آپ روزانہ ٹرکوں اور رکشوں کے
پیچھے پڑھتے ہوں گے اب آرہا ہے آزادی صحافت کا ترجمان جابر حکمران کے سامنے
کلمہ حق کہنے والا صرف اور صرف روزنامہ طوفان اب سب کچھ دکھایا جائے گا
کیونکہ اب آرہا ہے روزنامہ بدتمیزیاں ۔۔پاکستان میں اس وقت بہت بڑی تعداد
میں روزنامے شائع ہو رہے ہیں اور دن بہ دن ان کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا
ہے۔چند قومی اخبارات جو بڑی تعداد میں شائع ہوتے ہیں ان کے علاوہ علاقائی
اخبارات جو کبھی کبھی تھوڑی سی تعداد میں شائع ہوتے ہیں دیکھنے کو ملتے ہیں
۔ہرچھوٹے بڑے شہرسے روز کوئی نہ کوئی نیا اخبار رجسٹر ہورہا ہے۔چند دن پہلے
ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل سے تعلق رکھتا ہے بتا
رہا تھا کہ میرے چچا نے ایک روزنامہ اورہفت روزہ اخبار کی رجسٹریشن کروائی
ہے وہ جلد شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں دوست کی بات سن کر میری پریشانی
بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ میرا دوست ایک زمیندار فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور
میں یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے چچا نے تو آج تک سکول کی شکل نہیں دیکھی اور
چند دن بعد ایک چٹا ان پڑھ ایک صحافی بن جائے گا۔جب میں نے پوچھا یار تم
لوگوں کو کیا سوجھی ہے اخبار نکالنے کی کیا زمینداری سے گزارہ نہیں ہو رہا
تو جواب ملا یار! اس کے بڑے فائدے ہیں مقامی سیاستدان آپ کی عزت کرتے
ہیں،تھانے کچہری کے مسئلے آسانی سے حل ہو جائیں گے۔میں سوچ رہا تھا کہ
شہروں میں تو یہ رواج عام تھا اب دیہی علاقوں میںبھی یہ وبا پھیل رہی ہے۔
میں اخبارات کے کئی ایسے مالکان کو جانتا ہوں جو اپنا روزنامہ صرف اس دن
شائع کرتے ہیں جس دن ان کو اشتہارات ملتے ہیں اور جو سلوک اپنے ملازمین کے
ساتھ کرتے ہیں وہ بھی سب جانتے ہیں ۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے ایک خاتون
رپورٹر سیماب نے ہاسٹل کی چھت سے کود کر خود کشی کر لی تھی پتا چلا تھا کہ
اپنے اخبار کے مالکان کے رویہ سے تنگ آکر اس نے یہ قدم اٹھایا اخبار کے
مالک نے تین ماہ کی تنخواہ روک رکھی تھی۔سیماب روزنامہ نوائے اینٹی منشیات
کی رپورٹر تھی یہ اخبار بھنڈر گروپ آف نیوز پیپرز کا اخبار ہے اسی گروپ کے
تحت مختلف اخبارات بھی نکالے جارہے ہیں جن کے نام ان کا کام بھی بتاتے ہیں
جیسے روزنامہ اگلا ٹارگٹ ،روزنامہ اینٹی کرائم،طوفان وغیرہ وغیرہ۔ان
کاطریقہ واردات یہ ہے کہ کسی بڑے اخبار میں اشتہار دیتے ہیں ۔
20 تا 30 ہزار تنخواہ
تعلیم مڈل تا میٹرک
8 گھنٹے ڈیوٹی
رہائش ،میڈیکل فری
اشتہار پڑھنے والے جن میں بڑی تعداد بے روزگار لڑکوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے
جس کی وجہ سے وہ بہت آسانی سے ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔سب سے پہلے
نوکری کے لئے آنے والے سے درخوست فارم کی مد میں پیسے لے لیے جاتے ہیں اس
کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کی دس دن ٹریننگ ہوگی پھر آپ کاٹیسٹ لیا جائے گا
ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد آپ کو مستقل نوکری مل جائے گی ۔روزانہ کی ٹریننگ میں
روزانہ نوٹس دیے جاتے ہیں جن کی قیمت 300 سے لے کر 500 تک ہوتی ہے جو دس دن
آپ کو باقائدگی سے اخبار والوں سے خریدنے پڑتے ہیں۔دس دن بعد جب ٹیسٹ لیا
جاتا ہے ٹیسٹ میں عجیب و غریب سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا صحافت سے دو دور
تک کوئی تعلق نہیں ہوتا !اسی قسم کا سوالنامہ میرے پاس بھی موجود ہے جو
مجھے اس فراڈ کا شکار بننے والے ایک وزیر آباد کے لڑکے نے دکھایا سوالات
کچھ اس طرح تھے۔
کونسا ملک جہاں پولیس نہیں ہوتی ؟
دریائے راوی کا پرانا نام بتائیں؟
روزنامہ اینٹی منشیات کے ایڈیٹر کا نام بتائیں نیز یہ بھی بتائیں ایڈیٹر
کتنے گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے؟ اسی طریقہ کو اپناتے ہوئے یہ لوگ اپنے شکار سے
5,6 ہزار بٹور لیتے ہیں۔اسی قسم کے اخبارات آج کل 2 ہزار میں پریس کارڈ بھی
فروخت کر رہے ہیں۔آپ کو کئی مرتبہ ایسے لوگوں سے واسطہ رہا ہوگا جن کو
صحافت کی "الف ب" کا بھی پتا نہیں ہوگا لیکن ان کے پاس پریس کارڈ بھی ہوگا
ان کی گاڑی کے پیچھے پریس(PRESS)بھی لکھا ہوگا،کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی
روکنے والا نہیں جعل سازی کی فیکٹریاں بڑے دھڑ لے سے روزانہ دو نمبر صحافی
کی پروڈکٹ بنا کر مارکیٹ میں بھیج رہی ہیں۔یہ اپنے آپ کو صحافی بھی کہتے
ہیں اور اپنے کارڈ کے بل بوتے پر اپنے دو نمبرکام بھی نکلواتے ہیںاور صحافت
جیسے مقدس پیشے پر تھوکتے بھی ہیں،جینوئن صحافیوں کو بدنام بھی کرتے
ہیں۔اگر اسی طرح کے صحافی بنتے رہے ان کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہ کیا
گیا تو وہ دن دور نہیں جس دن چور لٹیروں اور صحافیوں میں کوئی فرق نہیں رہے
گا!!۔
(نوٹ؛ لکھی گئی تمام معلومات درست ہیں اور رابطہ کرنے پر تمام ثبوت دکھائے
جا سکتے ہیں) |