماں کے نعرے انتخابی سیاست کے ریٹنگ کا سب سے بڑا نعرہ بن چکا ہے۔
جو بُچھوﺅں کا ٹھکانہ ہو ، گھر اجاڑئے اپنا ؟
ہوکیوں نہ دشمن و غدار ِ مملکت کا صفایا
جو ماں نہ ہو تو وطن کی ہر ایک ماں ، مری ماں ہے
کروڑ ماﺅں سے ممکن وطن کا ازالہ
جو ماں کی سانس اڑی ہو ، تو کیا نکال دی جائے
 وطن ہو لاکھ زبُوں حال ، لاکھ ماﺅں سے اچھا

اب ہمیں خواب غفلت سے نکل آنا چاہیے ، افیم زدہ قوم دنیا کی سپر پاور بن گئی ،اور ہم ابھی تک اسلاف کے ترانے گا ر ہے ، تمغہ شجاعت ، امتیاز اور پتہ نہیں کیا کیا بانٹے پھر رہے ہیں ، نشان امتیاز ، تھیٹر پر ناچنے والی کے لئے بھی ہے تو وطن کے خاطر جان نچاور کرنے والوں کے لئے بھی ۔ یہ تضاد اس منافقت کوختم کرنا ہوگا ، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس دوہرے معیارسے، فرقہ واریت کا عفریت پھیل رہا ہے ، ماں کہتی ہے کہ لسانیت، عصبیت ، عدوات حاوی ہوچکی ہے حریت ، اخوت اور شجاعت پراس کا سدباب کریں۔ ماں کی محبت تقسیم نہ کریں ۔اقتدار کی رسہ کشی میں ماں کو رسی کا رومال بنانے کے بجائے حرمت کی چادر بنا کر عزت مند ماں کے قدر مند فرزندبن جائیں۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.