آج کل گستاخِ نبی ﷺ کا چرچا زبانِ
زدِ عام ہے۔ اور کیوں نہ ہو اس ملعون کی اس حرکت کو کسی صورت میں معافی
نہیں مل سکتی، کیونکہ ابھی دنیا بھر میں عاشقانِ رسول ﷺ موجود ہیں۔ اور سر
بہ کف تیار ہیں کہ اس سے بدلہ لیا جائے۔ اس ملعون کے بارے میں تحریر کرنا
میں اپنی اور اپنے قلم کی توہین سمجھتا ہوں۔ اس لئے جو کچھ میرا قلم تحریر
کرے گا وہ اس ملعون ، کافر کیلئے کم ہی ہوگا پھر بھی کوشش اور سعی کرنے کی
جسارت کر رہا ہوں۔ دیکھئے کہ میرے قلم میں کہاں تک طاقت ہے ، ویسے میرا
اپنا ذاتی اظہارِ خیال ہے کہ نبی پاک ﷺ کے سلسلے میں کچھ لکھنے کیلئے کسی
مواد اور کسی حیلے بہانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ایسا ہے کہ لکھنے کا
ارادہ کیا جائے اور حروف خود بخود ہی جُڑتے جاتے ہیں۔
مغزِ قرآن، روحِ ایمان، جانِ دین
ہست حُبِّ رحمة اللعالمین
حقوقِ انسانی کیلئے آزادی اظہار بہت ضروری ہے ۔ مگر آزادی اظہار ایسا ہو کہ
کسی کو آپ سے کسی قسم کی تکلیف بارِ گراں نہ گزرے۔ مگر اس وقت آزادی اظہار
کی آر میں توہین رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیا گیا ہے اور یہ
کسی مسلمان کو برداشت نہیں اور نہ ہی اس قسم کی حرکات و سکنات کو کوئی
مسلمان برداشت کر سکتا ہے۔ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ زہنی دہشت گرد
ہیں جو مسلمانوں میں ذہنی اذیت رسانی کو فروغ دے رہے ہیں۔ میں یہ کہنے میں
حق بجانب ہوں کہ جس طرح مغربی دنیا دہشت گردی کا رونا رو تی رہی ہے کیونکہ
وہ جسمانی اذیت کو دہشت گردی گردانتے ہیں میں تو کہتا ہوں کہ جسمانی اذیت
کے ساتھ ساتھ ذہنی ازیت کو بھی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا جائے اور
توہینِ رسالت مآب ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخانہ فلم بنانے والے کو ذہنی دہشت
گرد قرار دیا جائے اور اس ملعون کو گرفتار کرکے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ
مسلمانوں میں بھڑکتے ہوئے جذبات کا سدِّباب ہو سکے۔ ورنہ یہ جو روزانہ کی
بنیاد پر احتجاج ہو رہا ہے وہ شدت پکڑ لے گا اور یہ مغربی دنیا اچھی طرح
جانتی ہے کہ اگر مسلمانوں کو اس کے نبی ﷺ کی شان میں ایک بھی گستاخ لفظ
برداشت نہیں تو یہ فلم بنانے والے کو کیسے برداشت کر لیں گے۔
مانا کہ احتجاج ہمارا حق ہے اس گستاخی پر! مگر صرف احتجاج سے مسئلہ حل ہوتا
ہوا نظر نہیں آتا ۔ مزہ تو تب ہے جب ہم لوگ تمام مغربی ممالک کی مصنوعات کا
فوری اور مستقل بائیکاٹ کر دیں، ان کی اکانومی، ان کے مصنوعات کا بائیکاٹ
کرنے سے ہی انہیں دھچکا لگ سکتا ہے۔ اور ہمیں اس قدم کو اٹھانے میں بالکل
بھی سُست روی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔
سید الانبیاءﷺ سے محبت و عقیدت مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جزو ہے ۔ ہمارا
ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ نہ صرف محبوب بلکہ حبیب بھی ہیں، حضور ﷺ کی صفاتِ
عالیہ اور متکاثرہ فضائل جنہوں نے حضور ﷺ کو محبوبِ خلق اور حبیب خدا بنا
دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے لیکر آج تک حضرت محمد ﷺ کی شان
میں کسی بھی موقع پر صریحاً تو کجا، اشارتاً بھی کسی قسم کی گستاخی کرنے کی
کوشش کی تو اجتماعی ضمیر کے مسلمانوں نے ایسے ملعون و مردود کی بھرپور
طریقے سے مزاحمت کی اور شاتمِ رسول ﷺ کے مرتکب کو کیفرِ کردار تک پہنچانے
کا بیڑا اٹھایا اور اس ملعون کو نیست و نابود کر دیا۔
2005 ءکے آخر یا 2006 ءکے اوائل میں بھی اسی طرح نعوذ باللہ مختلف اخبارات
میں آپ ﷺ کے خاکے شائع کئے گئے تھے ،جن میں سے چند کے نام میں درج کئے دیتا
ہوں۔فرانس سوئر، دی دامینشن پوسٹ، دی کرائیسٹ چرچ، الشیان، النہار الشربیہ،
میگزنیٹ، فلاڈلفیا انکوائر، سن۔ اسی طرح اور بھی کئی اخبارات تھے جن میں اس
مکروہ فعل کو چھاپا گیا تھا۔ جس سے پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج بنی ہوئی
تھی ۔ اُمتِ مسلمہ کے سخت احتجاج کی وجہ سے بالآخر تمام اخبارات کے مالکان
نے معافی نامہ شائع کیا۔
رواں دور میں تو فلم ہی بنا دی گئی، پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ملکوں
نے YouTubeپر تا حکمِ ثانی پابندی لگا دی ہے۔ راقم کے خیال میں اس پر
پابندی عارضی نہیں مستقل لگنی چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی بھی Tubeیا اخبارات
یا بیرونی میڈیا اس قسم کی حرکت سے اجتناب کرے۔
ہر دور میں یہود و ہنود نے مسلمانوں کی دل آزاری کی ہے۔ دنیا میں پھیلے
ہوئے تمام مسلمانوں کو امتحان میں ڈالا ہے، میرا تو خیال ہے کہ یہ تمام
یہود و ہنود گاہے بگاہے اس قسم کی حرکت و سکنات کرکے یہ دیکھنا چاہتے ہیں
کہ ابھی ان مسلمانوں میں اور کتنی غیرت اور عشق و محبت اپنے آقا حضور ﷺ کے
لئے باقی ہے۔ شاید ان ملعونوں ، کم ظرفوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم تو کیا
ہماری آل اولاد، ہمارے ماں باپ اور امتِ مسلمہ کا ایک ایک فرد تا قیامت
اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کی محبت میں اسی طرح گرفتا ر رہیں گے جس طرح
صحابہ کرام اجمعین علیہ السلام گرفتار تھے۔ اور یہ سلسلہ کبھی کم نہیں ہو
سکتا۔اور دنیا بھر میں ہر پیدا ہونے والا مسلمان بچہ اسی طرح عشقِ رسول ﷺ
میں مبتلا ہوتا ہے جیسے 1400 سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا ملعونوں،
یہودیوںیہ بات نوٹ کر لو کہ ہمارے دل عشقِ مصطفی ﷺ سے سرشار ہیں جس میں
کبھی کمی تو نہیں آ سکتی ہاں زیادتی کی اُبال ضرور ہوگی۔
حکومتی سطح پر یوم عشقِ مصطفی کا دن منایا جا رہا ہے وطنِ عزیز کے تمام لوگ
اس دن کو منانے کیلئے پُرجوش ہیں مگر حکومتی سطح پر اس کا سدِّباب ہونا
چاہیئے ۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں صدرِ پاکستان اقوام متحدہ میں
ہونگے اور وہاں شاید خطاب بھی کریں گے ۔ پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ
پاکستان کی نمانئدگی کرتے ہوئے گستاخِ رسول کی سزا ، سر تَن سے جدا کا حکم
نامہ داخل کریں تاکہ پوری دنیا کو یہ معلوم ہو سکے کہ یہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی نمائندگی کرنے آئے ہیں۔
امید ہے کہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا دفاع کرتے ہوئے ہر سطح پر آواز
بلند کیا جائے گا ۔ گستاخِ رسول ﷺ کے مجرمین کے خلاف مسلمانانِ پاکستان پُر
زور ملطابہ کرتی ہے کہ وہ اپنی قومی غیرت و حمیت، نسبی اور دینی کی ترجمانی
کرتے ہوئے فوری طور پر او۔ آئی۔ سی کا سربراہی اجلاس بلا کر توہینِ رسالت
کے مجرمین اور ان کو تحفظ دینے والے ممالک کے خلاف سفارتی، سیاسی و اقتصادی
اقدامات کا اعلان کرے، ان کی مصنوعات کا فوری طور پر بائیکاٹ شروع کیا
جائے، دنیا بھر میں ڈیڑھ عرب سے زائد مسلمان موجود ہیں اور ان سب کا واحد
ترجمان او۔آئی۔سی ہے پھر یہ تنظیم ابھی تک خاموش کیوں ہے۔ بے حسی کا رویہ
کیوں اپنایا ہوا ہے۔ اس پر امتِ مسلمہ کو بھی سخت تشویش ہے۔
امتِ مسلمہ کا صرف ایک ہی بات پر متفق ہے کہ اس ملعون، خبیس، واجب القتل،
شاتمِ رسول ﷺ کی بے ہودہ حرکات پرپھانسی کی قرار داد پیش کرتی ہے اور اس
ملعون سے ہمدردی کرنے والے ممالک پر بھی تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔ لہٰذا
مغربی دنیا اس سلسلے میں فوری کاروائی عمل میں لائے تاکہ مسلمانوں کے جذبات
بھڑکانے والے اپنی عاقبت نا اندیشی کے بعد واصل بحقِ جہنم ہو سکے۔میں علامہ
اقبال کے اس شعر کے ساتھ اس مضمون کو اور اپنے قلم کو روکنے کی کوشش کرتا
ہوں کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ہے کہ اس موضوع پر لکھنے کی
ضرورت نہیں بلکہ قلم اس موضوع پر خود بہ خود تحریر کرنے لگتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں |